اندر کی بات
شہباز اکمل جندران
بجلی بِلوں نے سب کا جینا حرام کر دیا۔ غریب تو غریب اب امیر بھی بجلی بلوں کو لے کر بڑی مشکل میں ہیں۔ برملا اس مشکل کا اظہار بھی کر رہے ہیں۔ بجلی آئے، نہ آئے، بل ضرور آ رہے ہیں وہ بھی ہوشربا اضافے کے ساتھ۔ پوری قوم سکتے کی سی کیفیت میں ہے۔ چند شہروں میں تو لوگ سڑکوں پر بھی نکل آئے ہیں۔ بجلی بلوں پر اپنی برہمی اور شدید غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔ سیاسی جماعتوں میں سے صرف ایک جماعت اسلامی ہی ہے جو سڑکوں پر ہے۔ تاہم جماعت کا یہ احتجاج صرف کراچی اور اسلام آباد تک محدود ہے۔ باقی جتنی بھی جماعتیں ہیں خاموش ہیں۔ اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت پی ٹی آئی بھی کچھ نہیں بول رہی۔ بولنے سے گریزاں ہے۔
مسلم لیگ (ن) بھی بھلا کیا بولے گی کہ خود حکومت میں ہے۔ وفاق اور پنجاب میں نظام حکومت چلا رہی ہے۔ وعدے تو بہت کئے تھے کہ 300یونٹ تک بجلی فری کر دیں گے لیکن صرف پنجاب میں اجناس کی قیمتیں ہی کم کر پائے ہیں۔ بجلی ایشو پر کچھ نہیں کر سکے۔ مریم نواز کے بجلی بلوں کے حوالے سے سب وعدے، دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ لوگ بجلی پر شعر لکھ کر نوحہ کناں ہیں۔ بجلی پر کچھ ترانے بھی مارکیٹ میں آ گئے ہیں جو اربابِ اختیار کے لیے شرم اور ڈوب مرنے کا مقام ہے۔
بجلی کے بلوں میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟ کون کون سا ٹیکس کس مد میں لیا جارہا ہے؟ ٹیکسز کے علاوہ دیگر سرچارجز کتنے ہیں؟ آئیے جانتے ہیں۔
نیپرا نے حال ہی میں بجلی یونٹ میں 4روپے 96پیسے کا مزید اضافہ کیا جس کے بعد ملک بھر کے صارفین کے بجلی بِل کافی بڑھ گئے۔ 100یونٹ تک کے صارفین کا پہلے فی یونٹ 18روپے 95پیسے کا تھا۔ اب 22روپ 95پیسے کا ہے۔ مطلب چار روپے کا اضافہ ہوا ہے۔300یونٹ تک استعمال کرنے والوں کا پہلے ایک یونٹ 22روپے 14پیسے کا تھا، اب 27روپے 14پیسے کا ہو گیا ہے۔ یعنی پانچ روپے کا اضافہ ہوا ہے۔
اس طرح 400یونٹ تک فی یونٹ 25روپے 80پیسے کا تھا۔ اب 32روپے 30پیسے کا ہے۔ یعنی ساڑھے چھ روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ 500یونٹ تک پہلے فی یونٹ 27روپے 74پیسے تھا، جو، اب 35روپے 24پیسے کا ہے۔ مطلب ساڑھے 7روپے فی یونٹ کا اضافہ ہوا ہے۔
بجلی میں اضافے کا اعلان یکم جولائی سے ہوا۔ اس لیے آنے والے بلوں میں اب اس اضافے کا اطلاق دیکھنے میں آئے گا۔ بجلی کے کروڑوں صارفین پر یہ بہت بڑا بوجھ ہو گا۔ رواں ماہ فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں ہر یونٹ پر 2روپے 31پیسے بڑھے ہیں۔ جن صارفین کو ماضی کی حکومتوں نے ریلیف دیا ان سے بھی اس ”ریلیف“ کی وصولی بلوں کے ذریعے کی جائے گی۔ علاوہ ازیں پاور سیکٹر کا گردشی قرضہ اتارنے کے لیے بھی پیسے بجلی صارفین سے وصول کئے جائیں گے۔ پاور ہولڈنگ لمیٹیڈ سرچارج کے نام سے ہر گھریلو صارف سے فی یونٹ 43پیسے جبکہ کمرشل صارفین سے 3روپے82پیسے وصول کئے جا رہے ہیں۔
ڈھائی سو یونٹ کے بل پر الیکٹرسٹی ڈیوٹی، سیلز ٹیکس، ٹی وی ماہانہ فیس ملا کر ٹیکسز اور ڈیوٹیز 13فی صد سے زائد ہیں۔ اگر ایک بل ڈھائی سو یونٹ کا ہے تو 27روپے فی یونٹ کے حساب سے بل 7ہزار روپے کا ہو گا۔ تاہم ٹیکسز اور دیگر چارجز قریباً ساڑھے 5ہزار روپے کے بنیں گے یوں 7ہزارکا بل ساڑھے 12ہزار کا ہو جائے گا۔
بڑھتے ہوئے بجلی کے ہوشربا بلوں نے جہاں تاجر پیشہ افراد، سرکاری ملازمین اور محنت کش طبقے کو متاثر کیا ہے۔ وہاں شوبز ستارے بھی پریشان حال ہیں۔ سینئر ٹی وی سٹار راشد محمود اور سابق فلم اداکارہ نشو نے جب اپنے ڈومیسٹک بلوں کو لے کر میڈیا کے سامنے دہائی دی اور اُن کے بیان نجی ٹی وی چینلز نے اپنی معمول کی نشریات (نیوز بلیٹن) میں نشر کئے تو دیگر ستارے بھی سامنے آنے لگے۔ اداکارہ و ہدایت کارہ سنگیتا نے بھی ٹی وی پر آ کر زیادہ بل کا دکھڑا سنایا۔ ہدایت کارہ کے مطابق رواں مہینے واپڈا نے انہیں 60ہزار کا بل بھجوایا جو بہت زیادہ ہے۔ ہدایت کار و اداکارہ کے مطابق وہ صرف ایک ایئرکنڈیشنر استعمال کرتی ہیں۔ حیران کن بات ہے بل میں بجلی کی قیمت 20ہزار روپے درج ہے جبکہ مختلف ٹیکسز کی مد میں 40ہزار روپے لگائے گئے ہیں۔ کامیڈی سٹار غفار لہری بھی اپنے بجلی بل کو لے کر بہت پریشان ہیں۔ یہ وہ دہائیاں ہیں جو، اب زبان زد عام ہیں۔
یہ حکومتی پالیسی ہے یا یہ سب آئی ایم ایف کی ایماءپر ہو رہا ہے۔ حکومتی وضاحت کی ضرورت ہے۔ عوام کو ریلیف دینا حکومتوں کا کام ہوتا ہے۔ اُن کی ذمہ داری ہونی چاہیے کہ وہ ملک میں رہنے والوں کے لیے آسانیاں پیدا کریں۔ حکومتیں آتی ہیں، چلی جاتی ہیں جبکہ آنے والی ہر حکومت ”عوامی ریلیف“ کے وعدے، دعوے کر کے اقتدار کی مسند پر براجمان ہوتی ہے لیکن کم ہی ہوتا ہے کہ وہ اپنے وعدوں کی تکمیل کر سکے۔ یہی وجہ ہے جب اقتدار میں آنے والی جماعتیں اپنے منشور سے ہٹ جاتی ہیں اُن پر عمل پیرا ہونے میں لیت و لعل سے کام لیتی ہیں تو ایسی جماعتیں اپنی عوامی مقبولیت کھو بیٹھتی ہیں۔
یقینا اس وقت ملک کو بہت سے چیلنجز اور مسائل کا سامنا ہے جن میں مہنگائی، پیٹرول، گیس اور بجلی کے بڑھتے ہوئے بل بہت بڑے مسئلے ہیں۔ جمہوری حکومتوں کی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ عوامی حمایت حاصل کرنے کے لیے عوامی مسائل کی طرف ناصرف توجہ دے بلکہ انہیں حل بھی کرے۔
پاکستان کا شمار تیسری دنیا کے ایسے ممالک میں ہوتا ہے جو ترقی پذیر ہیں اور سعی کر رہے ہیں کہ اُن کا شمار بھی ترقی یافتہ ملکوں میں ہو لیکن یہ تبھی ممکن ہے جب تجارت بڑھے اور ملک کے معاشی حالات اچھے ہوں۔
پاکستان کے متعلق ہم کہہ سکتے ہیں کہ قدرت نے اسے ہر طرح کا موسم دے رکھا ہے اور ہر طرح کی قدرتی معدنیات سے مالا مال کیا ہوا ہے۔ یہاں گیس اور پیٹرول کے ذخائر بھی ہیں ۔ تانبے اور سونے کے وسیع سلسلے ”چاغی“ کے پہاڑوں میں موجود ہیں۔ خیبر پختونخوا بھی بہت سی معدنیات سے مالا مال ہے۔ جپسم اور اعلیٰ قیمتی پتھروں کے ذخائر بھی بہت بڑی تعداد میں یہاں پائے جاتے ہیں۔ اگر کمی ہے تو ایمانداری اور محنت کی۔ ہم صحیح ڈائریکشن کی طرف چل نکلیں اور آج ہی سے عہد کر لیں کہ پاکستان کو قائد کے خوابوں کی تعبیر بنانا ہے۔ یہاں رہنے والوں کی زندگیوں کو سہل اور آسان کرنا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ یہاں مسئلے حل نہ ہوں۔
بجلی ایک بحران ہے۔ ماننا پڑے گا کہ پیٹرول سے مہنگی بجلی بنتی ہے۔ کالا باغ ڈیم کا مسئلہ بھی ہم دہائیوں سے حل نہیںکر سکے۔ یہ ہمیشہ سیاست کی نذر ہوتا رہا۔ کالا باغ ڈیم بن جاتا، کسی کی سیاست کی بھینٹ نہ چڑھتا تو آج لوگوں کو سستی بجلی مل رہی ہوتی۔ ہر یونٹ ڈیڑھ، دو روپے سے اوپر کا نہ ہوتا۔
اب بھی وقت ہے ہم سنبھل جائیں۔ ہوش کے ناخن لیں۔ سیاست اور صوبائی عصبیت سے باہر نکل کر صرف ملک کا سوچیں اور اس کی خوشحالی اور بہتری کے لیے کام کریں۔ آئی ایم ایف سے چھٹکارا پانا بھی ہمارے لیے انتہائی ضروری ہو گیا ہے۔ جب تک اس سے جان نہیں چھوٹے گی بجلی ٹیرف کی تلوار ہم پر یونہی لٹکتی رہے گی۔ ایسے لگتا ہے، جیسے ہم نے بجلی کے محکمے کو آئی ایم ایف والوں کو مستعار دے دیا ہے۔ بجلی بلوں میں کمی حکومت وقت کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ باقی وہ جو کچھ بھی کر لے بجلی بلوں میں اگر کمی نہ کر سکی تو اُس کی مقبولیت اور سیاسی ساکھ ختم ہو کررہ جائے گی۔ مسلم لیگ (ن) کا سیاسی طور پر زندہ رہنا اب بجلی بلوں سے مشروط ہو گیا ہے۔ یہ سوچنا نواز شریف اور شہباز شریف کی صوابدید پر ہے کہ بجلی بلوں کی اس بحرانی کیفیت کو کیسے ختم کرتے ہیں۔
بجلی بِلوں کا مداوا کون کرے گا؟
Jul 06, 2024