ساز ملک
"محبت محبت محبت میں محبت ہوں "
اس جہانِ فانی میں پیدا ہوتے ہی انسان محبت کا نور اپنے اندر سمیٹ کر لاتا ہے۔۔ پہلی نگاہ ماں کی محبت بھری نگاہ ہوتی ہے جو اپنی کوکھ کی تخلیق پر نم آنکھوں سے اسے دیکھتی ہے۔۔۔ محبت کی وہ پہلی نگاہ انسان کے جسم و جان میں جذب ہوتی ہے اور پھر اس قدر اثر انگیز ہوتی ہے کہ تا عمر خود پر پڑنے والی ہر نظر سے قدرتی طورپر آگہی مل جاتی ہے خاص طور پر محبت کی نظر۔۔۔۔میں محبت کے زاوئیے کو بارہا سمجھنے کی کوشش کرتی ہوں مگر محبت مجھے سمجھ کی ہتھ پھڑائی نہیں دیتی۔۔ میں اسکے وجود کو اپنے دل اور روح میں محسوس کرتی ہوں۔۔ جب سے شعور ملا آگہی کے کچھ در رب کریم کی عطا سے وا ہوئے میں محبت سے ہمکلام ہونا چاہتی تھی۔۔ محبت جو رگ و پے میں خون کی طرح دوڑتی ہے۔۔مگر عقل و خرد کی حدود میں نہیں سماتی۔۔ میں نے رب تعالی سے دعا کی رب تعالی محبت تو تیرے نور کی لہر ہے جو انسان کو عطا ہوئی اسے انسانیت کے دائرے میں رکھنے کے لئیے۔پر ہمیں سمجھ بوجھ نہیں ما سوا اس کے کہ محبت محدود ہو کرفقط عورت مرد کے دائرے میں ایک نکتہ بن کر سمٹ گئی ہے۔۔بے شک آپکی محبت کے نور کی لہر کا احساس آدم علیہ اسلام کو حوا کو دیکھتے ہی ہوا مگر اسکے اندر یہ چاہ آپ نے رکھی رب تعالی۔۔میں محبت کو دیکھنا سمجھنا چاہتی ہوں اس سے بات کرنا چاہتی ہوں۔۔ رب تعالی کے کرم سے میری بند آنکھوں کے سامنے ایک آئینہ ابھرا جس میں ایک چہرہ نمودار ہوا جس پر مختلف رنگ لگے ہوئے تھے یا پینٹ کئیے گئے تھے وہ اس قدر سفیدی سے بھرا اور نورانی تھا کہ میں اسکے نورانی رنگوں کی تاب نہ لا سکی مگر بند آنکھوں کو بند کرنے کا ہنر ابھی میرے پاس نہیں ہے سو میں بند آنکھوں میں اپنی کھلی آنکھیں اس پر مرکوذ کر کے اسے سننے لگی وہ مجھ سے مخاطب ہوئی تو مجھے لگا ستار کا ہر سر چھڑ گیا ہو بانسری کی مدہم لے بھی اس میں شامل ہو گئی ہو۔۔ دماغ کی لہروں پر گفتگو کے سلسلے کا آغاز ہوا۔۔مجھے لگا ساز کے سارے سر اپنے اندر سمیٹ کر وہ مجھ سے مخاطب ہوئی۔اے بنتِ حوا ۔میں ہوں خالقِ کائینات کی پاک نگاہ سے نکلی توجہ کی وہ نورانی لہر جس نے آدم کی مٹی میں جذب ہو کر ساری دنیا کے انسانوں کو محبت سے اشنا کر دیا محبت لامحدود ہے مگر اس محبت کی لہر کا احساس اسے اپنے رب تعالی کے روبرو ہوا اور پھر اس لہر کا شدت سے احساس تب ہوا جب آدم نے حوا کو دیکھا تو محبت کی لہر اللہ کے حکم سے اس طرف منتقل ہو گئی اور دل کی دھڑکنوں میں ہونے والا ارتعاش قدرت کی جدید ٹیکنالوجی میں ریکارڈ ہو گیا ایک لہر کی صورت ۔۔۔
رب تعالی نے جب آدم کے پتلے میں اہنی نگاہ کا نور محبت سے بھر دیا میں محبت ہوں نور کی وہ لہر ہوں جو سکینڈ کے ہزارویں حصے میں پتلا ءخاکی میں جذب ہوئی ہے۔۔ اربوں سالوں سے زمانے کی ہوا وقت کی فضا میرے بدلتے ڈھنگ دیکھ رہی ہے۔۔گزرتے لمحات میرے رنگوں کی بے رنگی کو بھانپتے ہوئے مجھے الجھی سوالیہ نظروں سے دیکھتے گزر جاتے ہیں
مجھے تم سے توقع تھی اے بنتِ حوا کہ تم مجھ سے سوال پوچھو گی مگر تم تو ایک پتھر کے بت کی طرح آنکھیں کھولے مجھے تکتی جا رہی ہو اس نے مجھے سرزنش کرتے ہوئے ہلکی خفگی کا اظہار کیا تو میں ہڑبڑا کر کہنے لگی درا اصل میں تمہارے رنگوں کو دیکھ رہی ہوں مگر میں اپنی آنکھیں بند نہیں کر سکتی ہاں ابھی میں تمہارے سحر سے نہیں نکل پا رہی وہ جیسے میرے بوکھلاہٹ سے بھرے بے تکے جواب پر قہقہہ لگاتے ہوئے مجھے دیکھنے لگی۔ پھر کہنے لگی اچھا چلو ایک سوال کا میں جواب دیتی ہوں جو تمہارے ذہن کی دہلیز پر پڑا ﺅا ہے کہ
محبت محبت محبت کرنے والے کیا مجھے جانتے ہیں
میں کہوں گی بالکل نہیں۔بالکل بھی نہیں۔۔ افسوس کہ محبت کی کسی کو سمجھ ہی نہیں میرا دامن لا محدود ہے مگر انسانی ذہن مجھے سوچتے ہوئے محدود ہو جاتا ہے
میں نے سوال کیا تو ہھر آپکو کون جان سکتا ہے
وہ مسکائی مجھے لگا جیسے دور کہیں ہلکی گھنٹیاں بجنے لگی ہوں وہ بولی
۔ محبت کو صرف اللہ والے جانتے ہیں وہ جس کو رب تعالی عطا فرما دے وہ سمجھ سکتا ہے۔
باقی عام انسان بشری تقاضوں کو محبت سے نتھی کر دیتا ہے جو سراسر غلط ہے اس نے خفگی بھرے انداز میں جارحانہ انداز میں کہا۔۔ تو میں اس خفگی کو اسکا حق جان کر سر جھکا کر بولی یہ فطرت انسانی ہے انسان بھی کیا کرے جو ڈسک اللہ رب العزت نے اسکے اندر رکھ دی ہے وہ کام تو کرتی ہے اور پھر وہ اس سے پرے جا بھی نہیں سکتا۔۔۔
اس نے سر ہلا کر کہ ٹھیک ہے مگر پھر بھی نفسانی خواہشات کے دائروں کی وسعت نے محبت کو پراگندہ کر دیا ہے۔۔ یہ دیکھو اس کے چہرے پر کالک نمایاں ہو رہی تھی اس نے افسردگی سے کہا یہ سب انسان کی نفسانیت کے اثرات ہیں یہ وہ داغ ہیں جنہیں میں چاہ کر بھی نہیں مٹا سکتی۔۔۔۔۔۔ میں نے شرمندگی سے سر جھکا لیا اور پھر گہری خاموشی ہمارے درمیاں دیوار کی صورت کھڑی ہو گئی۔۔
وقت کی نزاکت کو بھانپتے ہو? میں نے سوچ کی لہروں کو ہموار رکھنے کی کوشش کرتے ہوئے میں نے اس سے پھر سوال پوچھنے کی جسارت کر لی
تو اسکا مطلب آپ انسان سے خفا ہیں کہ وہ آپکا نام لے کر انسان کے لیے ہی اپنے شر بھرے مذموم ارادوں کی تکمیل پر توجہ رکھتا ہے ،؟
اس نے غصیلے انداز میں کہا ہاں۔۔
محبت کا جذبہ یعنی میرا وجود مٹ رہا ہے۔۔۔ مرے رنگ اڑنے لگے ہیں۔۔۔ میری پرواز ختم ہو رہی ہے۔۔۔
مرے انداز رد ہونے لگے ہیں۔۔۔ مجھے محسوس کرنے والے حساس دل بے حس ہو گئے ہیں۔۔
پھر قدرے نرم لہجے میں کہا
اے بنت حوا انسان پڑی اعلی ارفع مخلوق ہے رب تعالی نے مجھے ایک جذبے میں ڈھال کر انسان کے وسیع دل میں رکھ دیا ہے۔۔۔ مجھےاس جذبے میں نہ ڈھالا جاتا تو مجھے کون جانتا اور آج تم مجھے جاننے کی جستجو میں اللہ سے علم نہ مانگتی
تم پر رب کریم کا کرم ہے ورنہ اس شر کے دور میں
نفرتوں کی تجارت ہو رہی ہے۔۔
میں نے کہا اللہ کی محبت ہی اتنی ہمت عطا کرتی ہے کہ ہم جیسے مٹی کے زرے بھی کائیناتی جستجو کی تمنا کرنے لگتے ہیں۔۔ غور و فکر کرتے ہیں
اس نے تائید میں سر ہلایا اور کہا اللہ کے خاص بندے مجھے جانتے ہیں انکے دلوں میں میرا بسیرا ہے اور انہی کے دم سے میرا وجود زندہ ہے۔۔۔
چلو اب میں جاتی ہوں مگر یاد رکھنا میرا بسیرا بھی تمہارے دل میں ہے تبھی تو تم سے مکالمہ کا موقع ملا یہ کہہ کر وہ چہرہ صورت لہر میرے دل کے اندر جذب ہو گیا اور میں فورا سجدے میں گر کر رب کریم کا شکر ادا کرنے لگی کہ اس دجالی دور میں اللہ کے رحم کرم اور عطا سے محبت میرے دل کی مکین ہے
یہ تحفہءآسمانی زمین ہر موجود ہے۔۔۔
شکر الحمد للہ اے رب کریم شکر الحمد للہ
"محبت سے مکالمہ"
Jul 06, 2024