ناکام حکومت اور نظام انصاف 

حکومت نے آئی ایم ایف کی شرائط پر جو بجٹ پیش کیا ہے،اب اسمبلی سے بجٹ منظوری کے بعد ملک میں مہنگائی کی نئی لہر دکھائی دے رہی ہے ،نئے بجٹ میں عوام پر 1700 ارب روپے کے اضافی ٹیکسز عائد کئے گئے ہیں، جنرل سیلز ٹیکس اور تنخواہ دار طبقے کے انکم ٹیکس کی شرح میں اضافے کے ساتھ ساتھ بجلی ، گیس ،اور پیٹرول کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں،حکومت مشکل معاشی فیصلوں کی وجہ آئی ایم ایف کے نئے بیل آئوٹ پیکج کو قرار دے رہی ہے،ایک طرف حکومت قوم سے قربانی مانگ رہی ہے ، تو دوسری جانب حکومت نے آئینی اداروں کے بجٹ میں 62 فیصد اضافہ کیا ہے،قومی اسمبلی کے بجٹ میں 4 ارب ، ایوان صدر کے بجٹ میں 1 ارب 11کروڑ ، وزیر اعظم ہائوس کے بجٹ میں 31 کروڑ 32 لاکھ روپے کا اضافہ کیا گیا ہے،نئے بجٹ میں اراکین قومی اسمبلی کے سفری الائونس کو 10 سے 25 روپے فی کلو میٹر تک بڑھا دیا گیا ہے ، اراکین اسمبلی سالانہ 25 بزنس کلاس ٹکٹ استعمال نہ ہونے کی صورت میں اگلے سال بھی استعمال کر سکیں گے۔

اراکین اسمبلی کو ملنے والی دیگر مراعات کی بات کی جائے تو ہر رکن قومی اسمبلی کو ایک لاکھ 50 ہزار روپے بنیادی تنخواہ، سالانہ 3 لاکھ روپے کے ٹریول واوچرز، ٹیلی فونک الاؤنس کی مد میں 10ہزار، آفس الاونس کی مد میں 8 ہزار ملیں گے، ایڈہاک ریلیف کی مد میں15ہزار، اضافی الاونس کی مد میں5 ہزار بھی تنخواہ میں شامل ہوگا، قائمہ کمیٹی کے چیئرمین بننے پر 25ہز ار روپے اعزازیہ دیا جائے گا، رکن اسمبلی بطور چیئرمین کمیٹی 1300 سی سی گاڑی کے ساتھ 600 لیٹر فیول بھی فراہم کیا جائے گا،غریب قوم کی نمائندہ پارلیمنٹ کے شاہانہ اخراجات کی داستان یہی ختم نہیں ہوتی،پلڈاٹ کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ قومی اسمبلی کے ایک اجلاس پر 6 کروڑ 65 لاکھ  روپے کی رقم خرچ ہوئی،جبکہ ایک ایم این اے پر ریاست نے 2 کروڑ 5 لاکھ روپے خرچ کیے‘وہ پارلیمنٹ جسے عوام کو ریلیف دینے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں، وہ اپنی مراعات میں اضافے کے لئے سرگرم دکھائی دے رہی ہے۔
 روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگانے والی پیپلزپارٹی غریب دشمن بجٹ کو منظور کروانے کے لیے پنجاب میں پاور شیئرنگ فارمولے کے لیے سیاسی سودے بازی کرتی رہی، بظاہر بلاول بھٹو اس بجٹ کو بابوزکا بجٹ قرار دیتے رہے مگر پھر جمہوریت کے وسیع ترمفاد میں بجٹ کی حمایت کرتے دکھائی دیے،ایک طرف غریب قوم پر ہرروز پیٹرول اور بجلی کے بم گرائے جا رہے ہیں، تو دوسری جانب لاہور میں بیوروکریسی کے اعلی افسران کے لئے 2 ارب روپے کی لاگت سے29 لگثرری گھر تعمیر کیے جا رہے ہیں،سوال یہ ہے کہ اس ملک میں تمام مراعات سمیٹنے والی اشرافیہ کتنا ٹیکس دیتی ہے، کیا غریب قوم افسر شاہی اور بے حس نمائندوں کا بوجھ اٹھا سکتی ہے۔ 
بظاہر لگ رہا ہے کہ حکومت وفاق اور پنجاب میں ناکام ہوچکی ہے اور بجلی کے بل ہوں یا پیٹرول کی قیمتوں کا مسئلہ ہو یا پھر روٹی کی قیمت حکومت کسی بھی جگہ عوام کو ریلیف دینے میں ناکام دکھائی دیتی ہے۔اراکین اسمبلی کی مراعات اور پھر ترقیاتی بجٹ کے نام پر اراکین اسمبلی کو نوازا جا رہا ہے اور دوسری جانب قوم کو کہا جا رہا ہے کہ وہ قربانی دے اور ٹیکس دے جبکہ ان کے اپنے اللے تللے ختم ہونے کا نام ہی نہیں رہے ،بظاہر دکھائی دیتا ہے کہ عوام سیاست دانوں سے مایوس ہو چکے ہیں۔
ادھر عدلیہ سے بھی عوام کی توقعات پوری ہوتی دیکھائی نہیں دے رہی اب تو  یہ حال ہے کہ لوگ ججز کے خلاف پریس کانفرنس تک کرنے لگ گئے ہیں۔
پاکستان کی عدالتوں کا نظام میں ماضی میں بھی لکھ چکا ہوں کہ ہمارے ہاں دادا کیس کرتا ہے اور پوتا تاریخیں بھگت رہا ہوتا ہے انصاف پھر بھی نہیں ملتا۔ماضی میں ہم نے دیکھا کہ چیف جسٹس افتخار چودھری کے بیٹے نے بھی اپنے باپ کے مقام کا ناجائز فائدہ اٹھایا اور پاکستان کے امیر ترین لوگوں سے فوائد سمیٹے۔اب اگر کسی جج کا بیٹا کسی جرم یا قتل میں ملوث ہے تو اس غریب شخص کو ضرور انصاف ملنا چاہییوگرنہ لوگوں کا ہمارے نظام سے خصوصا نظام عدل سے اعتبار اٹھ جائے گا۔
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن