کیا مجید نظامی ،علامہ اقبال اور قائد نے اسی پاکستان کا خواب دیکھا تھا ؟کیا اسی پاکستان کیلئے ہمارے بڑوں نے جانی اور مالی قربانیاں دی تھیں ؟ قطعی طور پر نہیں بلکہ مجید نظامی، اقبال اور قائد کا خواب خوشحال۔ قانون کی حکمرانی ، انصاف اور برابری والا پاکستان چاہتے تھے۔ علامہ اقبال ایک قومی شاعر ہی نہیں تھے بلکہ ایک عظیم سیاست دان بھی تھے۔ جب آپ میدان سیاست میں اترے تو مسلم لیگ کی صدارت آپ کو پیش کی گئی۔ 1922 میں حکومت نے آپکی خدمات کے اعتراف کے طور پر آپ کو ’’سر ‘‘ کا خطاب دیا۔ آپ مجلس قانون ساز کے رکن بھی رہے۔ گول میز کانفرنس لندن میں شرکت کی۔ اور واپس آکر مسلمانوں کی راہنمائی کرتے ہوئے الگ وطن کیلئے کوششیں شروع کر دیں۔
1930 میں الہ آباد میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے آپ نے جو خطبہ دیا اسے آزاد مسلم ملک کی طرف پہلا قدم سمجھا جاتا ہے۔ اور قائد اعظم نے اسی تصور کو عملی شکل عطا کرنے کیلئے کوشش کی اور مسلمان ہند کو 14 اگست 1947 کو شاعر مشرق کے خواب کی تعبیر پاکستان کی صورت میں ملی اس لئے اقبال کو تصور پاکستان بھی کہا جاتا ہے۔ پنڈت نہرو نے دعویٰ کیا کہ ہندوستان میں صرف وہ بڑی طاقتیں ہیں۔ ایک کانگریس اور دوسری انگریز۔ مسلمان لیڈروں قائد اعظم اور علامہ اقبال نے اپنے پْرزور دلائل سے دو قومی نظریہ پیش کیا کہ مسلمان مذہب۔ تاریخ۔ لباس۔ تہذیب۔ زبان غرض ہر لحاظ سے ہندوؤں سے الگ قوم ہیں اور یہی ’’نظریہ پاکستان‘‘ کی بنیاد بنا تھا۔ مسلمانوں کا طرزمعاشرت۔مذہب اوربنیادی اخلاقیات ہندو قوم سے قطعی الگ ہے۔ علامہ اقبال نے مغربی تہذیب اور فرنگی نظریہ و طنیت کو بے نقاب کر کے دینی اقدار کا پتہ بتایا۔ ماضی کے عظیم واقعات کو اْجاگر کر کے قوم کو متحد کیا۔ مسلمان مستقل اور مثبت طریق پر ایک الگ قوم ہیں وہ اپنا الگ قومی وجود رکھتے ہیں۔ اپنی مخصوص ثقافتی روایات کو برقرار رکھنے کے جذبے سے سرشار ہیں۔
آئے دن ہندوستان کے کسی نہ کسی علاقے میں مسلم کْش فسادات برپا کئے جاتے جن میں سینکڑوں مسلمان بے دردی سے موت کے گھاٹ اْتار دیئے جاتے۔ مسلمان آخر کب تک اِن حالات کو برداشت کرتے۔ بالآخر اْنکی سوچیں اِس نقطہ پر مرتکز ہونا شروع ہو گئیں کہ اگر مسلمانوں کو یہاں زندہ رہنا ہے اور اپنے دین۔ روایات اور تہذیب کو بچانا ہے تو انہیں برصغیر ہندوستان میں ایک الگ خطہ زمین درکار ہے جہاں وہ ہندوؤں کی مداخلت اور ’’چیرہ دستیوں‘‘ سے محفوظ رہ سکیں۔
علامہ اقبال نے مسلمانوں کو صرف ایک نئی سوچ اور نئی منزل کا نشان دیا۔ قائد اعظم نے آگے بڑھ کر اس قوم کی منزل کی طرف سفر کی قیادت کی۔ اور ایسی قیادت کی کہ دنیا دنگ رہ گئی۔ آپ نے جس طرح ہندوؤں اور انگریزوں کی مخالفتوں۔ چال بازیوں اور سازشوں کو اپنے بے مثال تدبر۔ جرأت اور جوں مردی سے ناکام بنایا۔ انھوں نے ہندوؤں اور انگریزوں کو حیران و پریشان کر کے رکھ دیا اور بلاشبہ یہ کام صرف اور صرف آپ کر سکتے تھے۔
اب سوال یہ ہے کہ علامہ اقبال اور قائد اعظم کس قسم کا پاکستان چاہتے تھے۔ یہ آپ اْنہیں اپنی زبانی ہی سنیے :
’’ہم نے پاکستان کا مطالبہ زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کیلئے نہیں کیا تھا بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں ہم اسلامی اصولوں کا آزما سکیں ’’۔
’’اسلام نے جمہوریت کی راہ دکھائی ہے۔ مساوات اور انصاف کا سبق دیا ہے۔ اسلامی اصولوں پر عمل کرنے سے ہم ہر ایک کے ساتھ انصاف کر سکیں گے‘‘ــ۔’
’میری آرزو ہے کہ پاکستان صحیح معنوں میں ایک ایسی مملکت بن جائے کہ ایک بار پھر دنیا کے سامنے فاروق اعظم کے سنہری دور کی تصویر عملی طور پر کھنچ جائے۔ خدا میری اس آرزو کو پورا کرے‘‘۔ صرف یہی دو تین بار نہیں۔
قائد اعظم نے قیام پاکستان سے قبل اور بعد کم و پیش ڈیڑھ سو بار مختلف مواقع پر مختلف الفاظ میں یہ بات دھرائی کہ پاکستان کا نظام حکومت اسلامی اصولوں پر چلے گا۔ اور یہی وہ بات تھی جس نے عوام الناس کو سب سے زیادہ متاثر اور متوجہ کیا۔ اور یہی وہ بات تھی جو ’’پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ‘‘ کے نعرے میں ڈھل گئی اور مسلمانان ہند جوق در جوق والہانہ انداز میں تحریک پاکستان میں شامل ہوتے چلاے گئے۔ وہ نئے بننے والے ملک میں خلفائے راشدین جیسا پاکیزہ۔ جمہوری اور فلاحی نظام دیکھنا چاہتے تھے۔
ایک موقع پر صوبائی عصبیت پر بات کرتے ہوئے فرمایا : ’’ہمیں بنگالی۔ سندھی۔ پنچابی اور پٹھان کی بات نہیں کرنی چاہئے۔ بلاشبہ یہ پاکستان کی اکائیاں ہیں۔ لیکن اسلام نے ہمیں سکھایا ہے کہ آپ خواہ کچھ بھی ہوں اور کہیں بھی ہوں۔ آپ اول و آخر مسلمان ہیں۔ اب آپ ایک باقاعدہ قوم سے تعلق رکھتے ہیں جس کا اپنا ایک وسیع ملک ہے۔ میں آ پ سے التجا کرتا ہوں کہ آپ اس صوبائی عصبیت سے چھٹکارا حاصل کریں۔ کیونکہ جب تک یہ زہر پاکستان کے سیاسی ڈھانچے میں موجود ہے آپ کبھی ایک قوم نہیں بن سکیں گے‘‘۔ پاکستان کی اقتصادیات اور عوام کے بارے میں بات کرتے ہوئے فرمایا :
’’پاکستان غریبوں کا ملک ہے۔ اس پر غریبوں ہی کو حکومت کا حق حاصل ہے۔ ہماری کوشش ہوگی کہ پاکستان میں ہر شخص کا معیار زندگی اتنا بلند کر دیا جائیگا کہ غریب و امیر میں کوئی فرق باقی نہ رہے گا‘‘۔
جبکہ ہمارے درمیان تو خلیج پیدا ہو چکی ہے۔ ہم ایک دوسرے کی خوشحالی نہیں دیکھ سکتے۔ مجید نظامی اور علامہ اقبال نے اردو کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا۔ جبکہ قائد نے قومی زبان کے بارے میں بات کرتے ہوئے فرمایا :
’’پاکستان کی سرکاری زبان جو مملکت کے مختلف صوبوں کے درمیان اطہام و تفہیم اور رابطہ کا ذریعہ ہو۔ صرف ایک ہی ہوسکتی ہے اور وہ ’’اْردو‘‘ ہے۔ اْردو کے سوا کوئی اور زبان نہیں۔ اْردو کو پاکستان کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک سمجھا جاتا ہے۔ یہ وہ زبان ہے جو دوسری صوبائی اور علاقائی زبانوں سے کہیں زیادہ اسلامی ثقافت اور روایات کے بہترین سرمائے پر مشتمل ہے۔‘‘
٭…٭…٭