’’دھی نوں سکولوں ہٹا لے‘‘

Jul 06, 2024

تا بندہ خالد

جب سے سوشل میڈیا ہماری زندگیوں میں آیا ہے اس نے معاشرے میں الگ ہی تماشہ لگایا ہے جہاں آئے روز طوفانِ بدتمیزی کا خوب مظاہرہ ہوتا ہے۔ اکثر ہی اک نیا کٹا کھلا ہوتا ہے اور تماش بین عوام وائرل خبروں کے متعلق غل غپاڑہ کرنے سے ذرا بھی نہیں چوکتے۔ معاشی زبوں حالی ، افراط زر اور بیروزگاری نے نوجوانانِ پاکستان کو ویڈیو سازی اور اس پر فالورز اکٹھے کرنے پر مجبور کر دیا ہے کہ شاید وہ مشہور ہوجائیں اور کچھ رقم بھی مل جائے۔ اخلاقیات سے عاری مواد یوٹیوب، انسٹا گرام، ٹک ٹاک پر اپ لوڈ کیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس سائنس و ٹیکنالوجی کس بلا کا نام ہے یہ نام نہاد سوشل میڈیا اسٹارز کو نہیں معلوم۔۔۔ لائق نوجوان نالائق لوگوں سے بیزار ہیں۔ عجیب دور آ گیا ہے کہ ناکام فیل ہونے والے افراد کی ستائش خوب ہوتی ہے اور انہوں نے گاڑیاں، بنگلے بھی خرید لیے ہیں۔ اسی لیے قابل طالبعلموں کی اکثریت تعلیم حاصل کرکے بیرون ملک مقیم ہو گئی ہے اور ملک میں ناخلف جنریشن کی بھرمار ہے۔

گزشتہ دنوں ایک ایسی ویڈیو وائرل ہوئی کہ جسے میں گانا کہوں یا ترانہ یا دینیات سے اسے منسوب کروں۔ میری عقل اجازت نہیں دیتی کہ میں کسی بھی شائستہ پیرائے میں اسے تولوں۔ قارئین بات یہ ہے کہ حسن اقبال چشتی نامی شخص کی جانب سے ویڈیو کلپ جاری کیا گیا جس میں اس نے کہا کہ " اپنی دھی نوں اسکولوں ہٹا لے۔۔۔ اوتھے ڈانس کر دی پئی اے" قارئین یہ "ڈسکو مولوی" جس کو ہلکی آنچ پر پکا ہوا "سدھو موسے "والا کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا اس نے سکول جانے والی اور تعلیم حاصل کرنے والی بچیوں کے والدین کو غلیظ گالیاں بکیں۔۔۔ یہ کیا ہو رہا ہے ہمارے ملک میں ؟؟؟ کوئی پوچھنے والا نہیں۔ یہ شخص جس نے اپنے آپ کو نعت خواں ڈکلیئر کیا ہے، خود اپنے یو ٹیوب چینل پر بھارتی سکھ گلوکار کی بالشت بہ بالشت نقالی کر رہا ہے تو دوسروں پہ تنقید کیسے کر سکتا ہے۔تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ ریاست نے فتنہ انگیزی کو فری ہٹ دیا ہوا ہے۔ اگر قانونی کارروائی یا سرزنش ہو تو فتنہ کیسے پنپ سکتا ہے۔ ؟؟؟ 
سکول کالجز میں بچیوں کی فنی مہارت دکھانے کا سلسلہ تو برعظیم پاک و ہند کے تقسیم ہونے سے قبل بھی تھا۔ یہ کوئی نئی چیز نہیں۔ حصول پاکستان کے لیے بچیوں ،خواتین نے سکول کالجوں میں ترانوں، ڈرامائی خاکوں کے ذریعے تحریک کو جاری رکھا۔ پاکستان معرضِ وجود میں آنے کے بعد بھی کسی مذہبی سکالر، سیاسی یا سماجی شخصیات کی جانب سے  بچیوں کی تعلیم پر کبھی قدغن نہیں لگائی گئی۔ 1970ء کی دہائی میں ترانوں کی بجائے گانوں پر ہلکا ہلکا پرفارمنس شروع ہوا کہ جس میں کوئی قابلِ اعتراض پہلو نہیں تھا۔ 1980ء میں بچیوں، خواتین کی جانب سے سکولوں کالجوں کی سرپرستی میں سالانہ قوالی پرفارمنس ،مزاحیہ ٹیبلو، گلوکاری، گانوں پر رقص ایک حوصلہ افزا بات سمجھی جاتی تھی۔ پھر انہی سکول کالجوں سے فارغ التحصیل خواتین نے تہذیبی اقدار کو مدنظر رکھتے ہوئے آرٹ، کلچر، سائنس، تاریخ، ادب، انجینئرنگ، طب، ادویہ سازی، قانون، بزنس،  شوبز انڈسٹری میں اپنا لوہا منوایا۔   
لیکن عصر حاضر کی ایک رنجیدہ بات یہ ہے کہ ٹک ٹاک کی بری لت نے بچیوں کو تمام لحاظ بھلا دئیے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں ہر دن " یہ سماں موج کا کارواں " کا سا منظر پیش کرتا ہے۔ پرائیویٹ یونیورسٹیوں میں سٹوڈنٹس نے لش پش لباس زیب تن کیے ہوتے ہیں، آپ یہاں آ کر ایسا محسوس کریں گے کہ گویا کہ ہم کسی مینا بازار آئے ہوں۔ تقریباً ہر روز گانوں پہ رقص کرتی بچیوں کی ویڈیوز قصداً یا نہ چاہتے ہوئے بھی وائرل ہو جاتی ہیں جو کہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔ سکولوں کی سرپرستی میں سالانہ غیر نصابی سرگرمیاں اور چیز ہے جبکہ وقت کا ضیاع اور چیز ہے۔ یاد رکھیے کہ شہرت کا خناس بہت برا ہے لیکن چکرا دینے والی بات یہ ہے کہ مشہوری  کے ساتھ ساتھ کچھ رقم بھی آ رہی ہو تو تعلیم حاصل کرنے کی پھر کیا وقعت رہتی ہے۔ ؟؟؟
جب خواتین ہی پڑھی لکھی نہیں ہونگی تو آنے والی نئی نسل کو "طاغوت" کا مطلب کیا سمجھائیں گی۔ پھر تو ساحل عدیم جیسے لوگوں نے آن دی سپاٹ 95 فیصد خواتین کو "جاہل" کہنا ہے۔ 
قارئین ایک بات نوٹ کیجئے کہ ہمارے معاشرے میں کس نوعیت کی افراتفری پھیلی ہے کہ ایک یو ٹیوبر کہہ رہا ہے کہ بچیاں سکول نہ بھیجی جائیں اور دوسرا موٹیویشنل اسپیکر خواتین کو مطلقاً جاہل کہہ رہا ہے۔۔۔ یہ کنفیوژن نہیں تو اور کیا ہے۔ نعت خواں کے منہ سے امن کے پھول جھڑنے چاہیں۔۔۔ اور موٹیویشنل اسپیکر جو کہ ماہر نفسیات ہے اس کو معاشرے کا نبض شناس ہونا چاہیے نہ کہ اس کے منہ سے سفاکیت جھلکے۔ اسے موٹیویشنل اسپیکر کس نے مان لیا ؟۔ مایوسی پھیلانے والا مصلح نہیں ہو سکتا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کا انسپکڑ آف ایجوکیشن مقرر کیا تو واضح ہدایات دیں کہ" مایوسی نہ پھیلانا، آسان بات کہنا"۔ قارئین اس کے بعد کسی اور ہدایت کی گنجائش نہیں رہتی۔
میرے نزدیک ریاست کو اس ضمن میں ایکشن لینے کی ازحد ضرورت ہے کیونکہ پہلے ہی ملک ففتھ جنریشن وار کی زد میں ہے ایسے میں مزید کسی فتنے کے ہم متحمل نہیں ہو سکتے۔ مزید برآں والدین کو اپنی بیٹیوں کی تعلیم اور ان کی سرگرمیوں کے حوالے سے اپ ٹو ڈیٹ رہنا ہوگا تاکہ کوئی بنجارہ منہ اٹھا کر ان کی تعلیم پر بات نہ کرے اور نہ کوئی خودساختہ سکالر بغیر سروے کیے اپنے تخیلات کی رو سے خواتین کی کثیر تعداد کو ان پڑھ کہہ سکے۔ بلا تردد ہماری بچیاں بھرپور تعلیم حاصل کریں گی اور شائستہ انداز سے اعلی تعلیم کو ممکن بنائیں گی کیونکہ قوموں کی عزت ماؤں، بہنوں، بیٹیوں سے ہے۔

مزیدخبریں