بجلی کا ماتم گلی گلی

 مجھے نہیں لگتا ہمارے ملک میں کبھی سوشل آڈٹ یا سٹیٹ لیول ریسرچ اینڈ رویو کا رواج پڑا ہو کہ پتہ چل سکے ہم سماجی اور ریاستی سطح پر کتنے کمزور یا طاقتور ہوئے ہیں ، کیسے ہوئے ہیں اور کیوں ہوئے ہیں۔ اگر یہ رپورٹس پاکستان کے اندر تیار کی بھی گئی ہیں تو یہ کبھی پتہ نہیں چلا کہ ان رپورٹس میں کیا مشورے دیے گئے۔ ان پر کبھی کچھ عمل بھی ہوا یا نہیں۔

آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ پاکستان کے بارے میں ہمیشہ غیر ملکی اداروں اور تنظیموں کی طرف سے اعداد و شمار آتے ہیں جن کے پیچھے باقاعدہ ان کے مقاصد چھپے ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں سوائے اکنامک سروے آف پاکستان کے کوئی اور ایسا ٹول نہیں بنایا گیا جو ہمیں ہمارے مختلف شعبوں میں ترقی و تنزلی سے باخبر رکھ سکے اور سچی بات تو یہ ہے کہ اس ادارے کے اپنے اندرونی حالات کیا ہیں اس کی کوئی خیر خبر کبھی باہر نہیں آئی۔ 
مجھے نہیں پتہ کہ احباب ِ بست و کشاد میں سے کسی کو یہ اندازہ ہے یا نہیں کہ پاکستانی عوام کے دلوں میں ایک آزاد اور اپنے ملک کے باشندے ہونے کا تصور بہت کمزور پڑ چکا ہے۔ خاص طور پر رجیم چینج کے بعد سے اب تک ملک ، عوام ، عدالتوں اور افواج پاکستان کے سروں  پر گرنے والی بجلیوں نے یہ شعور اذہان میں راسخ کر  دیا ہے کہ وہی ملک آزاد ہوتا ہے جس کی باگ ڈور خود مختار حکمرانوں اور آزاد معیشت کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ گزشتہ دو تین سالوں میں سیاسی ، معاشی اور قومی سطح پر جتنی شکست و ریخت ہوئی ہے اْس نے براہ راست ہماری نظریاتی بنیادوں کو ہٹ کیا ہے۔ اب تک کے نتائج کے مطابق عدالتوں کے بارے پرانا تاثر مزید پختہ ہوا ہے ، افواج پاکستان اور عوام کے درمیان خلیج مزید گہری ہوئی ہے ملک معاشی لڑکھڑاہٹ کا شکار ہے اور عوام کے پاس زور سے چیخنے کی ہمت بھی باقی نہیں رہی۔ 
 بہتری کی طرف گامزن ملک کو ایک سائفر کی ٹھوکر سے تہ و بالا کر دینے والوں نے پچھلے پچھتر سالوں سے ہمارے ساتھ بار بار یہی کچھ کیا ہے اور ہم ایک دوسرے پر الزام لگانے کے سوا کچھ نہیں کر سکے۔ اس سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ آگے بھی یہی کچھ ہوگا۔ دلیل یہ ہے کہ جس کسی نے ملک کے لیے کچھ بہتر کرنے کی کوشش کی ہے وہ یا تو ذوالفقار علی بھٹو اور ضیاء الحق کی طرح مارا گیا ہے یا ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی طرح بے توقیر کیا جاتا رہا ہے  اور جنہوں نے غلامی کے تمام آداب کو مدنظر رکھا ہے انہیں جیلوں سے نکال کے بھی رتبے دیے گئے ہیں۔ پچھلے دو سالوں میں اے ٹیم سے جو جو کام لیے جانے تھے لے لیے گئے۔ ممکن ہے پرائیویٹائزیشن نامی اکنامک کرائم کی کچھ اسائنمینٹس باقی رہتی ہوں ورنہ ملک کا معاشی طور پر کمزور ہونا ، سیاسی ابتری ہونا ، سماجی بحران ہونا ، ایڈمنسٹریٹو مس مینیجمینٹ ہونا اور فرد کا عدم تحفظ کا شکار ہو کر ملک ، قوم ، سیاست ، ریاست اور عدالت پر اعتماد کھو بیٹھنا یہ تمام کے تمام اہداف حاصل کرلیے گئے ہیں۔  اب جوس نکالنے والے مشین کے اس آخری گیڑے کا انتظار ہے جس کے بعد عوام گنے کے پھوگ کی طرح باہر نکلیں گے اور  رس نکالنے والے شکنجے میں واپس جانے سے انکار کردیں گے تو ایک دفعہ پھر بساط الٹا دی جائیگی۔ 
ٹارزن واپس آئے گا اور ہرطرف تالیوں کا شور ، نعروں کی گونج اور مٹھائیوں کی تقسیم میں عوامی پھوگ ہنسی خوشی شکنجے میں واپس جانا شروع کردے گا۔  
ایک اور  بات جو پہلے صرف خواص تک محدود رہتی تھی اب جا کے عام آدمی کی سمجھ میں بھی آئی ہے  کہ حکومتیں عوام کو سارا سچ نہیں بتاتیں۔ اس بار اضافی معلومات یہ بھی ملی ہیں کہ حکمران بالکل کسی بدیانت اور چالاک الیکٹریشن کی طرح عوام کو چونا لگاتے ہیں۔ اس کی بہترین مثال موجودہ بجٹ کی دی جاسکتی ہے کہ پہلے تنخواہوں میں اضافے کی نوید سنائی گئی اور اسکے بعد پوری چوکسیت سے اسی تنخواہ دار طبقے پر بھاری ٹیکس مسلط کردیئے گئے۔ تنخواہوں میں سالانہ انکریمینٹ کا تصور دراصل انفلیشن کی ریشو کی کپمنسیشن کے لیے ہوتا ہے لیکن اس دفعہ آئی ایم ایف کے ایجنٹوں نے بجٹ بناتے وقت ایسا ایسا ظلم کر دکھایا ہے جو کسی معمولی دل گردے کے سیاستدان کے بس کی بات نہیں۔ کروڑوں لوگوں سے نوالے چھین لینا ، ان کے بچوں کے دودھ پر ٹیکس لگانا ، علاج معالجے کا عوامی دسترس سے باہر نکل جانا یہ اتنے ظالمانہ اقدام ہیں کہ ان پر عمل درآمد کے لیے سرمایہ داروں کا کوئی بہت پرانا اور ٹرینڈ وفادار ہی کام آسکتا ہے جس کو پتہ ہو کہ اس نے واپس عوام کی بجائے اپنے آقائوں کے قدموں میں بیٹھنا ہے۔
 بجلی سے لیکر سفری ٹکٹوں پر اور ایل پی جی گیس سے لیکر چینی تک جس بے رحمی سے ٹیکسز میں اضافہ کیا گیا ہے اتنی کھلم کھلا معاشی دہشت گردی کے بعد اگر کوئی عوام کو یہ دھوکہ دینے اور گمراہ کرنے کی کوشش کرے کہ ہم یہ سب کچھ ملک کوبچانے کے لیے کر رہے ہیں تو سامنے سے لوگ کہیں بھی یہ کہنے کے لہے تیار بیٹھے ہیں کہ یہ تو آپ نے دوسال پہلے بھی کہا تھا کہ ہم نے ملک بچانے کے لیے حکومت گرائی ہے۔ اگر ملک بچانے کے لیے ہی اتنا بڑا کام کیا گیا تھا پھر نتیجتاً ملک اور عوام تباہی کے گڑھے میں مزید گہرائی میں کیوں جا گرے ہیں۔ اور ملک بچانے کا کہہ کر ہمیں مار کیوں دیا گیا۔ دوسال پہلے جب آپ کہہ رہے تھے کہ ملک کے حالات بہت خراب ہیں  لیکن مائی باپ وہ حالات آج کے لحاظ سے تو بہت اچھے تھے۔ عوام یہ بھی سوال کرتے ہیں کہ ہمیں بتایا جائے کہ کہیں 9 مئی کے پیچھے بھی تو وہی نہیں جو سائفر کے پیچھے تھے اور کہیں یہ سب کچھ اپنوں اور پرایوں نے مل کر پاکستان کا بچا کھچا خون نچوڑنے کے لیے ہی تو نہیں کیا۔ چلیں یہ نہ بتائیں لیکن کیا عوام کو یہ پوچھنے کا حق ہے کہ ان کا خون نچوڑ کر کب تک آئی پی پیز کو پلایا جاتا رہے گا۔ کیونکہ۔۔۔۔
بجلی کا ماتم گلی گلی 
ہے موت کا عالم گلی گلی
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن