حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں بندے کو اس بات پر پختہ یقین ہو کہ جسم اور ڈھانچے کا باقی رہنا ، تنگی دور کرنا اور تمام حاجات کو پورا کرنا اللہ تعالی کے قبضہ قدرت میں ہے اور یہ بھی یقین ہو کہ مال اور دنیاوی اسباب دنیا کی وجہ سے نہیں ہیں۔
اللہ تعالی اگر چاہے تو میرے جسم کو باقی رکھنے اور حاجتوں کو پورا کرنے کے لیے مخلوق کو وسیلہ بنا دے یا دنیا کی کسی چیز کو وسیلہ بنا دیتا ہے اور اگر وہ چاہے تو بغیر کسی ظاہری سبب اور وسیلے اور مخلوق کے سہارے کے مجھے زندہ رکھ سکتا ہے کہ اللہ تعالی اسباب و وسائل کا محتاج نہیں اور یہی توکل ہے۔
اللہ تعالی کی ذات اقدس پر مکمل بھروسہ رکھنا اور اس کی طرف سے پیش آنے والے حالات پر شکر کرنا اللہ تعالی پر توکل کہلاتا ہے۔یہ اہل ایمان کی خوبی ہے کہ وہ صرف اور صرف اللہ تعالی کی ذات اقدس پر بھروسہ کرتے ہیں۔ جب بندہ مومن اللہ تعالی پر بھروسہ کرتا ہے تو وہ اللہ تعالی کی اطاعت اور اس کی بنائی ہوئی تقدیر پر راضی ہو جاتا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے : اور اہل ایمان اللہ پرہی بھروسہ کرتے ہیں۔( سور ۃ الفرقان : ۵۱)
لیکن توکل کے ساتھ ساتھ اسباب کو بھی اختیار کرنا چاہیے۔ توکل اور اسباب دونوں الگ الگ چیزیں ہیں۔ نبی کریم ﷺ اللہ تعالیٰ پر کامل بھروسہ بھی کرتے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ اسباب بھی اختیار کرتے تھے اور صحابہ کرام کو بھی اس کا حکم فرماتے تھے۔ اسباب بھی اسی صورت کام آتے ہیں جب بندے کو اللہ تعالی کی ذات پر مکمل اور پختہ یقین ہو۔
ارشاد باری تعالی ہے : یہ وہ لوگ ہیں جن سے لوگوں نے کہا تمہارے خلاف لوگ جمع ہو گئے ہیں لہذا ان سے ڈرو۔ تو اس چیزنے ان کے ایمان کو اور بڑھا دیا اور بولے ہمارے لیے تو بس اللہ کافی ہے اور وہ بہترین کار ساز ہے۔( سورۃ آل عمران : ۱۷۳)۔
اطاعت اور عبادت میں اخلاص بہت ضروری ہے۔ یعنی کوئی بندہ صرف اور صرف اللہ کی رضا کے لیے عبادت کر رہا ہے اور لوگوں کی مدد میں لگا ہوا ہے تو اس میں اخلا ص موجود ہے۔ مگر بندے کا مقصد صرف اور صرف ریاکاری اور دکھلاوا ہو تو اس کا مطلب ہے کہ اس میں اخلاص موجود نہیں ہے۔ جب بندہ اس مقام پر پہنچ جائے کہ وہ اپنی نیکیوں کو چھپانے لگے تو یہ اخلاص کی علامت ہے۔
ارشاد باری تعالی ہے : بیشک ہم نے یہ کتاب تمہاری طرف حق کے ساتھ نازل کی پس تم اللہ ہی کی بندگی کرو۔ دین کو اسی کے لیے خالص کرتے ہوئے۔( سورۃ الزمر : آیت ۲، ۳)۔