جنگ بندی معاہدہ پر حماس کے ساتھ خلا اب بھی موجود ہے: نیتن یاھو

Jul 06, 2024 | 13:49

اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاھو نے کہاہے کہ قیدیوں کی رہائی کے معاہدے اور غزہ میں جنگ بندی کے حوالے سے دونوں فریقوں کے درمیان اب بھی فرق موجود ہے۔عرب میڈیا کے مطابق بیان میں کہا گیا کہ موساد کے سربراہ ابتدائی ملاقات کے بعد دوحہ سے واپس آ گئے ہیں اور اگلے ہفتے مذاکرات دوبارہ شروع ہوں گے۔ موساد کے سربراہ ڈیوڈ بارنیا نے قطری ثالثوں کے ساتھ بات چیت کے بعد دوحہ سے واپس روانہ ہونے کے بعد یہ بیان سامنے آیا ہے۔ بارنیا اور قطری ثالثوں کے درمیان غزہ میں جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے منصوبے پر بات کی گئی تھی۔مذاکرات کے ایک قریبی ذریعہ نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر بتایا کہ ڈیوڈ برنیا کی سربراہی میں ایک اسرائیلی وفد غزہ جنگ بندی سے متعلق حماس کے ردعمل کے حوالے سے قطری ثالثوں سے ملاقاتوں کے بعد دوحہ سے اسرائیل کے لیے روانہ ہو گیا ہے۔ رپورٹ کیا ہے کہ موساد کے وفد نے ثالثوں سے اس امید کا اظہار کیا کہ نیتن یاہو حکومت معاہدے کی تجویز کو منظور کر لے گی۔ عبرانی ویب سائٹ "والا" نے رپورٹ کیا ہے کہ سینئر اسرائیلی حکام نے کہا ہے کہ اگر معاہدے میں حماس کی طرف سے امریکہ، مصر اور قطر سے درخواست کردہ تحریری وعدہ شامل ہے تو حماس 42 روزہ جنگ بندی کے بعد اگلے روز سے ہی معاہدے کے دوسرے مرحلے پر مذاکرات کو غیر معینہ مدت تک توسیع دے سکے گی۔اعلی حکام کا دعوی ہے کہ ایسی صورت حال میں اسرائیل کے لیے معاہدے کی خلاف ورزی تصور کیے بغیر لڑائی دوبارہ شروع کرنا بہت مشکل ہو جائے گا۔ اگر سمجھا گیا کہ اسرائیل نے معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے تو معاملہ ایسی صورت حال میں تبدیل ہو جائے گا جہاں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل تمام یرغمالیوں کی واپسی کے بغیر بھی جنگ بندی کا فیصلہ کرسکتی ہے۔ایک سینئر امریکی عہدیدار نے جمعرات کو کہا تھا کہ حماس کی طرف سے پیش کی گئی تجویز میں بہت اہم پیش رفت شامل ہے۔ ہم تبادلے کے معاہدے کے لیے آگے بڑھ سکتے ہیں۔ اب یہ نیتن یاہو پر منحصر ہے۔ انہوں نے کہا کہ غزہ پر ایک معاہدے تک پہنچنے کا ایک حقیقی موقع ہے۔مصر، قطر اور امریکہ سمیت ثالثوں کی جانب سے غزہ میں جنگ بندی اور 120 اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے کے لیے کوششیں کئی مہینوں سے جاری ہیں۔ حماس کا کہنا ہے کہ کسی بھی معاہدے سے جنگ کا خاتمہ ہونا چاہیے اور یہ معاہدہ غزہ سے مکمل اسرائیلی انخلا کا باعث بننا چاہیے۔ دوسری طرف اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ جنگ میں صرف اس وقت تک جنگ بندی قبول کرے گا جب تک حماس کا خاتمہ نہیں ہو جاتا۔

مزیدخبریں