قابل، دےانت دار اور محب وطن قےادت کی ضرورت ....(۱)

جس طرح افراد مےں تعلقات قائم کرنے اور انہےں استوار رکھنے کے لئے کچھ شرائط لازمی قرار پاتی ہےں اسی طرح اقوام کے مابےن بھی تعلقات قائم کرنے اور انہےں استوار رکھنے کے لئے اسی طرح کا نظام کار فرما نظر آتا ہے۔ مثال کے طور پرنردھن اور دھنوان کے درمےان دوستی کے رشتہ کا قےام مضحکہ خیز نظر آتا ہے۔ کمزور اور طاقتور کے درمےان بھی رشتہ قائم ہوتو اسے دوستی نہےں کہا جا سکتا، نام خواہ کچھ بھی رکھ دےا جائے وہ رشتہ دوستی کا نہں ہو تا اور اےسے روابط مےں دےکھنے مےں آےا ہے کہ فائدہ ہمےشہ طاقتور، دھنوان اوربا اثر لوگوںکا ہوتا ہے۔ ممکن ہے تھوڑا بہت فائدہ غرےب اور نادار لوگوں کا بھی اےسے روابط مےں ہو جائے، مگر اےسا ہونا اتفاقی ہو گا۔ غرےب محض اس بات پر خوش ہو جاتے ہےں کہ امےر اور دولتمند لوگ ان سے اپنے تعلقات کو دوستی کا نام دے رہے ہےں۔ بعےنہہ ےہ معمول اقوام عالم کی سطح پر بھی دےکھنے مےں آےا ہے۔ مثلاً لاکھ بہلاوا دےا جائے لےکن پاکستان جےسے غرےب ملک کا جو رشتہ بھی سپر پاور امرےکہ کے ساتھ جوڑا جائے اسے دوستی قرار نہےں دےا جا سکتا۔ دوستی تو دو ہم پلہ افراد ، ہم پلہ ملکوں کے درمےان ہو سکتی ہے۔ دو اےسے لوگوں کے درمےان نہےں جن مےں سے اےک امداد دےنے والا شخص ہو دوسرا امداد وصول کرنے والا۔ ےا اےک ملک امداد دےنے والا ہو دوسرا امداد وصول کرنے والا۔ہم پاکستانےوںکی سمجھ مےں ےہ بات جتنی جلد آ جائے اچھا ہے۔ پھر بہت سے گلے شکوے جو ہم دوستی کی خوش فہمی مےں امرےکہ سے کرنے بےٹھ جاتے ہےں خود بخود معدوم ہو جائےں گے۔ امرےکہ اور پاکستان کا باہمی تعلق حالات کے جبر کی پےداوار ہے۔ جس کے تحت پاکستان کو امرےکہ کی ضرورت ہے اس کی دولت کی بنا پر، اس کی عالمی حےثےت کی بنا، پر ٹےکنالوجی مےں اس کی مسلمہ سبقت کی بنا پر، اور اسی طرح پاکستان کی کہےں کم اقتصادی حالت ، سےاسی عدم استحکام ، دہشت گردی اور مذہبی انتہا پسندی کے اےک نہ ختم ہونے والے بحران کے باوصف۔ پاکستان کی جغرافےائی حےثےت اسے اس قدر اہم بنا دےتی ہے کہ امرےکہ لاکھ ناک بھوں چڑھائے وہ پاکستان کو نظر انداز نہےں کر سکتا اور پاکستان کی مدد حاصل کرنے پر مجبور ہے۔ افغانستان مےں امرےکہ کی نےٹو کے علاوہ کوئی ڈےڑھ لاکھ فوج دس سال سے خدا جانے کےا مقاصد حاصل کرنے کے لئے مصروف عمل ہے۔ لےکن اگر مقصد طالبان کو شکست دےنا تھا توےہ مقصد حاصل نہےں ہو سکا اور نہ ہی اس کے حصول کو کوئی امےد نظر آتی ہے۔ بلکہ سال 2011کی کل باقی ماندہ مدت اور 2012 (جو امرےکی صدر کا انتخابی سال ہے) نہاےت دشوار نظر آتے ہےں۔ موسم گرما کی آمد کے ساتھ اور اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد طالبان کی جارحےت مےں کہےں زےادہ اضافہ ہو چکا ہے۔ طالبان نے امرےکہ کے ساتھ ساتھ پاکستان کو بھی چنوتی دے رکھی ہے کہ وہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت کا بدلہ پاکستان کی سےکورٹی فورسز اور حکومت کے اعلیٰ عہدے داروں پر پے بہ پے حملے کرکے لےں گے۔ اسامہ کی ہلاکت کے بعد پاکستان مےں چند اےک نہاےت شدےد اور سنگےن حملے دےکھنے مےں آئے ہےں جن مےں شدےد جانی اور مالی نقصان اٹھانا پڑاہے۔
امرےکہ اورپاکستان کے درمےان اعتماد مےں فقدان کا اےک بحران جو عرصہ سے دےکھنے مےں آ رہا تھا اس نے 2مئی کو اےبٹ آباد مےں اسامہ بن لادن کے کمپاﺅنڈ پر امرےکی ہےلی کاپٹرز کے حملے کے بعد( جو ہمارے ملک اور بےن الاقوامی قانون دونوں کی سنگےن خلاف ورزی کے مترادف پاکستان کے خلاف کھلی جارحےت کی حےثےت رکھتا تھا) تعلقات کی ابتری نے نئی حدوں کو چھو لےا۔ اپنی اس جارحےت کا دفاع کرنے کی خاطر امرےکی عہدے داروں نے پاک فوج، آئی ۔اےس۔آئی، بلکہ پاکستان کی حکومت سبھی کو سخت ترےن تنقےد کا نشانہ بناےا اور کہا کہ اےبٹ آباد مےں اسامہ بن لادن کی موجودگی سے ظاہر ہوتا ہے کہ ےہ سب کچھ ےا تو حکومت پاکستان کی معاونت سے ممکن ہوا ےا پھر اس کی نا اہلی کی وجہ سے۔ بات تھی بھی اتنی سنگےن کہ حکومت اور سےکورٹی فورسز کے دفاع مےں کچھ کہے بنتی بھی نہ تھی۔ اس موقعہ پر شدت سے محسوس ہوا کہ ملک مےں قےادت کا کتنا بڑا بحران موجود ہے۔ حکومت کو جےسے سانپ سونگھ گےا ہو۔ صدر مملکت اور وزےراعظم نے اپنے غےر ملکی دوروں کا شےڈول تو متاثر ہونے نہ دےا لےکن اےک بےان ،اےک اخباری کانفرنس ، قوم سے خطاب کرنے کی توفےق دونوں مےں سے کسی اےک کو نہ ہوئی۔ اس کے کچھ دنوں بعد پی۔اےن۔اےس مہران پر دہشت گردوں کے حملے پر جس بھونڈے انداز مےں وزےر داخلہ اور نےول چےف نے پرفارم کےا انتہا سے زےادہ تکلےف دہ بلکہ شرمناک تھا۔ قوم جےسے سکتہ مےں آ گئی۔ اےسے موقعوں ہی پر قےادت کی ضرورت محسوس ہوتی ہے جو کہےں نظر نہےں آئی۔ غرض داخلی طور پر قےادت کا سنگےن بحران ، خارجی طور پر ہرطرف سے تےر ہائے دشنام۔ سمجھ مےں نہےں آتا تھا کہ اس گرداب سے ےہ قوم کےسے نکل پائے گی ۔ اےسے مےں چےن کی طرف سے مضبوط حماےتی بےان، امرےکہ مےں چےن امرےکی سٹرےٹےجک ڈائےلاگ کے دوران چےن کا مطالبہ کہ دہشت گری کے خلاف پاکستان کی قربانےوں کو بھی خاطر مےں لاےا جائے اور ےہ کہ پاکستان کو تنہا چھوڑنے کی نہےں اس کی مدد مےں اضافہ کی ضرورت ہے ۔ چےن کی بروقت مداخلت سے برطانوی وزےراعظم کےمرون کو بھی حوصلہ ہوا کہ اوبامہ کے دورے کے دوران مشترکہ اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کےمرون نے کہا کہ پاکستان کو تنہا چھوڑنے کی نہےں اس کی مدد مےں اضافے کی ضروت ہے اور ےہ کہ جو پاکستان کا دشمن ہے وہ ہمارا دشمن ہے۔ اےسے بےانات سے ہوا کا رُخ بدلنا شروع ہوا۔(جاری ہے)

ای پیپر دی نیشن