تیسری بار وزیراعظم بننے کی خبر بھی بڑی خبر ہے۔ جاوید ہاشمی کا ذکر بھی بہت ہوا ہے۔ لوگوں نے ان کے ایک جملے پر تنقید بھی کی ہے مگر مجھے یہ جملہ بھی اچھا لگا ”نواز شریف میرے لیڈر تھے۔ وہ میرے لیڈر ہیں۔“ جو اس کے دل میں تھا اس نے کہہ دیا۔ یہ بھی ایک بہادر آدمی کا رویہ ہوتا ہے۔ میرا تعلق شیخ رشید سے بھی ہے مگر مجھے اس کی باتیں کم کم پسند آتی ہیں۔ وزیراعظم کا ووٹ لینے کے بعد اس نے نواز شریف کے ساتھ مصافحہ کیا۔ جاوید ہاشمی گلے ملے۔ وہ نواز شریف سے کچھ لے سکتا ہے۔ نہ لینا چاہتا ہو گا۔ نواز شریف بھی اس کے ساتھ بڑی محبت کے ساتھ ملے۔ نواز شریف قائد ایوان ہیں اور ایوان میں سب بیٹھنے والوں کا وہ قائد ہے۔ نواز شریف اور میرے پڑھنے والے جانتے ہیں کہ میں ان کا نقاد بھی ہوں۔ میری دعائیں اور نیک تمنائیں ان کے ساتھ ہیں۔ میں قائد حزب اختلاف کو بھی قائد ایوان سے کم نہیں سمجھتا۔ ایاز صادق نے کہا کہ میں اب پورے ہاﺅس کا سپیکر ہوں۔ نواز شریف بھی اب سارے ہاﺅس سارے ملک کے وزیراعظم ہیں۔ مگر ہمارے ملک میں قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف جو لوگ رہے ہیں تو ان کی اس قیادت پر بھی مجھے کچھ تحفظات ہیں اور یہ تحفظات مولانا فضل الرحمن جیسے نہیں ہیں۔ قائد حزب اختلاف ہوتے ہوئے بھی وہ تحفظات کا شکار رہے۔ جاوید ہاشمی دو تین دفعہ وزیر رہے ہوں گے۔ چھ دفعہ وزیر شذیر رہنے والے شیخ رشید اب اپوزیشن لیڈر بنے ہوئے ہیں۔ جنرل مشرف کے خلاف جو کچھ ہو رہا ہے۔ کیا ایک بار بھی اپنے صدر سے ملنے کے لئے شیخ صاحب گئے ہیں۔ ان پر جو مقدمات چل رہے ہیں ان میں وہ لوگ شریک ہیں ان کے جو وزیر تھے۔ شیخ رشید گارڈن کالج میں پڑھتا تھا۔ جب میں نیا نیا وہاں پڑھانے کے لئے گیا تھا پرویز رشید بھی وہاں تھا۔ یہ دونوں میری کلاس میں تھے۔ مگر کم کم آتے تھے۔ شیخ رشید کے لئے کریڈٹ کی بات یہ بھی ہے کہ مجید نظامی کے ساتھ اس کی ملاقات ہے۔ شیخ رشید بڑا سیانا یعنی سیاسی آدمی ہے۔ بہرحال سٹوڈنٹ لیڈر کے طور پر اس کی شخصیت زیادہ مستحکم تھی۔ اس نے جنرل ایوب خان کے خلاف تحریک میں پہلے باغی کی طرح بھرپور حصہ ڈالا۔ یہ جرات اس کے بہت کام آئی۔ ایک دوسرے جرنیل کا وزیر بھی بن گیا۔ باغی ہونا جاوید ہاشمی کا کریڈٹ بنا۔ نواز شریف کے لئے شیر آیا کی صدا بلند ہوتی ہے۔ جاوید ہاشمی کے لئے باغی کے نعرے لگتے ہیں۔ مخدوم امین فہیم نے جو کریڈٹ لینے کی کوشش کی وہ بھی ایک لطیفے سے کم نہیں۔ اٹھارویں ترمیم میں تیسری بار وزیراعظم نہ بن سکنے والی شق بھی ختم کر دی گئی۔ اس سارے معاملے میں مخدوم امین فہیم کہیں نہ تھے۔ یہ کریڈٹ ہے صدر زرداری کا۔ شاید انہیں معلوم تھا کہ نواز شریف تیسری بار وزیراعظم بنیں گے۔ تیسری باری پیپلز پارٹی نے تو لے لی۔ اب چوتھی باری اس کی ہے پھر چوتھی باری کے لئے نواز شریف کو پورا پورا حق ہے۔ ایک بات بہت قابل ذکر ہے کہ نواز شریف مسلسل سنجیدہ رہے۔ کوئی خوشی کی لہر ان کے چہرے پر نہ تھی۔ قومی اسمبلی میں اور ایوان صدر میں نواز شریف کسی گہری سوچ میں تھے۔ لگتا تھا کہ کوئی بات انہیں اندر ہی اندر بے قرار کر رہی ہے۔ صدر زرداری اس موقع پر بھی ایک بار ہولے سے ہنسے۔ انہیں تو ہر وقت کوئی خوشی سی چڑھی رہتی ہے۔ ان کے لئے یہ خوشی بھی کم نہ تھی کہ نواز شریف ان سے حلف لے رہے تھے۔ کیونکہ اس سے پہلے انہوں نے یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف جیسے آدمیوں سے حلف لیا۔ وہ تو انہی کے بنائے ہوئے تھے۔ میں نے ایک بار بڑے دکھ سے کہا تھا کہ پہلی بار شہید بے نظیر بھٹو صدر اسحاق کی نامزدگی قبول نہ کرتیں تو پھر جب منتخب وزیراعظم بنتیں تو دیر تک رہتیں۔ منتخب اور نامزد وزیراعظم کے درمیان کونسی سیاسی مصلحت ہوتی ہے۔ نواز شریف نے کہا تھا کہ میں صدر زرداری سے حلف لوں گا۔ وہ منتخب صدر ہیں۔ آئینی طور پر اس کے علاوہ کوئی گنجائش نہیں۔ عمران خان نے کیوں کہا تھا کہ میں صدر زرداری سے حلف نہیں لوں گا۔ ان کی دعا قبول ہو گئی مگر چودھری نثار نے بھی کہا ہے کہ میں صدر زرداری سے حلف نہیں لوں گا۔ انہوں نے جنرل مشرف سے حلف لے لیا تھا۔ اس کا مطلب چودھری صاحب کے نزدیک یہ ہے کہ جنرل مشرف صدر زرداری سے زیادہ ”جمہوری اور منتخب“ ہیں۔ انہیں بھی قومی اسمبلی نے ووٹ دیا تھا۔ ایسے ممبران اب بھی قومی اسمبلی میں ہیں جنہوں اب نواز شریف کو ووٹ دیا تھا۔ صدر زرداری کو بھی ووٹ دیا تھا۔ نواز شریف کے وزیروں نے بازو پر کالی پٹیاں باندھ کر حلف لیا تھا۔ نواز شریف نے تو کالی شیروانی پہن کرحلف لیا ہے۔ تو چودھری نثار کالے کپڑے پہن کر حلف لے لیں گے۔ ان کی شلوار بھی کالی ہو گی۔ ان کا نام وزیروں کی کی فہرست میں آ رہا ہے۔ ان کے پاس کالے کپڑے نہ ہوں تو میرے بابا جی بابا محمد یحیٰی خان سے لے لیں۔ وہ ہمیشہ کالے کپڑے پہنتے ہیں۔ ان کی کتاب بھی چودھری صاحب کو پڑھنا پڑے گی۔ ”پیا رنگ کالا“ بابا یحیٰی خان بڑے پراسرار آدمی ہیں۔ وہ اگر سیاست کریں تو یہ روحانی سیاست ہو گی۔ جاوید ہاشمی نے نواز شریف کی ہدایت کے باوجود جنرل مشرف سے حلف نہیں لیا تھا۔ یہ سیاسی جرات ہے کہ وہ اپنے لیڈر کو نظرانداز کر سکتے ہیں۔ اب اس جملے پر غورکریں کہ نواز شریف میرا لیڈر تھا اور میرا لیڈر ہے۔ نواز شریف نے شاید غصے میں ہاشمی کو قائد حزب اختلاف بھی نہ بنایا تھا۔ اب شاید وہ سمجھتے ہوں گے کہ میں نے جو کچھ کیا تھا ٹھیک کیا تھا۔ اگر چودھری نثار اپوزیشن لیڈر نہ بنتے تو آج نواز شریف وزیراعظم کیسے بنتے؟ میری گذارش یہ ہے کہ جاوید ہاشمی کی تقریر کے بعد اب نواز شریف پر لازم ہے وہ عمران خان کوقائد حزب اختلاف بنا دیں۔ نواز شریف نے دوسری پارٹی کے ایک غیرسردار عبدالمالک کو وزیراعلیٰ بلوچستان نامزد کر دیا ہے۔ یہ پاکستانی سیاست میں کم کم ہوتا ہے۔ نواز شریف نے صوبہ خیبر پختونخواہ میں تحریک کو حکومت بنانے کا موقع دیا تو یہ بھی بڑی بات ہے ورنہ مولانا فضل الرحمن کے ساتھ مل کر بہت گڑ بڑ کی جا سکتی تھی۔ یہاں میں صدر زرداری کی مفاہمتی سیاست کی بات بھی ضروری سمجھتا ہوں۔ انہوں نے پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکومت پیپلز پارٹی کے تعاون سے قائم کی۔ مسلم لیگ ن کے اپوزیشن میں جانے کے بعد بھی پیپلز پارٹی پنجاب میں بہت دیر تک اس کے ساتھ رہی۔ جبکہ اپوزیشن لیڈر چودھری نثار تھے۔ صدر زرداری نے بعد میں ق لیگ کو اقتدار میں اپنے ساتھ شامل کیا۔ یہ پہلے بھی ہو سکتا تھا۔ اور پنجاب میں اس اتحاد کی حکومت ہوتی۔ اب خیبر پختون خواہ میں یہ اچھی روایت قائم کر کے نواز شریف نے سیاسی بصیرت اور تدبر سے کام لیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اب تکبر شریف برادران میں بہت کم رہ گیا ہے۔ نواز شریف عمران خان کو قائد حزب اختلاف بنائے گا تو وہ زیادہ وزیراعظم ہو جائے گا۔ اور لوگ ان سے خوش ہو جائیں گے۔ مخدوم امین فہیم کو مولانا فضل الرحمن کا تجربہ ہے۔ وہ بھی عمران کی حمایت کریں۔ خورشید شاہ بھلے آدمی ہیں وہ عمران خان کو آفر کریں۔