لاہور (وقائع نگار خصوصی+ اپنے نامہ نگار سے) لاہور ہائی کورٹ نے فرزانہ قتل کیس کی سماعت کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ عدالتوں کو حملہ آوروں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ فاضل عدالت نے وقوعہ کے وقت موجود پولیس اہلکاروں کے خلاف انکوائری کرنے، مقدمے کی تفتیش مکمل کر کے چالان پیش کرنے اور عدالتوں کے اردگرد سکیورٹی کے فول پروف انتظامات سے متعلق تفصیلی رپورٹ طلب کر لی۔ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ مسٹر جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔ فاضل عدالت میں سی سی پی او لاہور نے عدالت میں پیش ہو کر تحریری رپورٹ پیش کی جس میں بتایا گیا کہ فرزانہ قتل کا واقعہ ہائیکورٹ کے مرکزی دروازے سے سو میٹر کے فاصلے پر پیش آیا۔ ہائیکورٹ کی سکیورٹی پر مامور اہل کاروں کو اپنی جگہ چھوڑنے کی اجازت نہیں ہوتی اس لئے وہ وہاں جا نہیں سکے۔ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ اگر عدالتیں نوٹس نہ لیں تو پولیس حرکت میں نہیں آتی۔ عدالتوں کو حملہ آوروں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ واقعہ انتہائی سنگین ہے مگر یہ تاثر غلط ہے کہ ہائی کورٹ کے گیٹ پر پیش آیا۔ فاضل عدالت نے قرار دیا کہ سکیورٹی بارے بار ایسوسی ایشنز بھی معاونت کریں۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت جولائی کے دوسرے ہفتے تک کے لیے ملتوی کرتے ہوئے فرزانہ قتل کیس سے متعلق تفصیلی رپورٹ طلب کر لی۔ عدالت نے قرار دیا کہ پولیس ذمے داری کا مظاہرہ کرتی تو یہ سانحہ نہ ہوتا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ فرزانہ کا قتل ہائیکورٹ کے مرکزی دروازے سے 100 میٹر دور ہوا۔ پولیس کی بے حسی پر عدلیہ کو تحفظات ہیں۔