یہ میں نہیں ہوں!

یہ دور برقی ذرائع ابلاغ اورسماجی رابطے کی ترقی کادور ہے ٗہمارے بزرگ دوست اورسیاستدان حافظ حسین احمد ٗسماجی رابطے کیلئے سامراجی رابطے کالفظ استعمال کرتے ہیں۔اور اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ منہ زور ٹی وی چینلوں اور ہر قسم کی آزادی سے لیس سماجی رابطے کی ویب سائیٹس کے ذریعے سامراج ہمارے بیڈروموں تک گھس آیاہے۔میں صبح نوکا مخالف نہیں ہوں لیکن اس جہان تازہ میںسب کچھ عجیب سا نیا ہورہاہے ٗسب روایتیں اس بے رحم یلغار کی نذرہو چکی ہیں بلکہ ہمارے کئی وضع دار صحافی بھی اس سیلابِ بلاخیزکی بھینٹ چڑھ گئے ہیں۔خاص طورپر جب سے پاکستان میں ٹی وی چینلوں کی ’’بہار‘‘ آئی ہے چرب زبان’’ صحافیوں‘‘ کی ایسی کھیپ میدان میں آئی ہے جس نے زندگی میں کبھی نیوزروم کی ہوابھی نہیں کھائی ٗوہ بزعم خودصحافتی بزرچمہربنے بیٹھے ہیں اور ملک اور عوام کی تقدیرکے نوشتے تیارکرتے رہتے ہیں اور ہماری حکومت ہویا حزب اختلاف انکے اشارہ ابروپہ مرمٹنے کیلئے تیار رہتی ہے۔ یہ اپنی ذات میںخودکو انجمن سمجھتے ہیں ٗدنیا کے کسی موضوع پربات کرلیجئے ٗان سے زیادہ عالم فاضل آپ کو کہیں نہیں ملے گا۔ گلے پھاڑ پھاڑ کر ٗ چیخ چیخ کراوردلائل کی بجائے آواز کے زورپر اپنی بات منواناان کا شیوہ ہے۔جو جتنازیادہ منہ پھٹ ہے وہ اتنا بڑا ’’صحافی‘‘ سمجھا جانے لگا ہے۔انکی دانشوری سے معاشرتی قدروں کی خوب درگت بنی ہے اورزبان کابھی جوانہوںنے حال کیاہے ٗاس کی بھی سب کو خبر ہے مگر ٗبنے ہیں اہل ہوس مدعی بھی منصف بھی ٗ کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں ٗکے مصداق یہ مدعی بھی ہیں ٗ خود ہی وکیل ہیں اور جج بھی خود ہیں ۔ برقی ذرائع ابلاغ اورسماجی رابطے کی اس ترقی نے ہمیں ایسے لوگوں کے رحم وکرم پرچھوڑ دیا ہے ٗہم جن لوگوں کو ووٹ دے کر ایوانوں میں رہنمائی کیلئے بھیجتے ہیں ٗ اپنی سیاسی عاقبت سنوارنے کیلئے وہ بھی ان ہی کی طرف دیکھتے ہیں۔ ان صحافتی کھمبیوں نے پاکستان میں صحافتی اقدارکی دھجیاں بکھیر کر رکھ دی ہیں۔تاریخ شاہد ہے کہ یہ ملک ایک سیاسی جماعت ایک سیاست دان اور پرنٹ میڈیا نے بنایا تھا۔ یہ اور بات ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح کی رحلت کے بعد سیاست دان نااہل ثابت ہوئے ٗ ملک سنبھالنے میں یا تو ناکام رہے یا انہیں ناکام بنا دیا گیا۔ ہمارے جرنیلوں کو دونوں کام کرنے پڑے ٗ سرحدوں کی ذمہ داری بھی سنبھالنی پڑی اور ملک بھی چلانا پڑا۔ تب سے ہر اوسط دس سویلین سالوں کے مقابلے پر دس سال کیلئے فوجی جرنیلوں کو عنان اقتدار سنبھال کر ملک کا نظم و نسق چلانا پڑتا ہے۔ اڑسٹھ سالہ ملکی تاریخ میں جنرل اسکندر مرزا کے تین سال ٗ جنرل ایوب خان کے گیارہ سال ٗجنرل یحیی خان کے تین سال ٗجنرل ضیاالحق کے دس سال اور جنرل مشرف کے آٹھ سال جوڑ لیں تو یہ پینتیس سال بنتے ہیں ٗ معاملہ تقریباً ففٹی ففٹی بنتا ہے۔ملک میں سیاستدانوں کی ناکامی کے باوجودملک کے اخبارات عوام کی اور جمہوریت کی سربلندی کیلئے ہردورمیں مجاہدانہ کرداراداکرتے رہے۔ یہ اخبارات اوران سے وابستہ صحافی ہی تھے جنہوں نے ہر آزمائش اور ابتلامیں قومی رہنمائی کافریضہ سرانجام دیا۔ آمریت ہویا جمہوریت ٗ کوئی بھی دوراٹھاکردیکھ لیں ٗاخبارات اور صحافیوں نے ذاتی مفادات سے بالاترہوکرملک اور قوم کیلئے سوچااورلکھا اور اسکی پاداش میں صعوبتیں بھی برداشت کیںلیکن قومی مفادات پرکبھی کوئی آنچ نہیں آنے دی۔ ہماری افواج ہماری محافظ اورآمریت کیخلاف ہیں لیکن چندجرنیلوں کی عاقبت نااندیشانہ سوچ کی وجہ سے ملک میں باربارمارشل لا لگا اورآئین معطل کیا گیاجسے فوج میں کبھی قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھا گیا۔ہرآمرانہ دورمیں عوام کو کوئی نہ کوئی ایسا ’’تحفہ‘‘ ملاجس نے ہماری سماجی ساخت اور اخلاقیات کے بخیے ادھیڑکررکھ دئیے۔بنگال کے میر جعفرکے پڑپوتے میجرجنرل اسکندرمرزا کے دورمیں سیاسی سازشوں کی بنیادیں رکھی گئیںجنرل مشرف کے دورمیں جہاں دہشتگردی کی آگ گلی کوچوں میں پھیل گئی ٗوہاں جنرل مشرف نے اپنی روشن خیالی کاکھل کر اظہار کیا اور ملک میں ٹی وی چینلوں کی یلغارکردی حالانکہ قومی مفادات کے تحفظ کیلئے سرگرم خفیہ اداروں نے انکی اس فراخدلانہ پالیسی کی سخت مخالفت کی اور وقت نے ثابت بھی کیا کہ وہ ادارے حق بہ جانب تھے ۔ایسا بے باک میڈیا قوموں کو سوٹ کرتا ہے ٗ ہجوموں کیلئے سم قاتل ثابت ہوتا ہے۔ جنرل پرویزمشرف نے ملک میں الیکٹرانک میڈیا کی ترقی کے در کھولے اور اسکی اندھی طاقت کا سب سے پہلا نشانہ بھی وہ خود بنے۔اگربعض ہتھ چھوڑ ٹی وی چینل اوراس نئے عہد کے ’’صحافی‘‘ نہ ہوتے تو وہ اس طرح بے آبروہوکر بھری بزم سے نہ نکالے جاتے۔ ان ہی دنوں اس وقت کے وزیر اطلاعات شیخ رشید کو بے بسی کے عالم میںیہ کہنا پڑاکہ ہم نے اپنے پائوں پرخود ہی کلہاڑی چلائی ہے ٗہمیں کالاکیمرہ ٗکالابرقعہ اورکالا کوٹ لے ڈوبا۔ میں آزادی صحافت اورآزادی اظہاررائے کا ادنیٰ ساکارکن رہاہوں ٗمیں نے اس مشن میں جیل جانے اوربرہنہ پیٹھ پرکوڑے کھانے کی سعادت حاصل نہیں کی لیکن پاکستان اوراسکے کروڑوں مجبوراورمقہور لوگوں کوعالمی اورمقامی سامراج کی غلامی سے نجات دلانے کیلئے پچیس سال جہادباالقلم کیا ہے۔ اخلاقیات سے بے نیازبعض ٹی وی چینلوں کی مسابقت نے ملک میں اخلاق باختگی کے درواکردئیے ہیں۔ اس وقت ٹی وی چینلوں پر جو کچھ ہورہاہے وہ کسی طورپرصحافت نہیں ہے ٗیہ عالمی اور مقامی سامراج کا عطاکردہ کوئی’’ خاص تحفہ ‘‘ہے جوعوام میں احساس کمتری کوفروغ دے رہا ہے اورعام آدمی کو جرائم کی دنیا میں دھکیل رہا ہے۔ یہ ملک سیاستدانوں اور پرنٹ میڈیا نے بنایا تھا ٗبدقسمتی سے الیکٹرانک میڈیاکاایک بے لگام گروہ اسے ایک ایسی راہ پر لے جارہاہے جہاں کھائیاں ہی کھائیاں اور کٹھنائیاں ہی کٹھنائیاں ہیں ٗخدا خیرکرے۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...