میں سلگتے ہوئے رازوں کو عیاں تو کر دوں

پچھلے چند ماہ علالت میں گزرے جس کی وجہ سے کالم نہیں لکھ سکا لیکن پچھلے چند ماہ میں ایسے واقعات رونما ہوئے اور یکے بعد دیگرے اور اتنی تیزی کے ساتھ ہوئے کہ سوچتا ہوں کہاں سے شروع کروں۔ بھارتی ایجنٹ کلبھوشن چاہ بہار کی ایرانی بندرگاہ پہ پاکستان میں بھارتی انچارج کی حیثیت سے اور ’را‘ کا ایجنٹ ہونے کی وجہ سے بلوچستان اور سندھ میں بھارت کے ٹرینڈ ’را‘ کے ایجنٹ تخریب کاری کیلئے بھیجتا تھا لیکن آخر بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی، بالآخر پاکستان کی حدود سے گرفتار کر لیا گیا جس نے انکشاف کیا کہ وہ بھارتی نیوی کا آفیسر ہے اور بطور بھارتی ’را‘ ایجنٹ ایران کی بندرگاہ چاہ بہار سے بلوچستان اور سندھ میں بھارتی ’را‘ کے ایجنٹ بھجواتا تھا جو بلوچستان اور سندھ میں تخریب کاری کراتے ہیں اور پاکستان سے ان علاقوں کو دولخت کرنے کیلئے فضا ہموار کراتے ہیں۔ ہزار افسوس نہ ہی حکومت وقت نے اس بھارتی ایجنٹ کے متعلق کوئی بیان دیا اور نہ ہی تحریک انصاف کے ناخداﺅں نے کوئی مذمت کی۔ غالباً حکومت اور اپوزیشن دونوں اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ پاکستان کا تخت بھارت کی سفارش سے امریکہ دیتا ہے۔ اتفاق سے میں نے حال ہی میں بھارتی ’را‘ آفیسر وی یادیو کی کتاب Mission with RAW پڑھی ہے جس میں بنگلہ دیش بنانے کیلئے اندرا گاندھی نے ’را‘ کے انچارج مسٹرکاﺅ کو طلب کیا اور بھارتی آرمی چیف کو طلب کیا اور آرمی چیف کو کہا کہ وہ چاہتی ہیں بنگلہ دیش جو اس وقت ایسٹ پاکستان تھا اس پر فوج کشی کی جائے۔ مانک شاہ آرمی چیف نے وقت مانگا اور کہا کہ فی الحال وہ تیار نہیں۔ ادھر ’را‘ کے انچارج کاﺅ کو کہا فضا ہموار کرو۔ پاکستان کے آرمی ایکشن کی وجہ سے بنگالی بھارت جا چکے تھے۔ پہلے کاڈ نے مکتی باہنی کی تین قسمیں ٹرینڈ کیں.... ایک وہ لوگ تھے جو پاکستان آرمی کے بھگوڑے تھے، دوسرے بنگالی نوجوان تھے اور تیسرے پولیس لیوی کے جوان تھے۔ کلکتہ میں ایک ’را‘ کا انچارج اور بنگالی بھگوڑوں میں عثمان کو مکتی باہنی کا کمانڈر بنایا گیا۔ تاج دین اور دیگر سیاسی رہنماﺅں کی بنگال کی حکومت بنائی۔ ایسٹ پاکستان میں تخریب کاری کرائی گئی۔ایسٹ پاکستان میں مکی باہنی کے ذریعے بنگالیوں کا قتل عام کرایا گیا۔ ڈھاکہ یونیورسٹی کے آخری وائس چانسلر نے جیل میں کتاب لکھی جو بنگالی مکتی باہنی کے ظلم کی داستان ہے جس کا اردو میں ترجمہ کراچی سے کیا گیا اور یہ کتاب پاکستان میں بک سٹالوں پر موجود ہے۔ اندرا گاندھی نے دنیا کی رائے تبدیل کرنے کیلئے دورے کئے اور آخرکار نکسن کے کے پاس پہنچی۔ نکسن نے اس سے سوال کیا کہ یحییٰ خان نے جنرل ایمنسٹی کرنے کا اعلان کر دیا ہے، مجیب بنگلہ دیش کا مارچ میں اعلان کر دیگا، آپ آپے سے کیوں باہر ہوتی جاری ہیں، جب اندرا گاندھی کو یقین ہو گیا کہ امریکہ مداخلت نہیں کریگا تو اس نے جواب دیا کہ وہ پاکستانی کہاوت ایک مسلمان ہزار ہندو پر فاتح ہو سکتا ہے کی Myth کو ختم کرنا چاہتی ہیں، پاکستانی فوج، پاکستانی نیوی، پاکستانی ائرفورس کو ختم کرنا چاہتی ہیں۔ واپس بھارت جب آئی تو فوجی کمانڈر انچیف مانک شاہ اور کاﺅ ”را“ انچارج نے کہا کہ اب وہ پاکستان پر حملہ کرنے کیلئے تیار ہیں۔ چنانچہ ایسٹ پاکستان پر بھارتی فوج نے حملہ کر دیا۔ مکتی باہنی چونکہ ایسٹ پاکستانی تھے انہیں سب راز معلوم تھے، انہوں نے آگے کا راستہ صاف کیا اور پاکستان کو ایسٹ پاکستان سے ہاتھ دھونے پڑے۔ اندرا گاندھی نے بھی لوک سبھا میں تسلیم کیا تھا کہ اس نے پاکستان کو توڑا اور دو قومی نظریہ کو ایسٹ پاکستان کے Bay of Bengal میں دفن کر دیا۔ واجپائی جو اس وقت بھارت کے اپوزیشن لیڈر تھے انہوں نے اندرا گاندھی کو سراہا اور اس کو درگا دیوی کا خطاب دیا۔ اس کتاب میں ’را‘ کی کارروائیاں جو سکم میں کی گئیں، بھوٹان میں کی گئیں سب درج ہیں۔ پاکستان میں ’را‘ کے ایجنٹوں کے ذریعے تخریب کاریوں کا مفصل خاکہ دیا ہوا ہے۔ سیٹھی صاحب جو پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ بھی تھے اب روزر ٹی وی پر بھارت کے حق میں پروپیگنڈہ کرتے ہیں اور انکا فرمان ہے کہ بھارت باہر کے ملکوں میں ’را‘ کے ایجنٹ operate نہیں کرتا اور پٹھانکوٹ کے واقعہ میں پاکستان کو Condemn کیا اور سمجھوتہ ایکسپریس کے واقعہ میں ملوث کرنل کو بے گناہ قرار دیکر توحد کر دی ان کی خدمت میں عرض ہے قوم کو Mislead کرنا چھوڑ دیں۔ سجاد حسین آخری ڈھاکہ کے وائس چانسلر کی کتاب پڑھیں Mission with RAW کی کتاب پڑھ لیں، مودی کا بیان بنگلہ دیش میں کہ ہم نے بنگلہ دیش بنایا کا بیان ملاحظہ کر لیں اور اس کے بعد اگر پشیمان نہ ہوئے تو کم از کم اپنے ٹی وی پر فرمان کی تردید کریں۔ بات ایرانی بندرگار چاہ بہار کی ہو رہی تھی لیکن ہم کہاں سے کہاں چلے گئے۔ ہماری حکومت نے ایران کی پیشکش قبول نہ کی اور ان کی گیس اور بجلی جو پاکستانی بارڈر پر دے رہے تھے نہ لی اور ترکستان سے بجلی کا معاہدہ کیا جو امریکہ بہادر کی خواہش تھی۔ اس ناراضگی کی وجہ سے چاہ بہار سے جو پاکستان میں تخریب کاری کروائی جا رہی تھی اسکو مستقل کرنے کیلئے اس بندرگاہ کی تعمیر کیلئے بھارتی وزیراعظم مودی نے پچاس کروڑ ڈالر دیئے ہیں، گویا کہ پاکستان میں تخریب کاری کرانے کیلئے مستقل اڈہ بھارت کو فراہم کر دیا گیا ہے گو اب کہا جا رہا ہے ایران کی طرف سے پاکستان چین بھی شامل ہو سکتے ہیں۔ دیکھو اس بندرگاہ سے پاکستان میں تخریب کاری ہو گی، دوسری گوادر پورٹ کا متبادل وسط ایشیا میں جانے کیلئے بھارت نے ڈھونڈ لیا ہے، تیسرے چین پاکستان کوریڈور کو بھی نقصان پہنچانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ مسلمان ممالک بھی پاکستان سے دور اور بھارت کے قریب جا رہے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہماری حکومت نہ ہی بھارت کی کارروائیاں یو این او یا کسی انٹرنیشنل فورم پر لا رہی ہے اور نہ ہی بھارت کی پاکستان دشمنیوں کو دنیا کے سامنے اجاگر کیا جا رہا ہے۔ بھارت کسی صورت پاکستان کا دوست نہیں ہو سکتا، ایک اور سکینڈل آجکل زیربحث آ رہا ہے وہ ہے انگور اڈہ کا کہ انگور اڈہ کی چیک پوسٹ ختم کر دی گئی ہے اور 500 مربع میل کا علاقہ جو پاکستان کے پاس تھا، افغانستان کو دے دیا گیا ہے۔ یہ وہ راستہ تھا جہاں سے افغان تخریب کار وزیرستان اور دوسرے قبائلی علاقوں میں پاکستان میں تخریب کاری کیلئے آتے تھے۔ یہ علاقہ جب افغانستان کو دے دیا جائے تو تخریب کاروں کو کھلی چھٹی مل جائے گی لیکن ایک تجزیہ نگار نے لکھا کہ دراصل پاکستان طورخم پر باڑ لگانا چاہتا تھا تاکہ افغانستان سے آنے کا راستہ بند رکھا جائے لیکن افغان فوج توپیں اور ٹینک لے کر طورخم پہنچ گئی تھی، اب انگور اڈے کی چیک پوسٹ اٹھانے کا سمجھوتہ اس لئے کیا گیا کہ طورخم پر باڑ لگانے کی افغانستان اجازت دے دیگا اور افغانستان کے ساتھ ڈائریکٹ Confrontation ختم ہو جائے گی۔ دونوں جگہ سے تخریب کاری روکنے کیلئے بندوبست ہونا چاہئے تھا۔ انگور اڈہ کی پوزیشن کارگل اور ٹیٹوال جیسی جگہوں سے کی جاسکتی ہے لیکن پاکستان کو 1971ءکی جنگ کے بعد کارگل اور ٹیٹوال کا علاقہ بھٹو صاحب نے بھارت کو شملہ معاہدہ میں 556 مربع میل کا علاقہ دیا تھا لیکن سوال یہ ہے کہ اس وقت کی پوزیشن اور موجودہ پوزیشن میں فرق ہے جو قصور گنڈا سنگھ والی پوزیشن مختلف ہے، قصور گنڈاسنگھ میں کوئی تخریب کاری نہیں ہورہی تھی لیکن انگوراڈہ بہت اہم تھا۔ اگر وہ علاقہ کنٹرول نہ کیا جائے تو تخریب کاری کو کھلی چھٹی مل جائے گی۔ بہرحال اگر فوجی قیادت اور وزیراعظم نے ایسا فیصلہ کیا ہے جو ملکی مفاد میں ہو، اس کا بہتر علم اور حالات حکومت اور عسکری قیادت کو ہوں گے لیکن میں پھر بھی عرض کروں گا کہ یہ نازک مسئلہ ہے، اس پر دوبارہ سوچ بچار کرکے ملکی مفاد میں فیصلے کئے جائیں۔ خدا کے لئے ملک کی بقا کے لئے حکومت، عسکری قیادت کو کچھ سوچنا چاہئے، اپوزیشن پارٹیوں کو بھی ملکی بقا ملحوظ خاطر رکھنا چاہئے۔ اقتدار آنے جانے کی چیز ہے اگر ملک رہے گا تو ہر ایک کی باری آجائے گی۔ اگر ملک ہی نہ رہا تو حکومت اور اپوزیشن کس پر حکومت کرے گی۔ اصل حالات پر کسی کی توجہ نہیں، توجہ ہٹانے کے لئے پانامہ لیکس کا دن رات تذکرہ ہے، جلوسوں اور T.V چینل پر تبصرے کئے جا رہے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ ہمارے T.O.R کے 15 پوائنٹس مان لئے جائیں، حکومت ماننے کے لئے تیار نہیں۔ پرویز رشید اور اپوزیشن قوم کے اصل موضوعات کو زیربحث لانے کی بجائے پانامہ لیکس کے چکر میں پڑے ہوئے ہیں۔ اغیار ملک کی تباہی اور بربادی کے سامان مہیا کر رہے ہیںاور ہم ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے چکر میں ہیں۔ پانامہ لیکس کے کیس میں اگر وزیراعظم کے رشتہ داروں پر الزام ہے تو اپوزیشن کے لیڈروں پر بھی الزام ہے۔ خدارا پانامہ لیکس کے چکروں سے نکل کر ملک بچانے کی طرف توجہ دیں۔ ملک کی کشتی ڈول رہی ہے، اس کو سہارا دینے کے لئے حکومت، اپوزیشن اور عسکری قیادت کو مل کر مقابلہ کرنا ہوگا۔ فروعی باتوں سے وقت ضائع کرنے کی بجائے ملک بچاﺅ کا نعرہ سب کو لگانا ہوگا۔ خدا کرے وزیراعظم جلد روبصحت ہوجائیں اور ملکی معاملات پر توجہ دیں۔ 

میں سلگتے ہوئے رازوں کو عیاں تو کر دوں
لیکن ان رازوں کی تشہیر سے بھی ڈرتا ہوں
رات کے خواب اجالے میں بیان تو کر دوں
رات حسین خوابوں کی تعبیر سے بھی ڈرتا ہوں

ای پیپر دی نیشن