ریڈیو شعبہ ابلاغیات اور ریت کے گھروندے میں بیداریاں

آج کل ٹیلی ویژن کا زمانہ ہے مگر ریڈیو بہت یاد آتا ہے۔ ہم تب بھی ریڈیو پر آتے جاتے تھے جب ٹیلی ویژن نہ تھا۔ ریڈیو سننا آسان تھا۔ ٹیلی ویژن کے لئے اہتمام کرنا پڑتا تھا۔ پھر بھی ہم اپنے ہاتھ میں ٹی وی لے کے نہیں چل سکتے۔ میں نے دیکھا کہ ایک آدمی ہل چلا رہا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ریڈیو بھی چل رہا ہے۔ سماعت اور مشاہدہ دونوں بہت مزیدار ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی کے دلیر اور دانشور وائس چانسلر نے کہا کہ ہم یونیورسٹی ٹی وی بھی عنقریب شروع کرنے والے ہیں۔ وہ بھی بس کمیونی کیشن کے شعبے میں ہونا چاہیے۔ ڈاکٹر مجاہد کامران یہاں ہر تقریب میں بلائے جاتے ہیں۔ یہ شعبہ یونیرسٹی کا ترجمان ہے۔ آنکھ اور زبان ہے۔ یہاں ڈائریکٹر ڈاکٹر نوشینہ بہت سلیقے سے شعبے کی ذمہ داریاں سنبھالے ہوئے ہیں۔ شعبے کے ماحول کو مہذب اور مستعد رکھنے میں ان کا کمال شامل ہے۔
سب تقریبات جس جگہ ہوتی ہیں اسے حمید نظامی ہال کہتے ہیں۔ مجید نظامی یہاں کئی محفلوں میں تشریف لائے۔ شاہد رشید کی تمنا ہے کہ اس ہال کا نام اب نظامی برادران ہال ہونا چاہیے۔ حمید نظامی پاکستانی صحافت کے آسمان کی طرح تھے۔ مگر انہیں قدرت نے زیادہ موقع نہ دیا۔ اس کے بعد ایک طویل عرصے کے لیے مجید نظامی نے پاکستانی صحافت کی قیادت کی۔ بلاشبہ نوائے وقت قومی اخبار ہے۔ حمید نظامی ہال میں بیٹھے ہوئے ایک افتخار کا احساس ہوتا ہے۔ صفدر علی شاہ نے بہت خوبصورت کمپیئرنگ کی۔ میں اچھی کمپیئرنگ کو تقریب کی کامیابی کے لیے ضروری سمجھتا ہوں۔ مہمان خصوصی برادرم مجیب الرحمن شامی تھے۔ ایک جملہ انہوں نے میرے لیے کہا۔ یہ ان کی محبت ہے۔ انہوں نے کہا کہ اجمل نیازی ناراض بھی ہو جاتا ہے۔ ناراضگی بہرحال رضامندی سے اچھی ہوتی ہے کہ یہ بھی تعلق کی ایک ادا ہے۔ کبھی کبھی کسی کے ناراض ہونے سے ادائے دلبرانہ بھی بن جاتی ہے۔ ہر وقت راضی یا رضامند رہنا اہم تب بنتا ہے جب وہ ناراض ہوتا ہے۔ مجید نظامی کے بعد مجیب شامی پاکستانی صحافت کے آدمی ہیں اور لیڈر ہیں۔ دوستوں کے درمیان ان کی بے تکلفی اور بے ساختگی محفل میں جان ڈال دیتی ہے۔
ایک یہ بھی نسبت اس شعبے سے شامی صاحب کو ہے کہ ان کی صاحبزادی مسز سویرا شامی بھی اس شعبے میں ہیں اور ایک اچھے استاد کے طور پر ان کی تعریف کی جاتی ہے۔ یونیورسٹی ریڈیو کی انچارج ہمارے سینئر صحافی برادرم سرفراز سید کی بیٹی مس سیماب بخاری ہیں۔ وہ تقریب کی کامیابی پر بہت خوش تھیں۔ مسز فوزیہ طور وقار ملک، شبیر سردار، عابدہ صاحبہ، فہد محمود اور دوسرے تمام سٹاف کے ساتھ ڈاکٹر نوشینہ بہت مطمئن اور مسرور ہیں۔ اس شعبے کے لیے ہماری صحافی برادری ایک بہت بڑی نسبت رکھتی ہے۔ سب اخبارات میں ایسے خواتین و حضرات کی تعداد قابل ذکر ہے جو یہاں سے فارغ التحصیل ہو کر گئے ہیں۔ آج بھی یہاں احمد شیخ اجمل جامی ڈاکٹر صغرا صدف، ناصر خان اور شکیل ایمان زاہد بلال اور اشرف خان کے علاوہ کئی دوستوں نے اور طلبہ و طالبات کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ ڈاکٹر مجاہد کامران نے ڈاکٹر نوشینہ اور ریڈیو ٹیم کو مبارکباد دی۔ مطالعے کی ضرورت پرزور دیا۔ یہ بات میڈیا کے ساتھ متعلق لوگوں کے لیے بہت ضروری ہے۔
ظفر اقبال نے اپنی کتاب ’’میں میڈیا اینڈ دی پالیٹکس‘‘ دی اور ادارہ علوم اسلامیہ کی ڈاکٹر شاہدہ پروین کا شعری مجموعہ ’’ریت کے گھروندے‘‘ دیا۔ اس کے ساتھ شعبے کا نمائندہ میگزین ’’البدر‘‘ بھی دیا۔ جس کی نگران ڈاکٹر شاہدہ پروین ڈاکٹر عاصم نعیم اور ڈاکٹر حافظ عثمان احمد ہیں۔ میں حیران ہوں کہ ان تینوں نے بیک وقت نگرانی کیسے کی ہو گی۔ اس حوالے سے ڈاکٹر شاہدہ پروین نمایاں ہیں۔ میں نے دیکھا کہ یہ میگزین بہت خوبصورت اور محنت سے مرتب کیا گیا ہے۔ میں نے میگزین میں بھی صرف ڈاکٹر شاہدہ پروین کے مضامین نظم و نثر دیکھے۔ دوسرے دو نگرانوں کی کوئی تحریر نظر نہ آئی۔ دوسرے دو نگرانوں نے شاید صرف نگرانی کی۔ ایک میگزین میں ڈاکٹر عثمان احمد کے کچھ نثریے اور کچھ ’’غزلیے‘‘ پڑھنے کو مل گئے۔ نثریے مجھے پسند آئے۔ عثمان صاحب کے اشعار دیکھیں:
مرے جذبے میری سوچوں کی طرح بوڑھے ہیں
نوجوانی میری گزری ہے کہولت کی طرح
ہو ہی جائے گا وہ اک روز تو میرے جیسا
اس کی حالت بھی بنے گی میری حالت کی طرح
میگزین میں دو تین اداریے شامل کیے جاتے ہیں۔ اب ڈاکٹر شاہد پروین کا ایک شعر دیکھیے جس کے نیچے 30 مارچ 1994ء کی تاریخ لکھی ہوئی ہے۔
میں بے نام محبتوں کے حصار میں ہوں
جس کو خبر نہیں ہے اس کے انتظار میں ہوں
ادارہ علوم اسلامیہ کو اسلامی بنانے کی کوشش بہت بڑی نیکی ہے مگر اس میگزین کو تخلیقی اور ادبی بنانے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ کئی طلبہ و طالبات کی تحریریں اچھی لگیں مگر یہ تاثر ضرور ملتا ہے کہ جناب یہ تخلیق علوم اسلامی کے طالب علم کی ہے۔ بہرحال میں نے شعبہ ابلاغیات کا کوئی میگزین نہیں دیکھا۔
احمد بشیر ایک بہت بڑے اور بے باک صحافی تھے۔ ادیب بھی تھے۔ ان کی بیگم محمودہ احمد بشیر کی ایک کتاب دو تحریریں کے نام سے شائع ہوئی ہے۔ اس کے لیے ایک تقریب نامور افسانہ نگار اور کمپلیکس فری خاتون نیلم احمد بشیر نے احمد بشیر مرحوم کے گھر پر کی۔ منو بھائی نمایاں تھے۔ یہ کوئی باقاعدہ تقریب نہ تھی۔ ایک گھریلو قسم کا اجتماع تھا۔ سب خواتین و حضرات بے تکلفی سے موجود تھے۔ احمد بشیر کی چاروں بیٹیاں خاص طور پر محفل میں شریک ہوئیں۔ مشہور اداکارہ بشریٰ انصاری سنبل شاہد اسما عباس کے علاوہ سیما پیروز بشریٰ رحمان اور بہت سی خواتین… مرد بھی تھے مگر تھوڑے تھے۔ سب سے خوبصورت باتیں بیگم احمد بشیر نے کیں۔ جبکہ سب لوگوں نے احمد بشیر کے لیے باتیں کیں جبکہ باتیں محمودہ صاحبہ کے لیے بھی ہونا چاہئے تھیں۔ یہ کتاب ہر اہم ادیب کی بیوی کو لکھنا چاہیے مگر بشریٰ انصاری کے لیے کتاب تو انصای صاحب کو لکھنا پڑے گی۔ ڈاکٹر عمر عادل نے روانی اور آسانی سے بات کی۔ آسودگی سے بولتے ہوئے اسے سب نے پسند کیا۔ دوسری پسندیدگی بشریٰ رحمان کے لیے تھی۔ وہ بہت اچھا بولتی ہیں۔ نیلم احمد بشیر بہت سرگرمی سے ادبی سرگرمیوں میں حصہ لیتی ہیں اور آج کل گرمی بہت ہے۔ اسے گرما گرمی بھی وہی بنا سکتی ہیں۔ سلمیٰ اعوان ساتھ ہوتی ہیں۔
بہت تخلیقی خاتون شاعرہ ادیبہ صوفیہ بیدار کے ساتھ دو تقریبات ہوئیں۔ دونوں کی صدارت کا اعزاز صوفیہ نے مجھے دیا۔ تو اب میں کالم کیا لکھوں۔ ایک تقریب پنجاب انسٹی ٹیوٹ اور دوسری اکادمی ادبیات پاکستان لاہور میں منعقد ہوئی۔ میں صوفیہ بیدار کو ماننے والوں میں ہوں مگر یہ پتہ نہیں کہ اسے جاننے والوں میں بھی ہوں کہ نہیں۔ وہ گفتگو بہت تخلیقی انداز میں خوبصورتی سے کرتی ہے۔ وہ چند خواتین میں سے ہے جو بولتی ہیں تو دلوں کے کئی دروازے کھولتی ہیں۔ اس نے شادی بھی ایسے شخص سے کی کہ صوفیہ بیدار بن گئی۔ بیدار بخت کے لیے کچھ نہیں جانتا کہ وہ بیداریوں کی نامعلوم کیفیتوں میں گزرا ہے یا نہیں گزرا۔ جاگنا ہی زندگی ہے۔

ای پیپر دی نیشن