پانامہ لیکس کا طوفان اداروں کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔ اداروں کی کمزوریاں سامنے آرہی ہیں سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا تھا کہ جب تک معاملات کی تحقیقات نہیں ہوتیں حتمی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا۔ اس مقصدکیلئے 6 رکنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (JIT) بنا دی گئی۔ فیصلے کے مطابق ان ارکان کا فیصلہ سپریم کورٹ کریگی اور متعلقہ اداروں کے سربراہ نام بھیجیں گے۔ نام بھیج دیئے گئے اور سپریم کورٹ نے چھ رکنی JIT بنا دی جس نے اپنا کام بھی شروع کر دیا ایک رپورٹ پیش ہوچکی ہے جبکہ 7جون کو دوسری رپورٹ آئیگی۔ وزیراعظم کے بیٹے حسین نواز چار مرتبہJITمیں پیش ہوچکے ہیں جبکہ حسن نوازبھی لندن سے آکرپیش ہوئے۔وزیراعظم نوازشریف اسحاق ڈاراوردیگررہنماﺅں کوبھی بلانے کی توقع ہے۔تحقیقاتی ٹیم کے روبرو پیش ہونے کے واقعات پر سخت ترین گرم موسم میں مزید آگ پڑگئی ہے۔ نہال ہاشمی نے بہت کچھ کہہ دیا ہے۔ JITکے دو ممبران پر حسین نواز کے اعتراضات سپریم کورٹ نے مسترد کر دیئے۔ طارق شفیع کی درخواست قبول نہیں کی گئی۔ اسی دوران JIT کی تشکیل کے حوالے سے معروف صحافی انصارعباسی کی رپورٹ سامنے آگئی جس سے یہ ظاہر کیا گیا کہ JIT کے ممبران کا تقرر رجسٹرڈ سپریم کورٹ نے کچھ ارکان کے نام ڈلوا کر کیا۔ نہال ہاشمی کے ویڈیو پر چیف جسٹس پاکستان نے ازخود نوٹس لیا توسپریم کورٹ کے معزز جج کے ریمارکس پر حکومت نے بھرپور ردعمل کا اظہار کر دیا۔ معاملہ یہاں پر ختم نہیں ہوا تھاکہ حسین نواز کیJIT میں پیشی کی تصویر سوشل میڈیا پر آگئی۔انصارعباسی کی رپورٹ کے مطابق رجسٹرار سپریم کورٹ نے اسٹیٹ بینک اور ایس ای سی پی سے کہاکہ جے آئی ٹی کی تشکیل کیلئے سپریم کورٹ کوپیش کرنے کیلئے عامر عزیز اور بلال رسول کا نام شامل کریں اور نیب سے عرفان نعیم منگی کا نام بھی مانگا تھا۔
حسین نوازکی درخواست میں الزام لگایا گیا تھا کہ JIT والے فرعون بنے بیٹھے ہیں۔ طارق شفیع کو دھمکایا سپریم کورٹ نے درخواست مسترد کردی اور کہا کہ تعصب محسوس ہوا تو حکم جاری کرینگے۔ JIT پر تحفظات قبل ازوقت ہیں۔ رشتہ داریاں دنیا میں ہر جگہ ہوتی ہیں‘ رشتہ داری کو بنیاد بنایا جائے تو کسی تفتیش کو غیرجانبدار نہیں کہا جاسکے گا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے باوجود JIT کے بارے میں شکوک وشبہات جاری ہیں۔ حسین نواز کی تصویر کس نے جاری کی اور اس کا کیا مقصد ہے۔ ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے اس تصویر کو جاری کرنے کا کس کو فائدہ ہے۔ کیا شریف خاندان کیلئے ہمدردی پیدا کرنا ہے یا شریف خاندان کی تضحیک کرنا مقصود ہے یا JIT کے مشکوک کو جانبدار دکھانا ہے۔ دوسری طرف سینیٹر نہال ہاشمی نے کہاکہ شریف فیملی کا حساب لینے والوں کو چھوڑیں گے نہیںآج حاضر سروس ہو کل ریٹائرڈ ہو جاﺅ گے‘ تمہارے بچوں اور خاندان کیلئے پاکستان کی زمین تنگ کر دینگے۔ حساب لینے والوں کا یوم حساب بنا دیا جائیگا۔
میاں نوازشریف نے اس تقریر کا فوری نوٹس لیا اور سینٹ سے استعفی لے لیا۔ چیف جسٹس پاکستان نے فوری نوٹس لیتے ہوئے نہال ہاشمی کو تین رکنی سپیشل بنچ کے سامنے پیش ہونے کا حکم دیا۔ سماعت کے دوران جسٹس اعجازافضل خان نے کہاکہ ہم کسی سے ڈرنے والے نہیںاورکسی قسم کے نتائج سے نہیں گھبرائیں گے جو بھی عدلیہ کی تضحیک کرے گا اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائیگی‘ ہمیں نتائج کا خوف نہیں۔ جسٹس عظمت سعید نے کہاکہ حکومت سیسلین مافیا بن گئی ہے۔ فوجی آمریت کا سامنا بھی کیا ہے لیکن انہوں نے بھی ہمارے بچوں کو دھمکیاں نہیں دی ہیں۔ نہال ہاشمی کی آواز میں کوئی اور بول رہا تھا۔ ہمارے ملک میں بڑوں کی لڑائی میں بچوں کو لانے کا رواج نہیں ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ اداروں کو اپنے منظم سازش کے تحت بدنام کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جسے کسی طور پر قبول نہیں کیا جائیگا۔ سپریم کورٹ نے انصار عباسی کی رپورٹ کا حوالہ دیئے بغیر کہا کہ رجسٹرار کو JIT کے ارکان منتخب کرنے کا کام ہم نے سونپا، معاملات بڑھا چڑھا کر پیش کرنے پر سخت ایکشن لیں گے۔سپریم کورٹ کے ریمارکس پر حکومت پاکستان نے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے انہیں بھی عدلیہ کی روایات اور خود سپریم کورٹ کے ضابطہ اخلاق اور حلف کے منافی قرار دیا۔حکومت کو سیسلینن مافیا سے تشبیہ تو دے دی گئی لیکن یہ نہیں سوچا گیا کہ اس سے ریاست کی حیثیت کیا رہ گئی۔ اس مافیا کا تعلق اٹلی کے ایک جزیرہ نما حصہ سسلی سے تھا۔ سسلی کا مافیا دنیا کے طاقتور ترین جرائم پیشہ گروہوںمیں سے تھا۔ اس مافیا نے کئی دہائیوں تک سسلی پر حکومت کی اس مافیا نے اپنے راستے میں آنے والے افراد کو ڈرا دھمکا کر چپ کرا دیا یا خرید لیا جو دونوں طریقوں سے قابومیں نہیں آئے‘ انہیں مار دیا گیا۔ ریاستی ادارے اس مافیا کے خلاف برسوں سے کچھ نہیں کرسکے۔ 1986ءمیں اٹلی کی حکومت نے پہلی مرتبہ اس کے خلاف کارروائی کی لیکن حالات اس قدر خراب ہوئے کہ مقدمے کی تمام کارروائی ایک زیرزمین بنکر میں کی جاتی تھی جوسسلی کے شہر پالیرمو ایک جیل کے نیچے بنایا گیا تھا۔ چار سو افراد پر مقدمہ چلایا گیا جب حکومت کا دباﺅ بڑھا تو انہوں نے قتل وغارت شروع کر دی۔ یہ سسلی کی تاریخ کا ایک بھیانک دور تھا۔ مافیا کوکیفر کردار تک پہنچانے کی کوشش کرنے والے بہت سے افراد کو بم کے ذریعے اڑا دیا گیا قتل تو ویسے بھی کیا جاسکتا تھا لیکن مافیا کا مقصد دہشت پیدا کرنا تھا مافیا کے گرد جب گھیرا تنگ ہوا تو انہوں نے ان سیاستدانوں پر بھی پریشر ڈالنا شروع کر دیا جو مافیا کی بدولت ہی اقتدار میں آئے تھے‘ جب انہوں نے ساتھ نہ دیا تو ان کے خاندانوں کو مار دیا گیا۔ پولیس افسروں اور گواہوں کو بھی معافی نہیں دی گئی۔ بعدازاں سسلی مافیا نے عدلیہ کو بھی نشانہ بنایا کیونکہ سسلی مافیاکے لوگوں کے خلاف اتنے مقدمات تھے کہ وہ بچ نہیں سکتے تھے‘ اس لئے انہوںنے مقدمات سننے والے ججوں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ 1988ءمیں دو ججوں کو نشانہ بنایا گیا 1990ءمیں ایک جج جبکہ 1991ءمیں سپیشل پراسیکوٹر کو قتل کیا گیا۔ بہرحال ریاست نے مافیا کو ختم کیا اور قانون کی حکمرانی قائم ہوئی۔ پاکستان کی حکومت کو مافیا سے تشبیہ دینے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ نہال ہاشمی کی تقریر کوئی محب الوطن پاکستانی سپورٹ نہیں کرسکتا۔ ایک وکیل اور سینیٹر ہونے کے ناطے ریاستی اداروں اور عدلیہ کو دھمکیاں دینے کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ JIT کے حوالے سے جس طرح خبریں لیک ہو رہی ہیں‘ اس کا بھی نوٹس لینا چاہیے کہ کون خط لیک کر رہا ہے اور ادارے اپنی خط وکتابت میڈیا کوکیوں دے رہے ہیں۔ ماضی میں طاقتور لوگوں نے عدالتوں کو دھمکیاں دی تھیں تو اس پر کسی نے نوٹس نہیں لیا۔ محترم جسٹس اعجازالاحسن نے اس کی نشاندہی بھی کی ہے لیکن اب بات کرنے کا کیا فائدہ کارروائی بروقت ہوتی تو آج نہال ہاشمی کی زبان نہ کھلتی۔ بلاشبہ سپریم کورٹ اور حکومت آمنے سامنے نہیں لیکن محاذ آرائی کی کیفیت پیدا ہو رہی ہے۔ عدلیہ کی نامزد کردہ JIT کو متنازعہ بنانا، تصویر لیک کرنا اور اداروں کے خلاف تقریر کرنا ایک خوفناک سازش کی تصویر کشی کا منظر پیش کر رہا ہے۔ عدالتوں کو سب کے ساتھ انصاف کرنا چاہیے۔ شریف خاندان اور عمران خان کا ضرور احتساب ہونا چاہیے لیکن انصاف ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہیے۔ وزیر اطلاعات کو یہ بیان دینے کی ضرورت پیش نہیں آنی چاہیے کہ زیادتی ہو رہی ہے اور نہ ہی حسین نواز کو یہ کہنا پڑے کہ زیادتی ہوئی تو عوام کی عدالت میں جائیں گے۔ اس سارے بحران میں مریم نواز کے ٹویٹ دیکھ کر لگتا ہے کہ ان کا حوصلہ بہت بڑھا ہوا ہے اور وہ کہتی ہیں کہ بے گناہی کے باوجود وزیراعظم کے خاندان نے خود کو بے رحم اور کڑے احتساب کیلئے پیش کر دیا ہے۔ حسین نواز نے حسین شہید سہروردی کی بات کرکے سیاست میں انٹری ڈال دی ہے اور لگتا ہے کہ حسین نواز کو سیاست نہ کرنے کے فیصلے کو تبدیل کرنا پڑے گا۔