مزدور طبقہ روزِ ازل سے استحصالی عناصر کی چیرہ دستیوں کا شکار ہے اور وسائل سے محرومی کے باعث اپنی محنت سے پیدا کی ہوئی دولت میں سے اپنے جائز حق سے محروم رہتا ہے۔مایوسیاں اور محرومیاں اس کا مقدر بنی رہتی ہیں۔ سرمایہ دار اس کا خون چوس لینے کو بھی اپنا فرض سمجھتا ہے اور اس سے یہ توقع رکھتا ہے کہ وہ سرجھکائے دن رات محنت مشقت کرتا رہے۔ جب کہ غیر محفوظ یا غیر رسمی شعبے سے منسلک مزدوروں کی حالت اس بھی بدتر ہے، ان کی ملازمتیں عارضی ہیں، وہ مختصر وقتی محنت کرتے ہیں اور بنیادی حقوق سے یکساں محروم انتہائی پسماندہ حالات میں کام کرنے پر مجبور ہیں۔ مستقل ملازمت نہ ہونے کے برابر ہے، کارکنوں کی اکثریت عارضی، سیزنل اور کنٹریکٹ ورکرز کی ہے جنہیں ملازمت کا تحفظ، سوشل سیکورٹی اور تنظیم سازی کے حقوق نہیں ہیں۔ ہمارے ہاں ریاست لیبر کے متعلق معاملات، قاعدے قانون، دستاویز کاری اور نگرانی و معائنے کی ذمہ داریوں سے پہلو تہی کرتی رہی ہے، یہاں زبانی جمع خرچ اور احکامات کا رویہ روایت بن گیا ہے، بے ضابطہ معیشت عام ہو گئی ہے اور سماجی انصاف، انسانی اور مزدور حقوق پالیسی سازوں کی ترجیحات میں سب سے نچلے درجے پر ہیں۔حالیہ بجٹ میں مزدوروں کی تنخواہ میں 1000روپے کااضافہ کیا گیا ہے جب کہ مہنگائی اس سے کہیں زیادہ تناسب سے بڑھی ہے۔ اس میں شک نہیں ہے کہ وطنِ عزیز میں مہنگائی کے خوفناک عفریت نے عام آدمی کا جینا دو بھر کر دیا ہے مزدور طبقہ گرانی کی چکی میں پس کر رہ گیا ہے اور اسے سمجھ نہیں آ رہا ہے کہ وہ تن فانی کو زندہ رکھنے کے لئے مزید کیا صورت اختیار کرے۔ مفلس طبقات محدود آمدنی میں اپنی بنیادی ضروریات و معاشی حوائج کی تکمیل چاہتے ہیں ظاہر ہے کہ مزدوروں کی تنخواہ میں 1000روپے کے اضافہ سے وہ موجودہ وقت میں پوری ہوتی نظر نہیں آ رہی ہے۔ پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں غربت و افلاس کے سائے تیزی سے بڑھ رہے ہیں ۔ آج پاکستان کا ہر پانچواں فرد اپنی اور اپنے کنبے کی جسمانی، تعلیمی اور طبعی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ایک سے زائد ذریعہ معاش اختیار کرنے پر مجبور ہے۔
حکومت کی جانب سے مقرر کردہ تنخواہ یعنی 15000روپے تو وہ ہے جو صرف بجٹ کے اعلان کے مطابق ہے ورنہ اکثر آجر یہ بھی پوری ادا نہیں کرتے کتابوں میں کچھ دکھاتے ہیں جب کہ مزدوروں کو ہونے والی ادئیگی اس سے کہیں کم ہوتی ہے۔ عام طور پر فیکٹری کا مالک کسی درمیانی واسطے سے جسے ٹھیکے دار کہا جاتا ہے باقاعدہ طور پر خدمات کا معاہدہ طے کر لیتا ہے، ٹھیکے دار بے ضابطہ طور پر محنت کش بھرتی کرتا ہے، فیکٹری مالک ٹھیکے دار کو فی محنت کش ایک مقررہ قیمت ادا کرتا ہے۔ اس انتظام کا مقصد فیکٹری مالک کو مزدور قوانین کے تحت قانونی ذمہ داری سے بچانا ہوتا ہے کیونکہ جو محنت کش اس کے لئے کام کرتے ہیں اس کے ملازم نہیں ہوتے بلکہ ٹھیکے دار کے ملازم ہوتے ہیں۔ ٹھیکے دار عموماً ایسے لوگ ہوتے ہیں جو مزدور قوانین پر عملدرآمد کے اداروں سے ملی بھگت کر کے مزدور قوانین کی عدم تعمیل کا سلسلہ جاری رکھنے میں مدد دے سکتے ہیں۔ اگر کوئی فرم ٹھیکے دار کو فی کارکن کم از کم قانونی اجرت دے بھی دے جیسا کہ عموماً ہوتا نہیں تب بھی محنت کش کو کم رقم ملتی ہے۔ مزید یہ کہ ٹھیکیداروں کے پاس باقاعدہ کنٹریکٹ یا ملازمت کا تحفظ نہیں ہوتا چنانچہ وہ سوشل سیکورٹی کے حقدار نہیں ہوتے جو فیکٹری کارکنوں کو ملنی چاہئے، اس طریقے سے فیکٹری مالکان کنٹریکٹ ملازمین کی ذمہ داری سے بری ہو جاتے ہیں۔ اگر آپ فیکٹریوں میں جائیں تو محنت کشوں کی اکثریت غیر ہنر مند ہے اور سخت جسمانی مشقت کے کام کرتی ہے جیسے بھاری مشینیں اور سامان اٹھانا وغیرہ جب کہ ان غیر ہنرمند کارکنوں کو ماہانہ اجرت یومیہ 8سے 10گھنٹے کی ڈیوٹی شفٹ کے لئے 6000 سے10000روپے ہے جب کہ رواں سال کے لئے سال کم از کم ماہانہ اجرت 14000 روپے جو کہ یکم جولائی سے بڑھ کر 15000ہزار روپے ہو جائے گی۔ یہ اجرت گزارے کے لئے انتہائی ناکافی ہے چونکہ بے روزگاری بہت ہے، فاضل تعداد میں محنت کش دستیاب ہیں اور اجتماعیت کا پہلو کمزور ہے۔ صرف روزگار حاصل کر لینا ہی سب سے بڑا مقصد ہے اور ملازمت سے محرومی سب سے بڑا خوف ہے جب کہ حکومتی اہلکار جنہوں نے قوانین پر عملدرآمد کروانا ہوتا ہے ان کی فیکٹری مالکان سے ملی بھگت ہوتی ہے۔ ایک تخمینے کے مطابق 30 فیصد سے بھی کم فیکٹریاں اپنے ملازمین کو کم از کم اجرت ادا کرتی ہیں۔ اگر ایسے ملازمین سے پوچھا جائے کہ وہ اپنی ملازمت سے مطمئن ہیں تو تقریباً سبھی محنت کش اس بات پر اطمینان کا اظہار کریں گے کہ سنگین بیروزگاری کے دور میں کم از کم ان کے پاس ملازمت تو ہے۔ اس قسم کے مایوس کن حالات محنت کشوں کی پیداوار پر منفی اثر ڈالتے ہیں لیکن انہیں روزگار سے وابستہ رکھتے ہیں کیونکہ بقاء کے لئے متبادل راہیں موجود نہیں ہیں۔ کم سطح کے توازن کا یہ جال بے بسی کی کیفیت سے تقویت پاتا ہے، کاروباری افراد اور مقامی سرکاری اہلکاروں کی ملی بھگت کی وجہ سے یہ صورتحال جاری رہتی ہے۔ فیکٹری مالکان اور سرکاری حکام ذاتی مفادات کے حصول کے لئے محنت کشوں کی بہبود اور قومی معیشت کی ترقی کو بھاری نقصان پہنچا رہے ہیں۔
اس طرح بجٹ میں اعلان کردہ کم از کم اجرت نہ صرف زندگی گزارنے کے لئے ناکافی ہے اوپر سے کم از کم اجرت کی ادائیگی مزدوروں کوکی بھی نہیں جا رہی ہے۔ مہنگائی کے اس دور میں مزدوروں کی کم از کم اجرت 20000 روپے ہونی چاہئے اور اس کے ساتھ کم از کم اجرت کی ادائیگی کو یقینی بھی بنایا جانا چاہئے۔ریاست کا فرض ہے کہ شہریوں، محنت کشوں اور صارفین کی معاشی اور سماجی بہبود کو یقینی بنائے خواہ یہ مقصد فعال ریاست کے طور پر حاصل کیا جائے یا ترقی پسندانہ معاشی اور صنعتی پالیسی ایجنڈے کے ذریعے یا دونوں کے اشتراک سے۔