لندن برج حملہ داعش نے ذمہ داری قبول کرلی سرغنہ پاکستانی نژاہے برطانوی میڈیا

لندن (نیوز ڈیسک+بی بی سی +نمائندہ خصوصی) برطانوی میڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ لندن برج پر گزشتہ ہونیوالی دہشت گردی کا سرغنہ پاکستانی نژاد برطانوی شخص خرم شہزاد بٹ‘ دوسرا حملہ آور مراکش کا 30 سالہ رضوان رشید تھا۔ میڈیا رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ عالمی دہشت گرد تنظیم داعش نے حملے کی ذمہ داری قبول کی۔ برطانوی میگزین ’’ دی مرر‘‘ نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ لندن برج پر جمعہ کی رات ٹرک کے ذریعے راہ گیروں کو کچلنے اور بعد میں چاقوئوں کے وار کرکے 7 افراد کو قتل اور 48 کو شدید زخمی کرنے کے واقعہ کا سرغنہ پاکستانی نژاد27سالہ شخص خرم شہزاد بٹ ہے۔ وہ جب بچہ تھا تب پاکستان سے برطانیہ لایا گیا یہیں اس کی پرورش ہوئی خرم بارکنگ کے فلیٹ میں بیوی اور 2بچوں کے ساتھ رہائش پذیر تھا اخبار’’ دی سن‘‘ کے مطابق خرم بٹ پچھلے چند سالوں میں داعش کی ویڈیوز دیکھ کر انتہا پسندی کی طرف مائل ہوا اس کی مشکوک سرگرمیوں کی وجہ سے رپورٹ ہونے پر اسے انسداد دہشت گردی پولیس کے حکام نے 2 مرتبہ طلب کرکے اس سے تفتیش کی تھی مگر بعد میں اسے چھوڑ دیا گیا تھا اس امر کا انکشاف ہونے کے بعد برطانوی سکیورٹی ایجنسیوں کی کارکردگی پر مزید سوالیہ نشان کھڑے ہو جائینگے جو پہلے ہی مانچسٹر خود کش حملے کے مجرم سلیمان عابدی کو اطلاع ہونے کے باوجود نظرانداز کرنے پر سخت تنقید کا نشانہ بن رہی ہیں۔ دوسری طرف سکاٹ لینڈ یارڈ پولیس کے مطابق خرم شہزاد بٹ لندن برج حملے کا ماسٹر مائنڈ تھا تاہم اسکے حملے کا پاکستان سے کوئی تعلق نہیں وہ ابو زیتون کے نام سے جانا جاتا تھا خرم بٹ کے والدین جہلم سے برطانیہ آئے اور سیاسی پناہ حاصل کی خرم نے 2009ء میں بزنس ایڈمنسٹریشن کی ڈگری حاصل کی اسسٹنٹ کمشنر پولیس مارک راؤسی نے کہاکہ خرم پولیس کی نظر میں تھا لیکن اس سے حملے کی توقع نہیں تھی۔ رپورٹ کے مطابق لندن برج حملے کا مبینہ سرغنہ خرم بٹ اپنے علاقے بارکنگ میں خاصا معروف تھا اس کے اپنے ہمسایوں سے اچھے تعلقات تھے تاہم بعض ہمسایوں نے بتایا کہ خرم بٹ بچوں کو لالچ دیکر انتہا پسندی کی طرف مائل کرنے کی کوشش کرتا تھا اس کا ایک خاتون سے اسی معاملے پر تنازعہ بھی ہوا خاتون نے الزام لگایا تھا کہ ’’اے بی زی‘‘ نے لالچ دیکر اس کے 3 بچوں کو انتہا پسندی کی طرف راغب کرنے کی کوشش کی۔ خرم بٹ کو اس کے ایک ہمسائے نے اخبارات میں اس کی نعش کی تصویر دیکھ کر پہچانا۔ خرم بٹ کو پولیس نے جوا خانے کے سامنے گولیاں مار کر اس کے 2 ساتھیوں سمیت ہلاک کیا۔ 2 ساتھیوں کی شناخت ابھی ظاہر نہیں کی گئی ایک اور ہمسائے نے اخبار دی سن کو بتایا کہ ’’خرم بٹ‘‘ کی نعش پر وہی ٹی شرٹ تھی جو اس نے حملے سے ایک روز قبل پہن رکھی تھی۔ دوسری طرف پولیس نے بارکنگ میں خرم بٹ اور اس کے رشتہ داروں کے 4 گھروں کی تلاشی لیکر 4 خواتین اور 8 مردوں کو حراست میں لیا تھا جن سے دوسرے روز بھی تفتیش جاری رہی۔ رپورٹ کے مطابق لندن برج حملے کا سرغنہ اے بی زی چینل ’’فور‘‘ کی ایک دستاویزی فلم میں بھی دکھایا گیا تھا یہ فلم برطانوی نوجوانوں میں انتہا پسندی کے رحجانات سے متعلق تھی اس کے باوجود برطانوی سکیورٹی کے اداروں نے اس خطرے کو نظرانداز کئے رکھا۔ اس دستاویزی فلم میں خرم بٹ داعش کے پرچم اور ساتھیوں کے ساتھ لندن کے ایک پارک میں مشکوک سرگرمیاں کرتے دکھایا گیا تھا وہ اپنے فلیٹ پر لوگوں کو بلا کر تبلیغ بھی کرتا تھا ان میں زیادہ تر نوجوان ہوتے تھے۔ رپورٹ کے مطابق خرم بٹ انگریزی‘ اُردو عربی جانتا تھا وہ لندن میں ٹرانسپورٹ کے شعبے سے وابستہ رہا کسی نے فاسٹ فوڈ چین کیلئے بھی کام کیا جسے دو سال قبل اس نے چھوڑ دیا تھا۔ پچھلے سال داعش کی حمایت میں باتیں کرنے پر اسے مقامی مسجد سے نکال دیا گیا تھا۔ ادھر لندن پولیس نے پیر کے اور مشرقی لندن میں نیوہیم اور بارکنک کے علاقوں میں 2 مقامات کی تلاشی لیکر 8افراد کو حراست میں لے لیا جبکہ ہفتہ کی رات بارکنگ سے گرفتار 12افراد میں سے ایک 55سالہ شخص کو بغیر کارروائی کے رہا کردیا گیا۔ دوسری طرف لندن برج کے علاقے میں جہاں لوگوں کو مارا گیا عوام کی طرف سے پھول رکھنے موم بتیاں جلانے کا سلسلہ جاری رہا۔ لندن برج اس کا ریل ٹیوب سٹیشن پیر کی صبح کھول دیئے گئے، رکاوٹیں ہٹا لی گئیں۔ 48 زخمیوں میں سے 36 بدستور زیر علاج،21کی حالت نازک بتائی گئی ہے۔ زخمیوں میں4 پولیس اہلکار بھی ہیں ان میں دو اہلکار حملہ آوروں کو روکتے ہوئے زخمی ہوئے۔ علاوہ ازیں وزیراعظم تھریسامے نے سکیورٹی کے حوالے سے کوبرا کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کی، جس میں دہشت گردی کے خطرات سے نمٹنے کیلئے حکمت عملی اور سخت اقدامات کا فیصلہ کیا گیا۔ وزیراعظم تھریسامے نے گزشتہ روز پھر سے انتخابی مہم کا آغاز کر دیا۔ ڈائوننگ سٹریٹ آفس کے باہر کے باہر انہوں نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انتخابات سر پر ہیں اور تشدد کے ذریعے جمہوری عمل میں رکاوٹ ڈالنے کی اجازت ہرگز نہیں دی جائے گی۔ لندن مین دہشتگردی کے حالیہ حملے کے بعد برطانیہ کو دہشتگردی کو جڑ سے اکھاڑنے کے سخت اقدامات کرنے ہوں گے۔ واضح رہے کہ برطانیہ میں عام انتخابات 8 جون کو منعقد ہوں گے۔ دوسری طرف لندن میں ہلاک ہونیوالوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کا سلسلہ جاری ہے اور شہری پھول رکھ کر خراج عقیدت کا اظہار کر رہے ہیں۔ دوسری طرف کنزرویٹو پارٹی کی سابق چیئرپرسن اور برطانوی کابینہ کی پہلی سابق مسلمان خاتون وزیر سعیدہ وارثی کا کہنا ہے کہ کسی شخص کے بنیاد پرست بننے کی مختلف وجوہات میں سے ایک وجہ خارجہ پالیسی کے خلاف ردعمل بھی ہے۔ برطانوی مسلمان اندر کے دشمن نہیں بلکہ اس ملک کا حصہ ہیں۔بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ چاہے وہ لیبر کی حکومت تھی یا پھر ہماری اپنی پارٹی کی موجودہ حکومت ان کی مسلمانوں کے بارے میں جو پالیسیاں ہیں ان میں وہ مسلمانوں کے ساتھ انگیج نہیں کر رہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہم مسلمانوں کو سمجھنا چاہتے ہیں اور انہیں باور کروانا چاہتے ہیں کہ وہ اس ملک کا حصہ ہیں تو حکومت کو صحیح طریقے سے مسلمانوں کے ساتھ رابطہ کرنا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ کب تک مسلمانوں کو وفاداری کے ٹیسٹ دینا پڑیں گے۔

ای پیپر دی نیشن