کراچی (وقائع نگار + نوائے وقت رپورٹ + سٹاف رپورٹر) سندھ کا مالی سال 2017,18 ء کا 10کھرب 43 ارب روپے سے زائد کا بجٹ پیش کر دیا گیا ہے، وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے پیر کو سندھ اسمبلی میں بجٹ پیش کیا۔ بجٹ پیش کرتے وقت اپنی تقریر میں مراد علی شاہ نے کہا کہ وفاقی حکومت سندھ کے ساتھ زیادتی کررہی ہے اور بجلی کے نام پر تماشا ہورہا ہے۔ ملک میں 70 فیصد گیس سندھ سے پیدا ہوتی ہے لیکن وفاق کی جانب سے اسی صوبے کے ساتھ زیادتی کی جارہی ہے اور بجلی پر صوبے کے ساتھ تماشا ہورہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تمام ادائیگی کے باوجود بھی سندھ کو بجلی فراہم نہیں کی جارہی وفاقی حکومت سندھ کو اس کا جائز حصہ دے۔ صوبے میں بجلی نہ ہونے سے عذاب آیا ہوا ہے، سندھ کے ساتھ زیادتی کی گئی، وفاقی حکومت اپنے وعدے پورے نہیں کررہی، ہم تو دعا ہی کرسکتے ہیں، ملک اور صوبے میں بجلی نہ ہونے سے عذاب آیا ہوا ہے اور دوسری جانب کے الیکٹرک نے بھی شہر قائد میں تباہی مچا رکھی ہے، غریب عوام جنریٹر خریدنے کی سکت نہیں رکھتے۔ وفاقی حکومت صوبے کے 108 ارب روپے فراہم کردے۔ بجٹ میںسرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں 15 فیصد اضافے کا اعلان کیا گیا ہے جبکہ بجٹ میں 49 ہزار سے زائد خالی آسامیاں پر کرنے کا بھی اعلان کیا۔2017 اور 2018 میں نئی آسامیوں کے مقصد کیلئے بجٹ میں 20 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، ایک سو بیس گز کے مکانوں پر پراپرٹی ٹیکس اور سینماؤں پر انٹرٹینمنٹ ٹیکس بھی لگایا گیا ہے۔ صوبے میں امن و امان کے لیے 92 ارب 91 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں۔ بجٹ میں کراچی کے لیے 10ارب روپے کے خصوصی پیکج کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے اپنی بجٹ میں تقریر میں کہا کہ وفاقی حکومت سندھ کے خزانہ کا بڑا حصہ مہیا کرتی ہے جو کہ مجموعی طور75فیصد ہے۔یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ ہمیں ہر سال تخمینہ سے کم حصہ فراہم کیا گیا ہے۔ وفاقی حکومت کی جانب سے اب تک نویں این ایف سی ایوارڈ کا اعلان کرنے میں ناکامی اتنی اعلی سطح پر خراب کار کردگی کا ایک ثبوت ہے۔انہوںنے مالی سال 2016-17کا نظر ثانی شدہ تخمینہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ 2016-17کی نظر ثانی شدہ کی گئی میزانیہ رقم 854.5بلین پاکستانی روپے کے مقابل سال 2016-17کے لئے صوبے کی کل وصولیاں 873.9بلین روپے ہیں۔وفاقی منتقلیوں کی وجہ سے قلت کا سامنا ہے ۔ اس مالی سال کے 10مہینوں میں 456بلین کی میزانیاتی وصولیوں کے مقابل ہمیں صرف 382بلین وصول ہوئے۔اس اعداد و شمار کے مطابق اس سال کے آخر تک ہم 95بلین کے شارٹ فال کا سامنا کریں گے۔ سال 2017-18 کا بجٹ تخمینہ پیش کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ نے بتایا کہ مالی سال 2017-18 میں صوبہ کی مجموعی وصولی کا تخمینہ 1.02کھرب روپے ہے۔ جبکہ اخراجات کا تخمینہ 1.04کھرب روپے ہے۔ ہم نے تقرریاں ضرور ت کی بنیاد پر اہلیت کو مدنظر رکھتے ہوئے آسامیاں پر کیں۔ وزیراعلیٰ سندھ نے اعلان کیا کہ اگلے مالی سال کے لیے 49ہزار نئی آسامیاں تخلیق کی گئی ہیں۔ 25ہزار سے زائد لیڈی ہیلتھ ورکرز ملازمین کو سندھ کی سروس میں شامل کیا جائے گا ۔اس کے علاوہ دس ہزار اہلکاروں کوسندھ پولیس میں بھرتی کیا جائے گا۔ شعبہ تعلیم کا ذکر کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ عوامی حکومت نے مالی سال 2017-18میں وسائل کا سب سے زیادہ حصہ تعلیم کے شعبے کے لئے مختص کیا ہے ۔رواں مالی سال کے مقابلے میں تعلیم کی بجٹ میں4 2فیصد زیادہ اضافہ کیا گیاہے ۔ اگلے مالی سال کے لئے تعلیم کے شعبے کے بجٹ 163.12بلین روپے سے بڑھاکر 202.2بلین روپے کردیا جائے گا۔ وزیراعلی سندھ نے کہا کہ اگلے مالی سال کے لئے ہم نے لائق اور قابل طلبا کے لئے مالی معاونت کا نظام متعارف کروایا ہے،جس میں میٹرک اور انٹر کی سطح پر A-1گریڈ حاصل کرنے والے طالب علموں کو ایک لاکھ روپے دیئے جائیں گے۔ اس ضمن میں 750ملین روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا کہ شعبہ صحت کے لیے اگلے مالی سال میں 100.32بلین روپے مختص کئے گئے ہیں ۔رواں مالی سال کی مختص کردہ رقم 79.88بلین روپے تھی۔ صحت کے شعبہ میں آئندہ مالی سال کے لئے 26فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ سید مراد علی شاہ نے کہا کہ وسائل کی تقسیم کے حساب سے محکمہ داخلہ بشمول پولیس، جیل خانہ جات ، رینجرز اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کا حصہ موجودہ بجٹ میں دوسرے نمبر پر ہے۔ سندھ حکومت سکیورٹی اہلکاروں کی قربانیوں اور ان کی بہادری اور ان کی بے غرضی کو تسلیم کرتی ہے۔ حکومت سندھ نے شہیدوں اور زخمیوں کے خاندانوں میں معاوضہ کے طور پر 1000ملین روپے تقسیم کئے ہیں۔ وزیر اعلیٰ کی تقریر کے دوران اپوزیشن نے شور شرابا کیا۔ پی ٹی آئی کے رکن سندھ اسمبلی خرم زمان نے صوبائی بجٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ سندھ کا برا حال ہے۔ سندھ کا بجٹ 2 نمبر بجٹ ہے۔ صحت کے شعبے میں بھی سندھ کو کچھ نہیںدیا گیا۔ مسلم لیگ ن کی رکن سندھ اسمبلی سواٹھ تھیبو نے کہا ہے کہ بجٹ کو مسترد کرتے ہیں۔ تھر کی عوام بھوک سے مر رہی ہے۔ پیپلز پارٹی عوام کو استعمال کر رہی ہے۔ اپوزیشن لیڈر سندھ اسمبلی خواجہ اظہار الحسن نے کہا کہ وزیراعلیٰ سندھ نے بجٹ پیش نہیں کیا صرف خبریں پڑھی ہیں۔ شہری اور دیہی سندھ کی تفریق ختم کرنے کیلئے کچھ نہیں کیا گیا۔ صوبائی حکومت کی طرف سے پیش کردہ بجٹ کو مسترد کرتے ہیں۔ بجٹ فوری طور پر سمجھ نہیں آسکتا کہ اسکی حمایت یا مخالفت کریں۔ اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کو بھی بجٹ سنکر سمجھ کر ردعمل دینا چاہئے۔ بائیکاٹ سے حکومت کو راستہ مل جاتا ہے۔ بجٹ پچھلے سال کا کاپی پیسٹ بجٹ ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ سے کہتا ہوں آپ لینے کی بات کرتے ہیں دینے کی نہیں۔ ہم دیکھیں گے کہ یہ کیسے اسمبلی سے بجٹ پاس کرتے ہیں۔ بجٹ پاس کرنے کی کوشش ہوئی تو ان کا راستہ روکیں گے۔