دشمنی پر اترا افغانستان ’’ایسے کو تیسے‘‘ والی پالیسی کا ہی مستحق ہے

Jun 06, 2017

اداریہ

کابل حملے پر افغانستان کی پاکستان پر بلاجواز دشنام طرازی اور ڈاکٹر ملیحہ لودھی اور سرتاج عزیز کا مسکت جواب
اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے کابل حملوں کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ سکیورٹی کی صورتحال میں تیزی سے رونما ہونیوالا بگاڑ صرف افغانستان کیلئے ہی نہیں بلکہ پاکستان کیلئے بھی باعث تشویش ہے۔ گزشتہ روز واشنگٹن میں امریکی میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے واقعات میں اضافے سے یہ نشاندہی ہوتی ہے کہ علاقے میں داعش کے اثرورسوخ میں اضافہ ہورہا ہے جس کے بارے میں ہم کافی عرصے سے فکرمند تھے۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گرد گروپ کی جانب سے کابل کے گرین زون میں ایک بڑا حملہ یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ اس گروپ کے اندرونی حلقوں میں رابطے موجود ہیں جو بذات خود ایک تشویش کی بات ہے۔ انہوں نے خیال ظاہر کیا کہ ان حملوں کے پیچھے ان عناصر کا ہاتھ ہے جو امن اور مفاہمت کی ازسرنو کی جانیوالی کوششوں کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے افغان حکومت کے طرز عمل پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ افغان حکومت کو پاکستان پر الزام دھرنے کے بجائے دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے خطرے کا مقابلہ کرنے پر اپنی توجہ مرکوز کرنی چاہیے‘ ہم اس سلسلہ میں مدد دینے کو تیار ہیں تاہم اس کیلئے افغانستان کو اپنے اندرونی مسائل باہر سے منسوب کرنے کا رویہ ترک کرنا ہوگا۔ انہوں نے باور کرایا کہ دہشت گردی اور انتہاء پسندی ایک مشترکہ دشمن ہے اور اس سے نجات کیلئے اس کیخلاف مل کر لڑنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا‘ ان حملوں کیلئے وقت کا انتخاب یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ ان لوگوں کا کام ہے جو امن بات چیت کی نئی کوششوں کا آغاز نہیں ہونے دینا چاہتے۔
گزشتہ ہفتے کابل کے گرین زون میں ہونیوالا کار بم دھماکہ جس میں ایک سو سے زیادہ افراد جاں بحق اور پاکستان اور دوسرے ممالک کے سفارت کاروں سمیت ڈیڑھ سو کے قریب افراد زخمی ہوئے‘ افغان سکیورٹی ایجنسیوں کے لیپس اور افغانستان میں جاری بدامنی کا کھلا ثبوت ہے جس پر کابل انتظامیہ کو سب سے پہلے اپنی بدانتظامی پر تشویش ہونی چاہیے اور اپنی سرزمین پر موجود دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں کے سدباب کیلئے پاکستان سے معاونت سمیت جو بھی ممکن ہو سکتا ہے‘ اسے اقدامات اٹھانے چاہئیں۔ اس وقت دہشت گردی کی لہر صرف ہمارے خطہ ہی نہیں‘ مغرب اور یورپ میں بھی پھیل چکی ہے جیسا کہ گزشتہ روز بھی لندن دہشت گردوں کی بھینٹ چڑھا ہے جبکہ دنیا کے مختلف ممالک میں ہونیوالی دہشت گردی کی بیشتر وارداتوں کی دہشت گرد تنظیم داعش ذمہ داری قبول کرچکی ہے۔ ان میں گزشتہ ہفتے کا کابل کار بم دھماکہ بھی شامل ہے اس لئے کابل انتظامیہ کو بغیر سوچے سمجھے ہر دہشت گردی کا الزام پاکستان پر دھرنے کے بجائے حقائق کا ادراک کرتے ہوئے افغانستان میں دہشت گردوں کو افزائش کا موقع فراہم کرنیوالی اپنی کمزوریوں کوبھی تسلیم کرنا چاہیے اور دہشت گردوں کو نکیل ڈالنے کیلئے پاکستان کے اپریشن ضرب عضب اور اپریشن ردالفساد جیسے عملی اقدامات اٹھانے چاہئیں۔
پاکستان کی جانب سے تو یہ ٹھوس شواہد بھی کابل انتظامیہ کو پیش کئے جاچکے ہیں کہ داعش اور دوسری دہشت گرد تنظیموں نے افغانستان میں اپنے محفوظ ٹھکانے بنا رکھے ہیں جہاں سے دہشت گردوں کو دہشت گردی اور خودکش حملوں کی مذموم کارروائیوں کیلئے پاکستان بھی بھجوایا جاتا ہے۔ انہی شواہد کی بنیاد پر پاکستان نے لاہور خودکش دھماکے اور سیہون شریف دہشت گردی کے بعد اپریشن ردالفساد کا آغاز کرتے ہوئے افغانستان کے اندر بھی کارروائی کی اور وہاں دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں پر بمباری کرکے نمایاں کامیابی حاصل کی۔ اسکے بعد تو افغان حکومت کو حقائق تسلیم کرتے ہوئے پاکستان کی معاونت حاصل کرکے دہشت گردی کے خاتمہ کی مربوط حکمت عملی طے کرنا چاہیے تھی مگر کابل انتظامیہ نے پاکستان کے ساتھ سرحدی کشیدگی بڑھانا اور بھارتی لب و لہجہ میں اسے موردِالزام ٹھہرانا شروع کر دیا جبکہ یہ حقائق بھی اب کھل کر سامنے آچکے ہیں کہ پاکستان کے اندر بھارتی ’’را‘‘ کی دہشت گردی اور اسکے نیٹ ورک میں افغان ایجنسی ’’این ڈی ایس‘‘ بھی برابر کی شریک ہے جس کے پاکستان میں چھوڑے گئے متعدد جاسوس بھارتی دہشت گرد جاسوس کلبھوشن کی نشاندہی پر گرفتار بھی ہوچکے ہیں۔ اگر ان حقائق کے باوجود کابل انتظامیہ کی جانب سے افغانستان میں ہونیوالی ہر دہشت گردی کا بلاتحقیق اور فوری طور پر پاکستان پر الزام دھر دیا جاتا ہے جیسا کہ کابل کار دھماکے کے رونما ہوتے ہی کابل انتظامیہ نے اس کا ملبہ پاکستان پر ڈال دیا ہے تو اس سے پاکستان کیخلاف افغان بغض کی ہی عکاسی ہوتی ہے جبکہ یہ درحقیقت پاکستان کی سلامتی کیخلاف دہلی اور کابل کی ملی بھگت ہے۔
مشیر امور خارجہ سرتاج عزیز نے بھی گزشتہ روز اسی تناظر میں کابل دہشت گردی میں پاکستان کے ملوث ہونے کے تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے باور کرایا ہے کہ جو عناصر پاکستان اور افغانستان کے تعلقات خراب کرنے کا ایجنڈا رکھتے ہیں انہوں نے ہی کابل دہشت گردی کے چند منٹ بعد ہی پاکستان پر الزامات لگائے ہیں‘ انہوں نے کابل انتظامیہ کو دوٹوک الفاظ میں پیغام دیا کہ افغانستان کو پاکستان کیخلاف نفرت انگیز مہم بند کردینی چاہیے۔ کابل انتظامیہ تو درحقیقت بھارتی کٹھ پتلی کا کردار ادا کرتے ہوئے پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کی سازشں میں شریک ہے جس پر اسلام آباد کو بجا طور پر تشویش ہے اور پاکستان اس حوالے سے نہ صرف کابل انتظامیہ سے باضابطہ احتجاج کرچکا ہے بلکہ اقوام متحدہ سمیت انسانی حقوق کے تمام عالمی اداروں کو بھی بھارت افغان گٹھ جوڑ کے مضمرات سے آگاہ کرچکا ہے۔
اگر افغانستان ڈیورنڈ لائن کو بھی خاطر میں نہیں لارہا اور پاک افغان سرحد سے پاکستان کے اندر مداخلت اور اشتعال انگیز کارروائیاں اس نے اپنا معمول بنا رکھی ہیں تو یہ پاکستان کیخلاف اس کا خبث باطن ہی ہے جو اسے چین سے نہیں بیٹھنے دے رہا۔ گزشتہ ماہ افغان فورسز نے جارحیت کی انتہاء کرتے ہوئے چمن سرحد پر پاکستان کے علاقوں کلی لقمان اور کلی جہانگیر میں مردم شماری کی ٹیم اور اسکی حفاظت پر مامور پاکستان کی سکیورٹی فورسز پر فائرنگ کی جس کے باعث پاکستان کے ایک درجن سے زائد شہری شہید ہوئے جبکہ دو ہفتے قبل افغان ایجنسی این ڈی ایس نے کابل میں پاکستانی سفارتخانہ کے دو ارکان کو سفارتخانہ کی گاڑی سمیت اغواء کرکے انہیں تین گھنٹے تک زیرحراست رکھا اور ان سے پاکستان مخالف بیان لینے کی کوشش کی۔ اس واقعہ پر پاکستان کی جانب سے افغان دفتر خارجہ سے سخت احتجاج کیا گیا تو اسکے تین گھنٹے بعد زیرحراست رکھے گئے پاکستانی سفارتکاروں کو چھوڑا گیا۔ افغان ایجنسی کی ایسی حرکات کی وجہ سے پاکستان کے سفارتکار اور دوسرا عملہ اپنی رہائش گاہیں چھوڑ کر اپنے سفارتخانے میں منتقل ہونے پر مجبور ہوچکا ہے جبکہ کابل انتظامیہ کی جانب سے پاکستان کو اقوام عالم میں بدنام کرنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی جارہی جو بھارت ہی کی طرح پاکستان کے ساتھ دشمنی بڑھانے کی سوچی سمجھی منصوبہ بندی ہے اور اس میں لامحالہ افغانستان کو بھارت کی سرپرستی حاصل ہے۔
پاکستان کی جانب سے ماہ صیام کا احترام کرتے ہوئے گزشتہ ہفتے باب دوستی کھول دیا گیا جو افغان فورسز کی جانب سے سرحدی خلاف ورزی کے تسلسل سے ہونیوالے واقعات کے باعث بند کیا گیا تھا مگر کابل انتظامیہ نے پاکستان کے حوالے سے اپنا خبث باطن ابھی تک ترک نہیں کیا اور کابل کار بم دھماکہ کا ملبہ پاکستان پر ڈال کر وہ درحقیقت پاکستان کیخلاف بھارتی الزامات کو تقویت پہنچانا چاہتا ہے۔ اس صورتحال میں اب ہمارے دفتر خارجہ کو افغانستان سے محض رسمی احتجاج اور اپنی طرف سے وضاحتیں پیش کرنے پر ہی قناعت نہیں کرنی چاہیے بلکہ پاک افغان سرحد پر سکیورٹی کے مؤثر انتظامات کے ساتھ ساتھ افغانستان کی ہر جارحیت کا اسے فوری اور دوٹوک جواب دینا بھی ضروری ہے۔ اگر کابل انتظامیہ اپنی سرزمین پر دہشت گردوں کے تدارک کیلئے پاکستان کے ساتھ مل کر کوئی مشترکہ حکمت عملی طے کرتی ہے تو اس سے بہتر اور کوئی بات نہیں ہو سکتی تاہم اگر کابل انتظامیہ پاکستان کے ساتھ خدا واسطے کا بیر نبھائے رکھنا چاہتی ہے تو پھر اس کیلئے ’’ایسے کو تیسا‘‘ والا جواب ہی ہونا چاہیے۔ ہم نے اپنی سرحدیں محفوظ بنا کر ہی پاکستان کی بقاء و سالمیت کے تقاضے نبھانے ہیں۔ اگر کابل انتظامیہ بھارت ہی کی طرح ہماری سالمیت کے درپے ہے جس کیلئے بہانے تلاش کئے جارہے ہیں تو اسے ہماری جانب سے ہر محاذ پر ایسا ٹھوس جواب ملنا چاہیے کہ اسے آئندہ ہماری جانب میلی آنکھ سے دیکھنے کی بھی جرأت نہ ہو۔

مزیدخبریں