اب کالاباغ ڈیم پربھی اتفاق ہوجانا چاہئیے

Jun 06, 2018

یہ امرقوم کے لئے باعث اطمینان ہے کہ حکومت نے آئینی مدت کی تکمیل سے چند روز قبل جبکہ خیبر پختونخواہ اسمبلی میں ایک روز قبل فاٹا کو قومی دھارے میں لانے کا بل پاس کرکے قومی یکجہتی کی اعلیٰ مثال قائم کی ہے۔ اسی طرح آبی بحران ملک کا اہم ترین ایشو رہا ہے اور 70 سالہ ملکی تاریخ میں ڈیمز کی تعمیر صوبوں کے مابین متنازعہ ایشو رہا ہے۔ اس سلسلہ میں کالا باغ ڈیم کا تذکرہ سرفہرست ہے۔ملکی سیاست میں کالا باغ ڈیم اس قدر اہمیت کا حامل ہے کہ جب بھی سیاست میں بھونچال لانا ہوتاہے توکسی بھی سیاسی جماعت کی جانب سے اس طرح کالا باغ ڈیم کا ایشو منظرعام پر لایا جاتاہے‘ جس طرح ایک ٹھہرے ہوئے تالاب میں پتھرپھینکنا ہو۔
کالا باغ ڈیم قومی اہم اور اولین ترجیح کے حامل منصوبوں میں سے ایک ہے۔ کالاباغ ڈیم کی افادیت اور اہمیت کے علاوہ تفصیل میں جانے سے قبل یہ کہنا ضروری ہوگا جیسا کہ حال ہی میں آئینی مدت پوری کرنے والی حکومت نے فاٹا کوقومی دھارے میں لانے کا بھر پورکریڈٹ حاصل کیا ہے۔قومی و کے پی کے اسمبلی میں بھاری اکثریت سے فاٹا کا قومی دھارے میںانضمام کابل منظورکیا ہے۔ اسی طرح کالاباغ ڈیم پر تاریخی ملکی و قومی مفادمیں اتفاق ہوجانا چاہئیے۔ کالاباغ ڈیم کی تعمیر جہاں موجودہ اور مستقبل کے ملکی حالات اور قومی مفادات کا تقاضاہے وہیں توانائی اور آبی بحران کا ضروری حل ہے لیکن سیاسی مفادات کی حامل جماعتیں کابالاغ ڈیم کی تعمیر کے خلاف احتجاجی مظاہرے اورمخالفت کرتی آرہی ہیں۔
کالاباغ ڈیم کی قومی سطح پرافادیت کامختصر جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگاکہ توانائی بحران اور آبی مسائل کا بہترین حل ڈیم کی تعمیر ہے۔ کالا باغ ڈیم کی تعمیر سے 3600 میگا واٹ بجلی کی پیداوار ہوگی اور بجلی کی فی یونٹ لاگت 2.50 روپے ہوگی اور یوں 180 ارب روپے کی سالانہ بجت ہوگی۔ کالاباغ ڈیم کی تعمیر سے 6.10 ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہوگی اور سندھ کو 40 لاکھ ایکڑ فٹ اضافی پانی ملے گا اسی طرح پنجاب کو 22 لاکھ ایکڑ فٹ‘ خیبر پختونخواہ کو20 لاکھ ایکڑ فٹ اور بلوچستان کو15 لاکھ ایکڑ فٹ اضافی پانی میسر ہوگا۔
آج سے تین سال قبل ٹھٹھہ‘ سجاول‘چوہڑ شاہ جمالی اور شاہ عقیق کے علاقہ جانے کا اتفاق ہوا‘ حیدرآبادسے ٹھٹھہ اورشاہ عقیق تک وافر چاول کی کاشت دیکھ کر حیرت ہوئی کہ ایک جانب پورا سال قلت آب کا رونا اوردوسری جانب چاول کی کاشت کیوں؟ اس فصل کو پانی کی وافر مقداردرکار ہوتی ہے لیکن پورے علاقہ میں پانی ہی پانی نظر آیا جو کہ ضائع ہورہا تھا۔ چنانچہ وہاںپر موجود رہائشیوں سے استفسار کرنے پر بتایاگیا کہ سندھ میں چھ ماہ اسی طرح وافر مقدار میں پانی ہوتا ہے جو کہ سمندربرد ہوجاتاہے۔ تاہم چھ ماہ کے عرصہ یہاں قلت آب کا سامنا ہوتاہے‘ اسی طرح تھر میںسالانہ درجنوں افراد سیکڑوں جانور قحط اورآبی بحران کے باعث ہلاک ہوجاتے ہیں لیکن آج تک اس کا مستقل حل نہیں نکالا جاسکا۔
کالاباغ ڈیم کے خلاف بھارت کی جانب سے مزاحمت کا سامنارہاہے‘ جس کے لئے بعض قوم پرست جماعتوں کوبھاری بھرکم فنڈنگ کی جاتی ہے اوریہ سیاسی قوم پرست جماعتیں کالا باغ ڈیم تحریکیں چلاتی آئی ہیں ۔
بہرحال موجودہ حالات انتہائی سازگار ہیں‘ تمام سیاسی جماعتیں جیسا کہ فاٹا کے حوالے متحد ومتفق ہیں‘ ضروری ہوگا کہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر میں فوری طورپرلائحہ عمل تشکیل دیا جائے اوراس منصوبہ کومکمل کیا جاناچاہئے۔

مزیدخبریں