ایک مرد دوریش تھا جسٹس ایم آر کیانی ، افکار پریشاں کے نام سے اس کی تقاریر محفوظ ہیں ایک بار کہنے لگے جمہوریت لاقانونیت کے منافی ہے۔ اس پر بھی سب متفق ہیں کہ جمہوریت دنیا کی روحانی غذا ہے ۔ اگر کسی ضرورت کے تحت صاحبان اقتدار ایک عرصے کے لئے جمہوری نظام کو معطل کردیں تو آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ تعطل کے دن تعطیلات کے دنوں کی طرح خوش گوار ہوتے ہیں۔
2018کے قومی انتخابات 25جولائی کو طے پا گئے ہیں۔ وطن عزیز کی سب سے بڑی جمہوری پارٹی ”مسلم لیگ ن “ کے قائد میاں نواز شریف نے صاف کہہ دیا ہے کہ انتخابات ایک لمحے کےلئے بھی تعطل کا شکار نہیں ہو سکتے ۔محترم آصف علی زرداری اور ان کی پارٹی بھی مقررہ وقت پر انتخابات چاہتے ہیں۔ 100دن کا ”پروگرام اقتدار“ انتخابات سے پہلے ہی دینے والے نیازی صاحب بھی کس طرح انتخابات کے تعطل کے حامی ہو سکتے ہیں وہ تو پہلے ہی اقتدار کے لئے دن گن گن کر گزار رہے ہیں پھر وہ کون ہے جو ملک میں انتخابات کے تعطل کی بات کر رہے ہیں آیا وہ تعطل کے بعد تعطیلات جیسا مزہ حاصل کر سکیں گے؟الحمد اللہ دس سال جمہوریت ایک تسلسل کے ساتھ جاری رہی۔ اس دوران کئی بحران آئے لیکن جمہوریت کی ریل پیٹری پر چلتی رہی۔31جولائی کو آئین کے مطابق جمہوریت نے پرامن طریقہ انتقال اقتدار کا مرحلہ طے کیا۔ نگران حکومتیں قائم ہوئیں پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں بھی انشاءاللہ آئین کے مطابق یہ مرحلہ طے ہو جائے گا۔ اب تو چیف جسٹس نے بھی بروقت انتخابات کا اعلان کر دیا ہے۔ افواج پاکستان جمہوریت کا تسلسل چاہتی ہے پھر یہ افواہیں کیوں ؟
تاریخ شاہد ہے کہ جمہوری نظام یمں عوام ایک خاص وقت کے لئے اپنے نمائندوں کو منتخب کرتے ہیں جن کو مکمل طور پر نظام حکومت دلانے کا اختیار ہوتا ہے۔ پارلیمنٹ اور عدلیہ انتظامیہ پر کنٹرول کرتیں ہیں۔ میڈیا کا کردار بھی بڑا اہم ہے۔ میڈیا رائے عامہ کو اطلاعات پہنچاتا ہے۔ جمہوری نظام میں جو جماعتیں عوام کی ترقی خوشحالی کے لئے کچھ کرتیں ہیں عوام انہیں دوبارہ منتخب کرتے ہیں جیسا کہ مسلم لیگ ن کئی بار منتخب ہو کر آئی جبکہ جو جماعت عوامی توقعات پر پورا نہیں اترتیں ان کو عوام مسترد کر دیتے ہیں اور یہی احتساب کا فطری طریقہ ہے ۔ اس سے ووٹ اور ووٹر کو عزت ملتی ہے۔ اسے احساس ہوتا ہے کہ اس کے ووٹ کی پرچی حکومتیں تبدیل کر سکتیں ہیں تاریخ اس بات کی بھی شاہد ہے کہ ووٹ اور ووٹر کی رائے کے بجائے اگر کسی دوسرے غیر فطری طریقے سے تعطل پیدا کرنے کی کوشش کی جائے تو تعطل پیدا کرنے والے ایک دن خود لمبی تعطیلات پر چلے جاتے ہیں عوامی نمائندوں کا احتساب کسی دوسرے طریقے سے کیا جائے تو مقبولیت کم ہونے کے بجائے بڑھتی ہے اور معاشرے میں نئے تضادات جنم لیتے ہیں جو نہ صرف معاشرے بلکہ ملک کے لئے نقصان کا باعث ہوتے ہیں۔ میاں محمد نواز شریف اور میاں محمد شہباز شریف کے بیانے میں لوگ فرق تلاش کر رہے ہیں اس پر ایسے ایسے فلسفے اور دانش وری بگھارتے ہیں جن کو سن کر عقل پریشان ہو جاتی ہے سمجھ نہیں آتی کہ بات کیا تھی اور کیا بن گئی۔ بات تو سیدھی اور صاف ہے۔
پاکستان میں جمہوریت کی زندگی ہی کیا ہے؟ یہ ہمارا ابھی سیکھنے کا دور ہے 80 اور 90کی دہائی میں جمہوریت کچھ اور تھی 2008کے بعد جمہوریت کا رنگ ڈھنگ بھی اور ہے۔ ہم نے کوشش کی جس میں ابھی تک کامیاب ہیں کہ ہر حال میں جمہوریت کا تسلسل برقرار رکھنا ہے۔ یہ سب سے بنیادی بات ہے اس کو ہم نے سیکھا اور مضبوطی کے ساتھ عمل پیرا ہوئے ۔ جمہوریت کا مسلسل تسلسل معاشرے میں تبدیلی کا سبب بنا۔ آزاد میڈیا کی وجہ سے ہم نے سچ جمہوریت کی طرف تیزی سے سفر کیا ۔ محمد نواز شریف نے جمہوریت کے بیانیے کو واضح کیا جبکہ محمد شہباز شریف اس بیانیے کو اعتدال کے ساتھ بغیر کسی ٹکراﺅ کے آگے لے کر جا رہے ہیں دلوں سمجھ لیں نواز شریف آگے بڑھ کر جمہوریت کی شاہراہ کی صفائی کی کوشش کر رہے ہیں ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے محمد شہباز شریف جمہوریت کی گاڑی کو احتیاط کے ساتھ آگے بڑھا رہے ہیں۔ خواجہ سعد رفیق جو میرے پرانے سیاسی رفیق ہیں انہوں نے بڑے پتے کی بات کی کہ ہم میں سے کوئی غدار نہیں ۔ اپنے اپنے نظریات ہیں عوام کا رکردگی کی بنا پر انہیں منتخب کریں گے۔
پنجاب کی دس سالہ کارکردگی ڈھکی چھپی نہیں محمد نواز شریف کی قیادت اور محمد شہباز شریف کی مسلسل ورکنگ نے مسلم لیگ ن کو ووٹر کے سامنے سر خرو کیا ہے۔ انتخابات میں اس اہلیت اور کارکردگی کو ووٹ ملیں گے۔ 60دن کی بات ہے افواہیں خود بخود ختم ہو جائںی گی۔ تعطیل پیدا کرنے والے عوام کے سامنے بے نقاب ہو جائے گے اور 25 جولائی کے بعد ایک منتخب حکومت اقتدار سنبھالے گی۔ یہی جمہوریت کا اصل حسن ہے اس قوت ووٹ کی پرچی ہے اور تعطل پیدا کرنے والا خواہ وہ کوئی بھی ہو 25جولائی کے بعد طویل بلکہ ابدی تعطیلات پر چلا چلا جائے گا۔