انتخابات کے بعد عدالتیں بہت مصروف ہوجائینگی

سمارٹ فونز نے سوشل میڈیا کو اعلیٰ پیمانے پر متعارف کرا دیا ہے، ہر نسل، ہر عمر ، ہر سوچ رکھنے والے کے ہاتھ میںاسمارٹ فون ہوتا ہے اور وہ اپنے آپ کو میڈیا کا مدیر اعلیٰ تصور کرتا ہے، سائنسدانوں، تکنیک کاروںنے کوئی چیز بھی ایسی ایجاد نہیں کی جو انسان کے مثبت کاموں ، معلومات کیلئے نہ ہو، مگر شاباش! ہمارے وہ ذہن جو تکنیک کاروں اور سائنس دانوں سے بھی اعلی ذہن رکھتے ہیں کو ان مثبت کاموںکیلئے ایجاد کی جانے والی چیزوں کس طرح شیطانی کاموں کیلئے استعمال کو عام کردیا ہے ۔اب ان اسمارٹ فونز کے ذریعے استعمال ہونے والا سوشل میڈیا شائد دس سے پندرہ فیصد مثبت معلومات کیلئے بقیہ کسی کی پگڑی اچھالنے غرض شیطانی کاموںکیلئے استعمال ہوتا ہے کم از کم پاکستان میں تو یہ ہی ہو رہا ہے خاص طور اب جب انتخابات سر پر آچکے ہیں تو سوشل میڈیا صحیح یا غلط معلومات فراہم کر رہا ہے ، جو مضحکہ خیز بھی ہوتی ہیں سوشل میڈیا کو استعمال کرنے والے ”باحالت مجبوری“ انسانِ”صرف انسان کے کپڑے ہی اس کے جسم پر چھوڑتے ہیں ورنہ اپنی منفی یا مثبت قابلیت کے حوالے سے ہر کچھ لکھ دیتے ہیں ۔ جب شیخ رشید نے جوڈیشل مارشل لاءکی نوید دی تو فوری پوسٹ آگئی جس میںکہا گیا ” نگران وزیراعظم ناصر ملک، سابق چیف جسٹس، چیف الیکشن کمشنر سردار رضاء، چئیرمین نیب جاوید اقبال چیف جسٹس،چیف جسٹس سپریم کورٹ ثاقب نثار اس طرح تمام اہم جگہوں پر عدالتی نظام کے سابق اور حالیہ افراد موجود ہیں، پہلے لوگ شکوہ کرتے تھے کہ ہر جگہ پاک افواج کے لوگ تعنیات ہوتے ہیں ، اب قانون دان متعین ہوگئے ہیں تو اعتراض نہیںکرنا چاہئے ، پہلے بھی کئی دفعہ لکھا ہے ججز صاحبان کی قانون کی تعلیم تو ایک ہی ہوتی مگر بہ حیثیت انسان بھی اس کی سوچ اس کے فیصلوںپر اثر انداز ہوتی ہے ، ورنہ ہائی کورٹ فیصلے کریں اور سپریم کورٹ ہائی کورٹ کے فیصلوںکو کالعدم کردے تو یہ کوئی ایک قانون تو نہ ہوا ، ماسوائے مختلف approch کے۔ پاکستان کی عدالتوںنے گزشتہ دو تین سالوںسے ملک میں خوب رونق لگا رکھی ہے، اب عدالتیں ڈھائی ماہ کی چھٹی پر جا رہی ہیں اس لئے لگتا ہے انتخابات کے بعد بھی بہت کام ہے اور عدالتوںمیں رونقیں لگی رہینگی ،چونکہ ہماری سابقہ اسمبلیاں جہان حکومتی اراکین اور حزب اختلاف کے اراکین سب ہی ” صادق اور امین “ تھے اسلئے انہوں نے مشترکہ طور پر امیدواروں کے کاغذات سے وہ شقیں غائب کر دی ہیں جس سے جیلوںمیں قید ہر قسم کے قیدیوںکو الیکشن لڑنے کا حق چھین لیا ہو، اس لئے پہلے ووٹ کی عزت ہوگی ( میاں صاحب کا مطالبہ ) اور عوام اپنے صادق اورامین منتخب کریںگے، جن میں بنکوںسے قرض معاف کرانے والے ، بدعنوانی میں سز ا پانے والے ، کسی ملک کا پاسپورٹ رکھ کر سیاست کرنے کیلئے پاکستان آنے والے غرض کس بھی قسم کے جرائم پیشہ افراد انتخاب لڑ کر اسمبلی میں آئینگے عوام کے ٹیکسوں سے مراعات لینگے اور پانچ سالوں میں اپنے خلاف قائم مقدمات بھگت رہے ہونگے جو ان کے صادق اور امین نہ ہونے کے متعلق ہونگے ۔ دراصل ہم نہ جانے کس طرف جارہے ہیں ؟؟ اپنے کان کو گھما گھما کر پکڑ رہے ہیں بجائے اس کے کوئی ایسا پائیدار قانون بنائیںجو ملک کی اساس کے بہتر ہو نہ کہ صرف اپنے مفادات کیلئے، جب سیاسی افراتفری ہوگی، منتخب نمائندے پھر آئندہ پانچ سال بھی عدالت کی سیڑھیاں چڑھ رہے ہونگے اسوقت نوکر شاہی کی پانچوں انگلیاں گھی میں ہوتی ہیں اگر سزا ہوجائے تو پھر سرکڑائی میں ہوتا ہے ۔ سوشل میڈیا کے ذریعے ہی تحریک انصاف کو پتہ چلتا ہے کہ ان کی جماعت میں شامل ہونے والے اداکارہ شبنم کے مجرموں میں سے ایک تھا، تحریک انصاف نے فوری نکال دیا اچھا کیا مگر اس سستی شہرت دوسرے ذریعے سے حاصل کرنا چاہی کہ ” ادکارہ شبنم نے عمران خان کا شکریہ ادا کیا “ جبکہ یہ جھوٹ تھا سیاست دانوں کے باقی جھوٹ کی طرح ، شبنم کے صاحبزادے اس جھوٹ کا پردہ چاک کردیا ۔ تحریک انصاف جو سر سے لیکر پاﺅںتک صرف اور صرف اقتدار کی خواہش میں دن گزار رہی ہے دھرنوں سے نامعلوم ذرائع سے تیس کروڑ روپے بھی خرچ کربیٹھی، مزید کروڑوں بھی خرچ کئے مگر انتخابات کے قریب کچھ افراتفری کا شکار نظر آرہی ہے،آپس میں رابطوںکا فقدان اور اپنے آپ کو بڑا لیڈر کہلانے کا شوق ، جہانگیر ترین، بمقابلہ شاہ محمود قریشی اور چوہدری فواد ( جن کے پاس ” ٹکا “ کے جھوٹ بولنے کا سرٹیفکٹ ہے ، یہ سرٹیفکٹ تمام سیاسی جماعتیں اپنے ترجمان کو دیتی ہیں ) بمقابلہ میاں محمود الرشید اور اسطرح کے کتنے ہی تضادات پیدا ہوگئے ہیں ، نئے پاکستان کے لئے عمران خان نے جو ڈرائی کلین فیکٹری کھولی ہے یہ نئے آنے والے اپنی امیدوں میں اپنا بستر ساتھ لیکر گھومتے ہیں اور ووٹ تو عوام دیتے ہیں آنے اور جانے والی شخصیات نہ جانے اپنے سیاہ و سفید کارناموں کی وجہ سے عوام کے ووٹو ں کی حقدار بھی ہونگی یا نہیں ۔ پاکستان کی ہر سیاسی جماعت انتخابات کے قریب آنے والوںکیلئے ہاتھ پھیلائے کھڑی رہتی ہے ان کی آمد کسی جماعت کیلئے پروپیگنڈے کا کام تو کرسکتی ہے مگر ووٹ لانا اس کی ذمہ داری نہیں ۔ کسی بھی جمہوری نظام میں ووٹرز کی دلچسپی آنے والی اسمبلیوں اور حکومت کیلئے مضبوطی کی ضمانت ہوتی ہیں مگر کیا کیا جائے ہمارے ہاں ، بیس کروڑ سے زائد آبادی ملک میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد آبادی سے نصف یعنی دس کروڑ کے لگ بھگ ہے ، لگتا ہے کہ جو ووٹرز نہیں ہیں وہ سیاسی جماعتوں کے جلسوںمیں آتے ہیں اسلئے اصل ووٹرز کو گھر سے نکلنا پڑے گا ، اور امید ہے کہ یہ دس کروڑ ووٹرز وہ نہیں ہونگے جنکا ذکر حبیب جالب نے کیا تھا کہ ” دس کروڑ یہ گدھے جنکا نام ہے عوام “ عوام کی یہ ہی خواہش ہے کہ کوئی حکومت مضبوط ہو ( جسکے فی الحال آثار نہیں لگتے) اور اس ملک کا کاروبار چلے ، چونکہ موجودہ پوری قیادت جو قیادت کرنے کی خواہش رکھتی ہے وہ لگتا ہے کہ پاکستان کو بیرونی دنیا اور سرحدوں پر لاحق خطرناک سے لا علم ہے اور صرف اپنی نا ک سے نیچے دیکھنے کی عادی ہے۔ نیز ہم میں جتنا تحمل اور در گزر کا مادہ ناپید ہوچلا ہے اس میں اللہ سے یہ ہی دعا کی جاسکتی ہے کہ اللہ تعالی انتخابات کو پرا من کرے ۔ ہم ایک غریب ملک ہیں انتخابات میں بھی بھی اربو ں روپے ریاست کے بھی خرچ ہوتے ہیں۔اگر انتخابی فارمز کا سلسلہ پہلے ٹھیک ہوجاتا ہے سابقہ اسمبلی کے اراکین اس میں ڈنڈی نہ مارتے تو آئیندہ پانچ سال عدالتی معاملات سے بھی دور رہتے ۔ ہمارے ہاں ایسا لگتا ہے ” کو تو توڑے جا اور تو ڈھائے جا والا نظام ہے ، پہلے فارم بنے ، ایک عدالت نے کہا یہ غلط ہے دوسری عدالت نے کہا صحیح ہے اور انتخابات کے بعد جب کرپشن اور صادق و امین نہ ہونے کے مقدمات کا سامنا ہوگا تو یہ عدالتیں اسے سنکر سزا سے بھی نواز رہیں ہونگی۔

ای پیپر دی نیشن