جیسے خدائے لم یزل نے انبیائے کرام کو سر زمین عرب (یعنی کے) بنی اسرائیل پر اتارا، اور دین برحق کی تبلیغ کو متعارف کروایا اپنے پیارے محبوب وجہ تخلیق کائنات ؐ کو بھی اسی سرزمین پر نازل فرمایا۔ دین خدا و ند کریم کی تبلیغ اور ترویج کے لیے اور بے بہا اسرار کائنات کی پردہ فشانی کے لیے اپنے رسول سید المرسلین کو بھیجا۔ جیسے ماضی میں انبیاء ماسلف کو خدا نے وصی اور مدد گار عطا فرمائے ۔ ٹھیک اسی طرح آنحضرتؐ نے دعا فرمائی کہ پروردگار عالم مجھے میرا وصی اور مددگار عطا فرما جو تیری طرف سے ہو۔ اور جو سلطان نصیر ہو۔ (مددگاروں کا مددگار)آپ کی مدد اللہ کی ذات نے ایسی سنی کہ سبحان اللہ۔
13 رجب المرجب کے دن خانہ خدا مکہ مکرمہ خانہ کعبہ کے عین وسط میں امیرالمومنین علی ؓ ابن ابی طالب ؓ کا ظہور ہوا۔ امام علیؓ کا نام آپؐ نے بحکم خدا علی رکھا۔ ۔ شجرے کے لحاظ سے آپ ؑ کا تعلق قبیلہ بنی ہاشم سے ہے۔ والد گرامی کا نام حضرت عمران ہے اور کنیت ابو طالبؑ ہے۔ دادا کا نام عبدالمطلبؑ ہے۔ آپ ؑ نبی کریم ؐ کے چچا زاد بھائی ہیں۔ آپ ؑ کا بچپن اور رسول خدا کا بچپن اکٹھے صحن ابوطالبؑ میں گزرا۔ آپ ؑ دنیا میں اللہ کی طرف سے بے پناہ انعامات لے کر آئے۔ دنیا میں آئے چند ایام ہی ہوئے تھے آپ کے کرامات سے پوری کائنات حیران و ششدر رہ گئی ۔ آپؑ کا نام علی کنیت ابولحسنؑ اور لقب حیدر کرار ، حیدر کے لفظی معنی چیرنے پھاڑنے والا اور کرار کے معنی جم کے لڑنے والا۔ آپؑ نے دشمنان اسلام کو چیرا بھی اور ان کے خلاف جم کے لڑے بھی۔ آپ نے ہر موقع پر رسول خداؐ کی مدد فرمائی۔ اعلان نبوت کے موقع پر آپؑ کی عمر آٹھ برس کی تھی کہ جب سرکار کل عالم ؐ نے علان نبوت فرمایا تو عرب کے تمام قبائل اکٹھے تھے اور لوگوں کا جم غفیر تھا تو قبائل نے کہا کہ بے شک آپ صادق اور امین ہیں کیا آپ کی نبوت کا کوئی گواہ بھی ہے۔ علی ؑ اٹھ کھڑے ہوئے اور فرمایا ۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ (کلمات گواہی ادا کئے)
سب سے پہلے گواہی دی جس کو کچھ حضرات یوں بیان کرتے ہیں کہ بچوں میں سے سب سے پہلے اسلام قبول کیا۔ آپ ؑ نے گواہی دی۔ پیغمبر ؐ اسلام کی آپؑ کی پوری حیات طیبہ اتباع رسول میں گزری آپؑ نے ہر کام رسولؐ خداکے حکم پر کیا ۔ اگر تلوار چلائی تو رسول کے حکم سے ۔ اگر روکی تو بھی رسول کے حکم سے علی کے ہر حیات طیبہ کا ہر پہلو بلندی پر مبنی ہے جیسے آپ کے نام کے معنی وہ بلندی ہے جس کے سامنے تمام بلندیا ں پست ہیں۔ دختر پیغمبر اسلام خاتون جنت سیدہ فاطمۃ الزہرہ سے آپ کی شادی ہوئی جن سے آپ کی اولاد دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ پہلے بیٹے حضرت امام حسن علیہ السلام اور دوسرے بیٹے حضرت امام حسین علیہ السلام۔ بیٹیوں میں پاک بی بی سیدہ زینب سلام اللہ علیہ اور پاک بی بی سیدہ ام کلثوم سلام اللہ علیہ۔
جہاں بھی دین کی نصرت کے لیے آپ کو پکارا گیا آپِؑنے نہ صرف خود کو بلکہ اپنی اولاد کوبھی دین خدا وند کریم کے وقف کر دیا اورقربان کر دیا آپ کے متعلق نبی کریم کی بے حد احادیث مبارکہ موجود ہیں۔ اس علیؑ کی شان کیا ہو گی جس کے بارے میں نبی پاک ؐ نے فرمایا ہے (علی مع القرآن قرآن ما علی) علی قرآن کے ساتھ ہے اور قرآن علی کے ساتھ ہے۔ حدیث غدیر خم: اس حدیث کو کثرت سے راویوں نے بیان کیا ہے،18 ذی الحج کو حضورؐ نے آخری حج کے موقع پر مقام غدیر خم پر تمام اصحاب کو جمع کیا اور ایک خطبہ دیا، لوگوں میں تمہارے پاس دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں، کتاب اللہ اور میری عطرت اہل بیت ، ایک تحفہ خدا کی طرف سے دوسرا تحفہ مصطفیؐ کی طرف سے۔ خدا کی طرف سے تحفہ قرآن مجید ہے اور مصطفی کا تحفہ میرے اہل بیت۔ اگر تم ان دونوںکا دامن تھام لو گے تو قیامت تک کبھی گمراہ نہ ہو گے۔ قرآن اور میرے اہل بیت کبھی ایک دوسرے سے جدا نہ ہوںگے۔ حتی کہ قیامت والے دن جب میں ؐ حوض کوثر پر موجود ہ ہوں گا تو قرآن اور اہل بیت بھی میرے ساتھ ہوں گے۔ اس کے بعد صحابہ کرام سے مخاطب ہو کر فرمایا ’’ لوگو کیا تم جانتے ہو کہ میں مومنوں کی جانوں سے بھی زیادہ قریب ہوں کیا تم پہچانتے ہو میں تمہاری جانوں کا بھی حاکم ہوں میں تم سب مومنوں کی جانوں کا ولی ہوں گواہی دیتے ہو سب نے کہا یا رسول اللہؐ ہاں ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ ہماری جانوں کے حاکم بھی ہیں ولی بھی ہیں اس کے بعد آپ ؐنے علیؓ شیر خدا کو کھڑا کیا ان کا ہاتھ پکڑ کا ہوا میں بلند کیا اور فرما سن لو ’’ مَن کُنتُ مولاہُ فھذا علیُّ مولا‘‘ (ترجمہ) جس کا میں مولا اس کا علیؑ مولا … تحت العشیرہ میں محمدؐکی نصرت کی وعدہ کیا یہ بھی یہ بھی علیؑ کا مقدر ہے،پانی کی مشکیں کمر پر رکھ کر محمدؐ کو پکڑاتا رہا یہ بھی علیؑ کا مقدر ہے،شعیب ابی طالب محمدؐ کے ساتھ محصور رہایہ بھی علی ؑکا مقدر ہے، خطرے کے بستر پر محمدؐ کا رفیق بن کے سو گیا یہ بھی علیؑ کا مقدر ہے، رسول کی امانتیں واپس کر تا رہا یہ بھی علیؑ کا مقدر ہے،محمدؐ نے علیؑ کو اپنا بھائی بنا لیا یہ بھی علیؑ کا مقدر ہے،خیبر کا دروازہ ہوا میں اڑا دیا یہ بھی علیؑ کا مقدر ہے،احد میں ہمارا محمدؐ بچا لیا یہ بھی علیؑ کا مقدر ہے، خندق میں امر عبد وبد کو جہنم رسید کیا اور کل ایمان بنا یہ بھی علیؑ کا مقدر ہے،فاتح خیبر بنا یہ بھی علیؑ کا مقدر ہے، فاتح دارین بنا یہ بھی علیؑ کا مقدر ہے،نقطہ بہ بسم اللہ بنا یہ بھی علیؑ کا مقدر ہے، انگوٹھی زکواۃ میں دی آیت قرآن میں اتار دی یہ بھی علیؑ کا مقدر ہے، آسمان کا ستارہ دروازے پر کمیں بنا کر کھڑا کیا یہ بھی علیؑ کا مقدر ہے،فاطمہ زہرا جیسی بیوی کا شوہر بنا یہ بھی علیؑ کا مقدر ہے،حسنین کا بابا بنا یہ بھی علیؓ کا مقدر ہے، جو کرتا گیا وہ مقدر بن گیا ، آج بھی کعبے کا وہ نشان باقی ہے جہاں سے علیؑ آیا۔( کچھ احادیث مبارکہ ) میں علم کا شہر ہوں اور علیؓ اسکا دروازہ ہیں۔ علیؓ کا ذکر عین عبادت ہے۔ علیؑ کا چہرہ دیکھنا عبادت ہے ،علیؑ کی دشمنی جہنم کا سبب ہے۔ جس نے علیؑ سے محبت کی اس نے اللہ سے محبت کی ، جس نے علیؑ سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا۔ جس نے مجھ سے بغض رکھا اس نے اللہ سے بغض رکھا۔ علیؑ کی مثال میرے ساتھ یو ں ہے جیسے موسیؑ کے ساتھ ہارون علیہ السلام کی۔
اسلام کے دامن میں بس دو ہی تو چیزیں ہیں
اک ضرب یداللہ ، اک سجد ہ شبیری
جن کے چہرے کو دیکھنا عبادت ہے۔ جنہوں نے امام مہدی کے ظہور کی تاریخ بسم اللہ الرحمن کے مبسوطی عدد سے بتائی پھر قیامت کا بتانے لگے کہ کب آئے گی پھر زبان شریف روک لی جس کی نماز عصر قضا ہو تو سورج واپس اپنے مقام پر پلٹے۔جنگ خندق میں عمر و عبدود سے مقابلہ کرتے ہوئے نماز قضا ہو جائے اور جنہوں نے وقت پر ادا کی۔ یہ قضا ان کی ادا سے افضل ہو۔ جس کی محبت میں امام شافعیؒ کہیں کہ یہ محبت اگر رفض ہے تو جِن و انسان کے گروہ تم گواہ ہو جائو میں رافضی ہوں۔
وہ علیؓ جن کے متعلق رسول کریم ؐ فرمائیں
۱-میں علم کا شہر ہوں۔ علی اس کا دروازہ ہیں۔
۲۔علی مجھ سے ایسے ہے جیسے ہارون ؑ، موسیٰ ؑ سے تھا ( گو کہ تم نبی نہیں ہو)
۳۔مکمل اسلام مکمل کفر سے لڑنے جا رہا ہے۔( جنگ احزاب)
(جاری ہے)