جھنگ اور ملتان میں آٹے کی ہوشربا گرانی پر عوام میں واویلا مچلنے کی خبریں الیکٹرانک میڈیا پر عام ہوگئی ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ ملک کے دیگر شہروں میں بھی آٹے کی مہنگائی کی وباء عوام کیلئے وبال جان بن چکی ہو اور انتظامیہ کے ارباب اختیار اپنی روانی زبان میں اسے عارضی مہنگائی کا نام دے کر جلد ہی اس پر قابو پانے کے الفاظ استعمال کرکے ان غریب پاکستانیوں کیلئے طفل تسلیوں کا سامان فراہم کر رہے ہوں جو ارض وطن میں تبدیلی کے تمام تر نعروں اور دعوئوں کو دم توڑتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔ اسکے برعکس جس ڈھٹائی اور سنگدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فلور ملز مالکان ملکی حالات کی سنگینی کا احساس نہ کرتے ہوئے عوام کا خون نچوڑنے کیلئے جس بیدردی کے ساتھ آٹا کی قیمت میں اضافے کے جو جواز تراش کر اس پر قائم رہنے پر بضد ہیں، اس کی مثال سنگدل سے سنگدل معاشرے کے درندہ صفت تاجر انسانوں میں بھی نہیں ملتی۔
حیرت ہے کہ ایک ایسے پرآشوب دور میں جبکہ ملک کے عوام کی عظیم اکثریت مہلک اور جان لیوا وباء کی لپیٹ میں آچکی ہے۔ ملک معاشی، اقتصادی طور پر ناقابل یقین حد تک نامساعد حالات سے دوچار ہے، برسراقتدار سیاسی قیادت اقتصادی طور پر ملک کی بحربیکراں میں ہچکولے کھاتی ہوئی کشتی کو سنبھالنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ایسے دور میں ملک کا ایک مخصوص تاجر، کارخانہ دار، سرمایہ دار، انسانی ضروریات کی مصنوعات تیار کرنے والا طبقہ اپنے روایتی ہتھکنڈوں سے نہ صرف اس حد تک مفلس و قلاش کرنے پر ادھار کھائے بیٹھا ہے کہ وہ ان حریص تاجروں کی تجوریاں بھرنے کی خاطر اپنے گھر کے برتن تک بیچ کر بال بچوں کی دال روٹی کا اہتمام کرنے پر مجبور ہو جائیں اور دوسری طرف تمام اقسام کے ملز مالکان کے پس پردہ مقاصد یہ ہیں کہ ایسے دور میں جبکہ عوام بدحال، حکومت نامساعد حالات سے پریشان اور عالمی وباء کرونا وائرس ملک کیلئے وبال جان بن چکی ہے تو ایسے میں عوام اور حکومت کے مخصوص مفادات کی خاطر اس قدر زچ کر دیا جائے کہ وہ ان کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جائیں۔ کوئی کہہ سکتا ہے کہ منافع خور قوم کے دکھ درد سے بے نیاز اور انسانیت پرستی کی بجائے درندگی کی صفات پر اڑے رہنے کے باعث اپنی بات نہیں منوا لیں گے۔ اس کی وجہ کوئی ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ بلاشبہ اعلیٰ ترین پالیسی ساز اداروںمیں ایسے بھی درد دل رکھنے والے ہیں جو دل سے ان 25فیصد عوام کی بھوک، ننگ، غربت، مفلسی اور کسمپرسی کے ازالے کے خواہاں ہوں مگر جب تک ایسی سوچ رکھنے والے قومی کرم فرمائوں کی مرضی اور منشا کی روشنی میں عوام کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کرنے کیلئے حقیقی معنوںمیں تبدیلیاں عمل میں نہ لائی جائیں۔ اس وقت تک عوام کی حالت بدلنے اور ملک میں تبدیلی کے کسی بھی خاکے میں رنگ بھرنے کے دعوے محض سیراب ہوں گے۔ بات کہنے کی نہیں مگر منہ میں اور قلم کی نوک پر آنے والی بات رک نہیں سکتی ۔ کہا تو جاتا ہے اور بجا طور پر درست ہی کہا جاتا ہے کہ اصلاح کا آغاز بالائی سطح سے ہوا کرتا ہے اگر یہ بات 100 فیصد تک درست اور خوش کن ہے مگر اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ ہر دور میں اپنے ناجائز دولت کمانے کے مذموم مقاصد کی خاطر ہر دور میں ارباب اقتدار کا دم چھلا بن کر غریب اور مفلس عوام کا خون نچوڑنے والے طبقے کی کل سیدھی کرنے کیلئے ایسے ارباب اقتدار کی ضرورت ہوتی ہے جو خود بے وسیلہ ہوں، صرف اور صرف برسراقتدار سیاسی قیادت کے منشور کو جزوایمان سمجھ کر وطن کے کروڑوں بے وسیلہ اور بے نوا کروڑوں خاندانوں کی فلاح و بہبود کی خاطر منافع خوروں اور عوام کو لوٹنے والوں سے مفادات کی پینگیں بڑھانے کی بجائے قائد کے منشور پر عمل پیرا ہونے کو ترجیح دیں۔
پاکستان کی جمہوریت کا سیاسی نقشہ کچھ یوں ہے کہ ملک کی قومی اسمبلی، سینیٹ ، چاروں صوبوں کی اسمبلیوں میں عظیم ترین اکثریت متمول ترین افراد سے عبارت ہے جو دو ایک بے وسیلہ تھے بھی، اب تک اس حد کو پیچھے چھوڑ چکے ہیں؟
اب جن ہاتھوںمیں ملک کے ان مفلس و قلاش، بغیر چھت کے اور غربت کی لکیرسے نیچے کی زندگی بسر کرتے ہوئے جسم اور روح کا رشتہ بحال رکھنے کی خاطر بال بچوں کے لئے ایک وقت کی ڈھنگ کی روٹی کا اہتمام بھی نہ سکتے ہوں، ان کے بارے میں جمہوری اداروںمیں براجمان لاکھوں روپے کی مراعات جن میں رہائش، علاج معالجہ، ٹرانسپورٹ، زندگی کی تمام آسائشوں سے بہرہ ور کب سنجیدگی سے سوچنا گوارا کریں گے۔ ان میں کتنے ہیں جو مختلف قسم کی ملوں، فیکٹریوں اور مختلف نوع کے کارخانوں کو ایک طرف بڑے بڑے شہروںمیں دور حاضر کی ایسی ایسی رہائشی سکیموں کے مالکان بھی ہیں جن کی بعض داستانیں زبان زدعام ہیں۔
وجوہ کچھ بھی ہوں مگر اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ اسی ملک میں ملکی وسائل اور دولت کو ہر ممکن سے طریقہ سے لوٹ کر بیرون ملک اثاثے بنانے والے ارباب اقتدار کو بھی چرخ نیلی فام نے دیکھا وہاں ملک کی تاریخ کے اوراق اس حقیقت سے بھی جگمگاتے رہیں گے کہ ایک عہد کے انتہائی شکستہ دل اور مایوس کن اقتصادی طور پر عنان حکومت سنبھالنے والوں نے اپنی سیاسی قیادت کے منشور کو زبان بنا کر پہلی فرصت میں اس کو عملی جامہ پہنا کر دکھا دیا، جس کے نقوش سوات سے بولان تک نظر آتے ہیں۔ اب بھی وقت ہے کہ مفاد پرستوں، مصلحت اندیشوں، ابن الوقتوں اور ان کے حواریوں کی دھمکیوں سے قطعی طور پر مرعوب نہ ہوا جائے۔ مسلم معاشرے میں غربت، فاقوں اور ناقابل یقین حد تک اقتصادی پریشانی میں بدحال کروڑوں خاندانوں کے جان و مال کے تحفظ کو اولیت دی جائے اور انسانیت کا بے دردی سے خون نچوڑنے والے ایسے طبقوںسے کسی قسم کا تعرض نہ کیا جائے جن کے اعمال سے اہل یہود بھی شرماتے ہیں۔