سب سے زیادہ تو حکمران جماعت نے میڈیا پر دن رات صنعتکاروں اور کاروباری افراد کو دھمکا دھمکا کر ساری معیشت کا بیڑہ غرق کرکے رکھ دیا اور دوسری طرف بدتر معاشی حالات میں بروقت درست فیصلے نہ کرنا روپے کی قدر میں کمی اور زرمبادلہ کے ذخائر میں مسلسل کمی کا موجب بنے حالانکہ موجودہ حکومت کے قیام کے ساتھ ہی بدتر معاشی حالات کے پیش نظر دوست ممالک نے پاکستان کی بھرپور مالی مدد کی لیکن حکومت کی ناقص پالیسیوں اور کاروباری طبقے کو خوفزدہ کرنے کی روش سے کاروبار اور معیشت سنبھلنے کے بجائے ہر گزرتے دن کے ساتھ بدسے بدتر ہوتے چلے گئے۔
موجودہ حکومت جب اپوزیشن میں تھی تو ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کو ناجائز اور غیر قانونی قرار دیتے نہیں تھکتی تھی اور آئی ایم ایف سے کبھی قرض نہ لینے کے دعوے کئے جاتے تھے لیکن انہوں نے معیشت کو سنبھالا دینے کیلئے ٹیکس ایمنسٹی اسکیم تو متعارف کرائی لیکن اس قدر پیچیدہ تھی کہ کوئی بھی عام آدمی ٹیکس وکلاء کی مدد کے بغیر ایمنسٹی اسکیم سے استفادہ حاصل نہیں کرسکتا تھا اور یہی ہوا کہ حکومتی اہداف سے بہت کم رقم قومی خزانے میں جمع ہوئی حالانکہ جب یہ حکومت ٹیکس ایمنسٹی اسکیم لانے کا عندیہ دے رہی تھی تو میں نے وزیراعظم‘ وزیر خزانہ سمیت اعلیٰ حکام کو خطوط ارسال کرکے تجویز دی کہ ضیاء الحق شہید کی حکومت کے وزیرخزانہ ڈاکٹر محبوب الحق کی طرز کی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم لائی جائے جس میں لوگ کسی بھی کمرشل بینک میں رقم جمع کرکے اسی تناسب سے رقم کے وہائٹ ہونے کا سرٹیفکیٹ حاصل کرسکیں جو آئندہ سال کے ٹیکس گوشوارے میں جمع ہوجائے اور کسی پر بھی پچھلے 10سال میں ٹیکس کا کوئی کیس ہے تو ایمنسٹی اسکیم میں جمع کرائی گئی رقم سے اس کیس کا بھی فیصلہ کردیا جائے لیکن حکومت نے کوئی بات نہیں سنی اور وہی ہوا کہ ٹیکس ایمنسٹی اسکیم ناکام ہوگئی اور اگر میری تجویز کے مطابق اسکیم دی جاتی تو تمام اندازوں سے زیادہ رقم قومی خزانے میں جمع ہوتی اور معیشت و کاروبار کا پہیہ چل پڑتا۔اسی طرح آئی ایم ایف سے قرض لینے میں بھی غیر ضروری تاخیر کرکے معیشت کو مزید تباہ کردیا گیا اور پھر بالآخر آئی ایم ایف کے پاس بھی جانا پڑا لیکن دیر ہوچکی تھی اور پھر معیشت کو وہ سنبھالا نہ مل سکا جس سے ملک کا خزانہ مستحکم ہوسکتا۔
عوام نے تو حکمران جماعت کو مہنگائی پرکنٹرول کرنے اور بے روزگاری کے خاتمے کیلئے ووٹ دیئے تھے لیکن اس حکومت کے آتے ہی مہنگائی تاریخ کی بلند ترین سطح پر چلی گئی اور حکومت کی ناقص معاشی پالیسیوں کے باعث لاکھوں لوگ بے روگاری ہوگئے اور صرف میڈیا انڈسٹری سے منسلک ہزاروں لوگ بے روزگار ہو کر کئی نوجوان صحافی معاشی بدحالی کے باعث زندگی کی بازی ہارچکے ہیں ۔ اسی طرح ہر شعبہ زندگی سے منسلک لوگوں کے کاروبار میں تاریخ کی بدترین مندی تھی لیکن ٹی وی چینلز پر وزراء اس کا اعتراف کرنے کو قطعی تیار نہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ لوگ شاید اب بھی اپوزیشن میں ہی ہیں اور موجودہ تمام بدترحالات کے ذمہ سابقہ حکمران ہیں جو مسلسل 2سال کی انکی حکومت میں بھی تمام تر خامیوں کے ذمہ دار ٹھہرائے جاسکتے ہیں۔ صرف زبانی جمع خرچ اور بلند بانگ دعوؤں سے حقائق نہیں چھپائے جاسکتے۔
حکمراں جماعت کے آنے کے بعد بھی ریلوے‘ پی آئی اے‘ اسٹیل ملز اور پی ایس او کی حالت زار میں کوئی نمایاں فرق نہیں آیا بلکہ ریلوے میں انکی پالیسیوں کے باعث حادثات میں زبردست اصافہ ہوا کیونکہ فریٹ ٹرینیں پرانی پٹڑی پر چلانے سے پٹڑی غیر متوازن ہوگئی ہے اور کراچی تا لاہور کے درمیان آئے روز ریلوے کے سنگین حادثات رونما ہوتے ہیں لیکن موجودہ حکومت اور وزیر ریلوے اس سلسلے میں ماہرین کی رائے بھی ماننے کو تیار نہیں اور ہر جائز و ناجائز اقدامات کے ذریعے ریلوے کو منافع بخش بنانے کے درپے ہیں چاہے انکے فیصلوں سے کئی قیمتیں جانیں بھی چلی جائیں۔ پہلے نیا ٹریک بنانے کو ترجیح دی جاتی ا ور پھر نئے ٹریک پر فریٹ ٹرینیں چلانے کا فیصلہ درست مانا جاسکتا تھا۔ اسی طرح پی آئی اے میں انقلابی اقدامات سے بہتری کے دعوے کئے جارہے ہیں لیکن پی آئی اے سے سفر کرنے والوں کو انکے دعوؤں کی حقیقت کا درست علم ہے۔ اسٹیل ملز اور پی ایس او کی حالت بہت خراب ہے اور ’’تبدیلی سرکار‘‘ سے عوام کی توقعات میں زبردست کمی آتی جارہی ہے۔ بڑے آبی ذخائر کی تعمیر کے متعلق بھی حکومت کی جانب سے دعوے کئے جارہے ہیں اور اﷲ انکو ان دعوؤں کو عملی جامہ پہنانے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ ملک حقیقی ترقی کی جانب گامزن ہوسکے۔ پاک ایران گیس پائپ لائن سمیت ایران سے نئے معاہدے کرنے اور موجودہ معاہدوں پر پیشرفت کرکے ہی آزاد خارجہ پالیسی اور عالمی دباؤ کو پس پشت ڈالنے کے دعوے کئے جاسکتے ہیں لیکن موجودہ حکومت کے بھی 2سال مکمل ہونے کے باوجود ایران گیس پائپ لائن کا کوئی ذکر نہیں کیا جارہا اور نہ ہی ایران سے تجارت کیلئے کوئی پیشرفت نظر آتی ہے حالانکہ پڑوسی برادر اسلامی ملک سے باہمی تجارت کو اولیت دینا ہمارے قومی مفاد میں ہے لیکن امریکی دباؤ کے پیش نظر اس جانب پیشرفت نہیں کی جاتی۔ حالانکہ ایران پر امریکی پابندیوں کو بھارت کبھی خاطر میں نہیں لایا اور بھارت کی ایران سے باہمی تجارت بہت زیادہ ہے جو بغیر کسی عالمی دباؤ کے نہ صرف جاری رہتی ہے بلکہ اس کے حجم میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔موجودہ حکومت کی وزارت خارجہ کی کارکردگی سب کے سامنے ہے کہ بھارت نے کشمیر کو اپنا حصہ بناکر وہاں اگست 2019ء سے مسلسل کرفیو لگا رکھا ہے مگر اس سلسلے میں ایسا عالمی دباؤ پیدا نہیں کیا جاسکا کہ بھارت کشمیریوں پر مظالم میں کمی کردے۔
لوگوں کو انصاف کی فراہمی کے متعلق اس حکومت کے دعوؤں کی حقیقت سانحہ ساہیوال سے ہی عیاں ہوچکی ہے اور آئے روز اس طرح کے واقعات رونما ہوتے ہیں لیکن ابھی تک کسی کو فوری انصاف ملتا نہیں آرہا۔ اب بھی فوری انصاف کی فراہمی کے متعلق موجودہ حکومت کیا پالیسیاں تشکیل دے رہی ہے؟ کب تک لوگوں کو فوری انصاف مل سکے گا؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب ابھی تک مجھے ان کے کسی وزیر کی بریفنگ یا بیانات سے نہیں مل پارہا اور وقت تیزی سے گزرتا جارہا ہے ۔ عوام اب تبدیلی کے نعرے سے اکتاچکے ہیں۔ (جاری)
ماضی ‘ حال اور مستقبل
Jun 06, 2020