سوشل میڈیا۔۔۔۔۔ ایک اور دہشت گردی؟؟

Jun 06, 2020

پاکستان میں بہت ساری سہولیات کا غلط استعمال کر کے ان کی افادیت کا بیڑہ غرق کر دیا جاتا ہے۔ پہلے پہل جب پاکستان میں کمپیوٹر کا استعمال شروع ہوا تو کمپیوٹر خریدنا ہر کسی کے بس کی بات نہ تھا۔ پھر آہستہ آہستہ 2000 کی دِہائی کے شروع میں یہاں کمپیوٹر اور لیپ ٹاپ کی قیمتوں میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی اور یہ چیزیں عام آدمی کی دسترس میں آ گئیں۔ لیکن یہ سہولت آتے ہی اس کا منفی استعمال شروع ہو گیا۔ پاکستان کے طول وعرض میں انٹرنیٹ کیفے کلچر جنگل میں آگ کی طرح پھیلتا چلا گیا۔ حتیٰ کہ ہر گلی محلے میں نیٹ کیفے کھل گئے۔ جوں جوں وقت گزرتا گیا یہی کیفے برائی کے اڈے بن گئے اورسیکڑوں ا سکینڈلز منظر عام پر آ گئے اور یوں اس سہولت کو بدنام کر کے ہماری قوم نے اپنی ذہنی اور اخلاقی پستی کا ثبوت دے دیا۔اس کے بعد موبائل فون کا دور شروع ہو گیا۔ شروع شروع میں موبائل فون کو صرف اور صرف کال سْننے اور کال کرنے کا ذریعہ ہی تصور کیا جاتا تھا اور لوگ موبائل فون کو کسی نعمت سے کم نہیں سمجھتے تھے کیونکہ اب ہر وقت جیب میں آپکا اپنے پیاروں سے رابطہ میسر آ چکا تھا۔ اس کے بعد نئی نئی موبائل کمپنیوں کے مارکیٹ میں آنے سے جہاں ایک طرف موبائل فون کی قیمتوں میں کمی واقع ہوئی تو دوسری طرف طرح طرح کی سہولیات جیسا کہ کیمرہ اور ایک سے زیادہ سمز کا استعمال شروع ہو گیا۔ جوں جوں ایک سے زیادہ کمپنیوں نے سروس دینا شروع کی ہر بندے کی خواہش تھی کہ ہر کمپنی کی سِم حاصل کی جا سکے۔ چونکہ کسی بھی کمپنی کی سِم با آسانی ہر دکان ، ہر ٹھیلے اور ہر ریڑھی پر دستیاب تھی اور بغیر شناختی کارڈ کے بھی سِم کا حصول ممکن تھا۔ کچھ سال یہ سلسلہ اندھا دھند چلتا رہا اور دیکھتے ہی دیکھتے کروڑوں سمیں ایکٹویٹ ہو گئیں۔بات یہاں ختم نہیں ہوئی ہر جرم چاہے قتل ہو ، چوری ہو یا ڈکیتی ہو میں انہیں سموں کا استعمال عام ہو گیا۔ جب پانی سر سے گزر گیا تو حکومت کو ہوش آیا کہ غیر قانونی سموں کو بلاک کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ سو اب کی بار ہر بندہ تصدیق کے بعد اپنے نام پہ پانچ سمز رکھ سکتا ہے۔باوجود اتنی سختی کے ، موبائل فون کے ذریعے نت نئے فراڈ اور دھوکہ دہی کے طریقہ کار بھی ایجاد ہوتے جا رہے ہیں۔ ان فراڈ میں سب سے بڑا اور مشہور زمانہ ا سکینڈل بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا ہے۔ پاکستان میں شاید ہی ایسا کوئی بندہ ہو جسے جعلی میسج نہ ملا ہو۔ لیکن ہمارے قانونی اداروں نے نہ جانے آنکھوں پہ کونسی پٹی باندھی ہوئی ہے کہ وہ تصدیق شدہ سمز کے ہوتے ہوئے بھی مطلوبہ ملزمان تک پہنچنے سے قاصر ہیں۔یہ بھی
ایک طرح کی دہشت گردی ہے جس کے ذریعے نہ جانے کتنے بے قصور اور معصوم لوگ نہ صرف لْٹ چکے ہیں بلکہ کئی لوگ لْٹنے کے بعد اپنی زندگی سے بھی ہاتھ دھو چکے ہیں۔یہ تو تھے فراڈ کے پرانے طریقے۔ آجکل تو انٹرنیٹ کی سہولت اس قدر عام ہوئی ہے کہ ہر شہر ، ہر قصبے اور ہر دیہات میں 3G اور 4G کی بازگشت سنائی دینے لگی ہے۔ اور تو اور سوشل میڈیا جیسے کہ فیس بک اور واٹس ایپ کے ساتھ ساتھ اور بھی کئی ویب سائیٹس آگئیں۔ سونے پہ سہاگہ یہ ہے کہ کوئی بھی بندہ اپنے نام سے تو کیا کسی اور شخص کے نام پہ بھی کئی کئی اکاؤنٹس بنا سکتا ہے۔ان ساری باتوں کے ساتھ ساتھ ہمارے معاشرے میں عدم برداشت کا یہ عالم ہے کہ کوئی بندہ کسی بھی بات کی تفتیش کیے بغیر ہی بدلہ لینا اپنا حق سمجھتا ہے۔ کئی واقعات ایسے ہیں جن میں قتل ہونے والوں کا موقف سنے بغیر ہی عوام نے خودساختہ انصاف کر ڈالا جو کہ کسی بھی مہذب معاشرے کے مْنہ پر طمانچے سے کم نہیں ہے۔ اب اصل بات جو کہ سب سے اہم ہے کہ جس چیز کو بنیاد بنا کر ہم لوگ کسی بھی شخص کو مجرم قرار دے دیتے ہیں وہ ہے فیس بک اکاؤنٹ یا فیس بک پیج جس پر کسی شخص کی پوسٹ سے ہم اندازہ لگاتے ہیں کہ وہ شخص کسی معزز اور قابل احترام ہستی کی شان میں گستاخی کا مرتکب ہو رہا کہ نہیں۔ ؟؟؟ لیکن کیا یہ ضروری نہیں کہ یہ پتہ لگا لیا جائے کہ یہ اکاؤنٹ وہ شخص بذات خود چلا بھی رہا ہے کہ نہیں ؟ کیا کوئی دوسرا شخص اس کے نام اور تصویروں کو استعمال تو نہیں کر رہا ؟؟؟ کیا کوئی بندہ کسی سے اپنی ذاتی عداوت تو نہیں نبھا رہا۔ ؟؟؟ یہ وہ سارے سوالات ہیں جن کا جواب جانے بغیر ہم کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکتے۔اپنے ہاں سوشل میڈیا حقیقی طور پر دہشت گردی بن کے ابھرا ہے۔ اب تو ہمارے جیسا عام آدمی اس خوف میں مبتلا ہے کہ کل کوئی شخص خدانخواستہ اس کا نام نہ استعمال کر لے اور نتیجہ ہم خود کو نہ بھگتنا پڑین حکومت ہمیشہ تب جاگتی ہے جب کوئی بڑا واقعہ ہو جاتا ہے۔ لیکن قابل عمل قانون سازی کا فقدان ہمیشہ سے ہی برقرار ہے۔ جب تک جزا اور سزا کا سلسلہ شروع نہیں ہوتا ایسے واقعات شاید کبھی نہ رْک سکیں۔ ایک کہاوت مشہور ہے۔ ’’ سْوکھی کے ساتھ گِیلی بھی جل جاتی ہے ‘‘ ہمارے ملک کی موجودہ صورتحال میں یہ کہاوت بالکل ٹھیک لگتی ہے۔ یعنی کہ یہاں وہ لوگ بھی سزا یافتہ ہو جاتے ہیں جنہوں نے سِرے سے کوئی جرم ہی نہیں کیا ہوتا۔اس سے بڑی دہشت گردی اور بڑا گناہ کیا ہو سکتا ہے جس میں کسی ناحق کو نقصان پہنچے۔ لیکن پاکستان کا ماحول اس قدر پیچیدہ ہو چکا ہے کہ کوئی بھی بات کرنے سے پہلے ہزار دفعہ سوچنا پڑتا ہے کہ لوگ کیا مطلب نکالیں گے ؟؟ یہاں اس بحث کا مقصد ہر گز کسی کو بے گناہ یا قصوروار ثابت کرنا نہیں ہے بلکہ سوشل میڈیا کے غلط استعمال کی طرف حکومتی عدم توجہی اور کمزور پالیسی کو منظر عام پر لانا ہے۔

مزیدخبریں