عید الفطرکا تہوار گزرے ہفتہ ہو گیا،رحمتوں برکتوں والا مہینہ ماہ صیام بیت گیا ، امسال عید سے محض دو روز قبل کراچی میںپی آئی اے طیارہ حادثے نے پوری قوم کو سوگوار کر دیا۔ کورونا وائرس کی وباء کے سبب سادگی سے منائی جانے والی عیدافسوس اور رنج وعالم میں گزری۔یہ عید تین سال قبل سانحہ احمد پور کی یا د تازہ کر گئی جس میں آئل ٹینکر کے پھٹنے سے ایک سو سے زائد دیہاتی جھلس کر جاں بحق ہو گئے تھے۔ سب سے پہلے حادثے میں جاں بحق افراد کے لئے دعائے مغفرت، خدا وند تعالیٰ مرحومین کو جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور زخمیوں کو شفاء دے (آمین ثمہ آمین)۔حادثے میں معجزانہ طورر پر نئی زندگی پانے والے دوخوش قسمت صدر پنجاب بنک ظفر مسعود و خالد محمود کومبارکباد۔عید کے بعد لاک ڈائون کادوسرا مرحلہ شروع ہو گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ لاک ڈائون کب تک۔ کیا اس وباء کا حل لاک ڈائون ہی ہے اگر ہے تو کیا حکومت نے من و عن ایسے ہی لاک ڈائون کیا ہے جس طرح چین نے کیا۔کیا ویسے ہی ایس او پیز پرعمل در آمد کیا جا رہا ہے ۔سچ پو چھیں تو ہر گز نہیں۔ پھر ہم کیسے اس وباء پر قابو پائیں گے ۔عید کے بعد دوسرے مرحلے میں کاروبار کھل گئے ہیں پبلک ٹرانسپورٹ بھی چل پڑی ہے ۔ پولیس نے کراچی میں پہلے ہفتہ مارکیٹس پانچ بجے بند جبکہ اب سات بجے تک بند کروانا شروع کر دیںباالفاظ دیگر حکومت سندھ وفاق کی ایس او پی عمل پیرا ہوگئی۔دوسری جانب امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ نے الزام لگاتے ہوئے ایک بار پھر چین کوکوروناکے پھیلائو کا ذمہ دار قرار دیا ہے اور ایسا الزام کیوں نہ لگے کیونکہ کورونا وائرس کی 4جون 2020 تک کی رپورٹ کا موازنہ کیاجائے تو دنیا بھر میں66لاکھ 44ہزار کیسزرپورٹ ہوئے ہیں جس میں امریکہ19لاکھ 15ہزارکیسز اور ایک لاکھ سے زائد ہلاکتوں کے ساتھ سر فہرست ہے اورعالمی سپر پاور کرونا وائرس کا مرکز بن چکا ہے گویا تباہی کے دہانے پر ہے۔ دوسری جانب ڈیڑھ ارب سے زائد نفوس پر مشتمل ملک چین کی صورتحال مستحکم ہے اور بتدریج اس فہرست میں نیچے چلا آ رہا ہے83 ہزارکیسز اور4ہزار6سو ہلاکتوں کے ساتھ 18ویں نمبر پر آگیا ہے حالانکہ یہ ملک ایک وقت دنیا بھر میں سر فہرست تھا۔ چین نے صوبہ ووہان میں چودہ ہفتے کالاک ڈائون کیا اور عارضی ہسپتال بنا کروائرس پر قابو پا یا اور تقریباـ اب حالات معمول کے مطابق ہیںجس پر بہت کچھ سوچا سمجھا سکتا ہے۔وائرس سے متاثرہ ممالک میں سخت لاک ڈائون کے با وجودکسی بھی ملک میں قابو نہیں پایا جا سکا ہے بلکہ ’’ بڑھتا گیا مرض جوں جوں دوا کی ‘‘ کے مصدق کورونا وائرس کیسز تیزی سے بڑھتے جا رہے ہیںاس کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے21اپریل 2020ء تک پاکستان کے نو ہزار افراد سمیت 25لاکھ نفوس کورونا سے متاثر تھے اور اگلے 45دن بعد 04جون 2020 کو تعداد بڑھ کر85ہزار سے بڑھ چکے ہیں اس کے برعکس چائینا اس وبا پر قابو پاتے ہوئے دنیا بھر میں سرخرو ہے۔آج کل ہم کیا پوری دنیا پریشان ہے، کورونا وائرس سے بچائو کے لئے لاک ڈائون ہونے پر مجبور ہیں اور ایسا کیوں نہ ہو۔دنیا میں کورونا وائرس سے چار لاکھ سے زائد افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے اور کہاں تک پہنچ کر یہ تباہی بربادی کا طوفان تھمے گا ،کچھ نہیں کہ سکتے۔ خدا وند تعالیٰ اس وباء سے جلد ازجلد نجات دے (آمین)۔اس سے قبل بھی لکھا ہے کہ یہ وباء ہم پر قدرتی آزمائش ہے یا کسی شیطانی عمل کا نتیجہ؟۔ ہم یہ ایک عرصہ سے سنتے آئے ہیں کہ انسان ایٹم بم تو بنا رہا ہے لیکن عالمی جنگ سوئم ہتھیاروں سے نہیں کیمیکل وار ہو گی، دوئم انگریز مصنفہ Psychic Sylvia Browne کی تصنیف اینڈ آ ف دی ڈیز (End of Days)میں یہ تحریر کہ 2020ئ میں ایک وائرس حملہ آور ہو گا جو کہ پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لگا اور پھر جس قدر تیزی سے پھیلے گا اتنی ہی تیزی سے ختم ہو گا،لیکن چین کی حکمت کورونا کے حوالے سے کامیاب رہی اور اس کو روک تھام میں کامیاب رہا۔سب سے پہلے کورونا وائرس کا شکار چین نے امریکہ کو وائرس کے پھیلائو کا ذمہ دار ٹھہرایا لیکن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس الزام کو یکسر مسترد کردیا اب جب امریکہ میں ہر جانب کورونا وائرس کی تباہی ہے تو اب امریکہ چین کو مورد الزام ٹھہرا رہا ہے ۔اس دنیاء فانی کو خود کو سپر پاور کہلانے والے ، مہذب، پڑھے لکھے ، ترقی یافتہ اور امیر ترین ملک
امریکہ اس تباہی میں سر فہرست ہے انسان کی تدابیر ، کاوشیں اور ہمت جواب دے چکی ہے۔ انسان بے بس ہو چکا۔ اس وائرس سے بچنے کے لئے گھروں میں بند ہونا ہی عافیت ہے ۔گزشتہ ایک ماہ سے لاک ڈائون ہیں۔کاروبار، معمولات زندگی درہم برہم ہیں۔یہاں ایک واٹس ایپ کی پوسٹ کاپی کرنا چاہوں گا ۔ورلڈ لاک ڈائون سے اجتماعی طور پر ایک دوست نے یہ نتیجہ اخذکیا ہے، امریکہ دنیا کا سب سے طاقتور ملک نہیں ہے ، چین نے تیسری عالمی جنگ جیت لی ایک بھی میزائل یا گولی چلائے بنا، یورپیئن اتنے تعلیم یافتہ نہیں جتنے وہ دکھائی دیتے ہیں، غریب آدمی، امیر آدمی سے زیادہ مضبوط ہے ، دنیا کے لیے سب سے بڑا وائرس انسان خود ہے ، کوئی پجاری، پادری مریض کو شفا نہیں دے سکتا، اب ہمیں احساس ہواہے کہ جانور چڑیا گھر میں کیسا محسوس کرتے ہوں گے۔خواتین سارا سارا دن کیسے گھروں پر رہتی ہیں۔ گھروں میں رہ کر بھی کاروبار کیا جا سکتا ہے،ہم فاسٹ فوڈ اور غیر ضروری سرگرمیوں کے بغیر بھی زندہ رہ سکتے ہیں،۔ اس دنیا میں اب بھی اچھے لوگ موجودہیں، اگر ہم زیادہ اسکول بنائیں گے توہمیں زیادہ ہسپتال بنانے کی ضرورت نہیں پڑے گی،ہم گاڑیوں کے بنا بھی چل سکتے ہیں ،ہمارے پاس وقت بہت ہے اگر ہم اسے صیحح استعمال کریں، قدرت کے بنائے ہوئے نظام ہی سب سے بہتر ہے اور اس میں ہی انسان کی بھلائی ہے۔ دنیا کتنی بھی ترقی کر لے لیکن وہ قدرت کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔اگرکورونا وائرس کی وبا ء پو قابو پانا ہے تو چین کی تقلید کی جائے ان کی ایس اوپیز پر عمدرآمد کیا جائے۔بصورت دیگر اس کیمیائی جنگ پر قابو پانا آسان نہ ہو گا۔