فوکوشیما نیوکلیئر پلانٹ ایک خطرہ 

جاپان نے فوکوشیما نیوکلیئر پلانٹ کا ریڈیو ایکٹو پانی بحر اوقیانوس میں سمندر برد کرنے کا اعلان کیا ہے۔ عام زبان میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایٹمی پانی کو ٹھکانے لگانے کا یہ منصوبہ ہے۔ اس معاملے پر جہاں دنیا کے اور دیگر ممالک تشویش کا شکار ہے وہیں پر گوادر پرس کلب کے سامنے ماہی گیروں نے بھی احتجاج کیا اور جاپانی زبان میں پلے کارڈ اٹھا کر جاپانی عوام سے براہ راست مخاطب ہونے کی کوشش بھی کی کیونکہ عمومی خیال یہ ہے کہ ایٹمی حملے کے سبب  سے جاپانی قوم ایٹمی معاملات  میں دیگر اقوام کی نسبت زیادہ حساس خیالات رکھتی ہے۔ فوکوشیما ایٹمی پلانٹ کو 2011 کے زلزلہ اور  اس کے بعد آنے والے سونامی نے غیر معمولی نقصان پہنچایا تھا۔ اسکے چھ ایٹمی ری ایکٹرز تھے کہ جن میں سے تین تباہ ہوگئے تھے ان تین تباہ شدہ ری ایکٹرز کے ایٹمی پانی کا نکاس کہاںہوگا یہ معاملہ اس سانحہ کے فورا بعد سے ہی زیر بحث رہا تھا۔ اس مواد کی مقدار 13 لاکھ ٹن ہے اور اتنے بڑے پیمانے پر ایٹمی مواد کو کبھی بھی سمندر برد نہیں کیا گیا ہے لہٰذا اسکے خطرات سے جاپان کے قرب و جوار کے ممالک اور بحر اوقیانوس  سے منسلک ممالک کا تشویش کا شکار ہو جانا ایک فطری ردعمل ہے۔جاپان ایٹمی ہتھیاروں کے سب سے بڑے مخالف ملک کی حیثیت سے جانا جاتا ہے اس کی حساسیت کو بخوبی سمجھا بھی جا سکتا ہے۔ اس لیے یہ توقع کی جاتی ہے کہ کسی بھی ایٹمی  حوالے سے اسکے اقدامات  بہت ناپے تولے اور سمجھ بوجھ پر مبنی ہونے چاہیے لیکن افسوس کے بعد تحریر کرنا پڑ رہا ہے کہ اس حوالے سے وہ اپنے ہمسایہ ممالک کے خدشات بین الاقوامی قوانین اور خود جاپان سے آتی آوازوں کو پرکاہ کے برابر بھی اہمیت دینے کو تیار نظر نہیں آرہا ہے۔
سمندری تحفظ کے حوالے سے دو قوانین کم از کم  موجود ہیں ۔جو سمندری معاملات پر قاعدے قوانین کا تمام ممالک کو پابند کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک یونائیٹڈ نیشن کنونشن آن دی لاء آف دی سی اور دوسرے کو پروٹوکول ٹو دا کنونشن آف میری  پلوشن بائی ڈمپنگ آف ویسٹ اینڈ ادر میٹرز کہا جاتا ہے۔ یونائیٹڈ نیشن کے کنونشن کے مطابق متعلقہ ریاست " قوانین و ضوابط اور اقدامات یقینی بنائے گی کہ اس کو اس وقت تک سمندر برد نہیں کیا جاسکتا جب تک ممالک کے مجاز حکام  سے اس کی اجازت حاصل نہ کر لی جائے " یہ قانون بالکل واضح طور پر بیان کر رہا ہے کہ کسی تنہا  ملک کو یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ وہ اپنے کسی بھی مواد کو سمندر برد کردے جب تک کہ اس کو اس سمندر سے منسلک ممالک یہ کام کرنے کی اجازت نہ دے ڈالیں۔ مگر اس صورتحال کے باوجود جاپان دو سالہ منصوبہ اس حوالے سے تیار کر چکا ہے۔ اسی کی مانند لندن کنونشن اینڈ  پروٹوکول میں درج ہے کہ " سمندر برد کرنے کی ہنگامی حالت میںاجازت ہوگی جس پر ان ممالک کی مشاورت شامل ہوگی جو اس سے متاثر ہو سکتے ہیں "  اسی کو جواز بنا کر جاپان بحراوقیانوس میں یہ کام کرنے جا رہا ہے مگر اس معاہدے میں " ہنگامی حالت "کی بھی وضاحت کر دی گئی ہے کہ کس کیفیت کو ہنگامی حالت سے تعبیر کیا جائیگا۔ بیان کیا گیا ہے کہ " ہنگامی حالت کا مطلب ایسا  ناقابل قبول خطرہ ہے جو انسانی صحت، سلامتی یا سمندری ماحول کو لاحق ہو اور اس سے گلو خلاصی کیلئے اسکے علاوہ اور کوئی چارہ کار موجود نہ ہو " حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ابھی تک کوئی ہنگامی حالت موجود نہیں ہے اور اس طریقے کو صرف اس سبب سے اختیار کیا جا رہا ہے کہ اس مواد کو ٹھکانے لگانے کا  یہ سب سے سستا طریقہ ہے حالانکہ اس کے متبادل ذرائع بھی موجود ہیں۔ اسی سبب سے جنوبی کوریا تو اس حد تک چلا گیا ہے کہ اس نے جاپان کے اس فیصلے کے خلاف عالمی اداروں میں چلے جانے کی دھمکی دیدی ہے۔ اسکے علاوہ بحراوقیانوس سے وابستہ دیگر ممالک بھی اس اقدام کی مخالفت کررہے ہیں  وہاں موجود جزائر پر آباد افراد احتجاج کر رہے  ہیں کیونکہ اس اقدام کی صورت میں سمندری حیات میں ایٹمی مواد کے داخل ہو جانے کا خطرہ موجود ہوگا اور ایسی سمندری غذا کے استعمال سے انسانوں میں کینسر کے مرض کے بہت بڑھ جانے کا امکان بھی ظاہر کیا جا رہا ہے۔ اسکے علاوہ اسکے  بڑے پیمانے پر سمندر برد کرنے کے مستقبل میں کیا نتائج برآمد ہوں گے یہ بھی ویسے ہی حل طلب سوال ہے۔ آئی اے ای اے جس نے  جاپان کے اس اقدام  کی مخالفت نہیں کی ہے وہ بھی یہ کہہ رہا ہے کہ سمندر کے وسط میں پھر اس کی تہہ میں تلف کرے تاکہ یہ مواد سمندری حیات کے ان علاقوں سے دور رہے جہاں پر وہ اپنی افزائش نسل کرتے ہیں بالفاظ دیگر آئی اے ای اے بھی اس خطرے کو محسوس کر رہی ہے کہ اس  سے سمندری حیات کو نقصان پہنچنے کا احتمال موجود ہے۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن نے بھی جاپان کو کہا ہے کہ یہ فیصلہ کرونا کی وبا کے خاتمے کے بعد دیگر ممالک کی  مشاورت سے کیا جائے مگر تاہنوز جاپان اپنی بات پر اڑا ہوا ہے۔ حالانکہ خطرہ چاہے ہتھیاروں کی صورت میں ہو یا غیر ذمہ داری کی صورت میں ۔جاپان کو دوسری جنگ عظیم کے تجربے کے پیش نظر انسانیت کو اس سے محفوظ رکھنا چاہیے۔

ای پیپر دی نیشن