معزز قارئین !۔یوں تو ، مرنے والوں کو ، اُن کے عزیز و اقارب اور دوست احباب ہر وقت یاد کرتے رہتے ہیں لیکن، برسیؔ۔ تو، ایک اجتماعی رسم ہے۔ سالہا سال سے اسلام آباد میں مقیم میرے عزیز دوست ’’ چیئرمین پاکستان کلچرل فورم ‘‘ اسلام آباد ، برادرِ عزیز ظفر بختاوری اور اُن کے دو چھوٹے بھائیوں ، عزیزان ، زاہد بختاوری اور عابد بختاوری کے والد محترم (اور میرے بزرگ دوست) ’’قائداعظمؒ کے سپاہی ‘‘ (تحریک پاکستان کے ( گولڈ میڈلسٹ) کارکن ) جناب غلام نبی بختاوری ؒ( میرے چاچا بختاوریؒ) کی دوسری برسی کل 7 جون کو منائی جائے گی۔
جناب غلام نبی بختاوریؒ کا انتقال 7 جون 2020ء کو ،ہُواتھا اور اُنہیں اسلام آباد کے ایچ ایٹ قبرستان میں سپرد خاک کردِیا گیا تھا ۔مرحوم کے عزیز و اقارب ، نہ صرف اسلام آباد بلکہ پاکستان کے مختلف شہروں اور بیرون ملک اپنے بزرگ کی برسی مناتے ہیں ۔ اُستاد شاعر جناب محمد ابراہیم ذوقؔ نے اپنے انداز میں اپنے کسی پیارے کی برسی ؔ پر کہا تھا کہ …
’’ ایک حسرت تو برستی ہے ، کبھی برسی کے دن !
ورنہ روتا ابر بھی ،اپنے سرِ تُربت نہیں !‘‘
…O…
معزز قارئین !۔چاچا غلام نبی بختاوری ؒکا تعلق ضلع چکوال کے گائوں ڈلوال سے تھا، قیام پاکستان سے کئی سال پہلے اُنہوں نے امرتسر میں اپنا کاروبار شروع کِیا اور اُس کے ساتھ ہی تحریک پاکستان کے لئے جدوجہدبھی ۔ چاچا بختاوریؒ پہلوانؔ بھی تھے اور اُن کے کئی شاگرد مسلم لیگ کے سرگرم کارکن تھے۔ قیام پاکستان کے بعد چاچا بختاوری اپنے خاندان کو لے کر سرگودھا میں آباد ہُوئے۔
پنجاب کی سِکھ ریاست نابھہؔ میں ،تحریک پاکستان کے (گولڈ میڈلسٹ) کارکن ، میرے والد صاحب رانا فضل محمد چوہانؒ بھی ’’لٹھ باز/ پہلوا ن‘‘ تھے ۔ وہ ’’ آل انڈیا مسلم لیگ کے "نیشنل گارڈز"کو لٹھ بازی سِکھایا کرتے تھے ۔ تحریک پاکستان کے دَوران، ریاست نابھہؔ ، ریاست پٹیالہؔ اور امرتسر ؔمیں ہمارے خاندان کے 26 افراد ( زیادہ تر ) سِکھوں سے لڑتے ہُوئے شہید ہوگئے تھے ۔ سرگودھا میں میرے والد صاحبؒ اور چاچا بختاوریؒ کی دوستی ہوگئی، مَیں اُنہیں ’’چاچا ‘‘ کہنے لگا ۔مَیں نے 1960ء میں مسلک صحافت اختیار کِیا تو ، میری چاچا بختاوریؒ اور ضلع سرگودھا کے کئی تحریک پاکستان کے کئی نامور کارکنوں سے بہت قُربت ہوگئی ۔
1963ء میں چاچا بختاوریؒ نے اپنا کاروبار سرگودھا سے راولپنڈی منتقل کرلِیا ۔ 2 جنوری 1965ء کے صدارتی انتخاب میں فیلڈ مارشل صدر محمد ایوب خان کے مقابلے میں ،قائداعظمؒ کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناحؒ متحدہ اپوزیشن کی امیدوار تھیں ،پھر جنابِ مجید نظامیؒ نے اُنہیں ’’ مادرِ ملّتؒ ‘‘ کا خطاب دِیا۔ میرے والد صاحب نے سرگودھا میں اور چاچا بختاوری ؒصاحب نے راولپنڈی میں مادرِ ملّت ؒ کی انتخابی مہم میں بھرپور کردار ادا کِیا۔11 جولائی 1973ء کو مَیں نے لاہور سے اپنا روزنامہ ’’ سیاست‘‘ جاری کِیا تو، میرا راولپنڈی / اسلام آباد آنا جانا زیادہ ہوگیا ۔ چاچا بختاوریؒ اور برادرم ظفر بختاوری سے میرا میل جول بڑھ گیا۔ 1979ء میں چاچا بختاوری کا کاروبار اسلام آباد منتقل ہوگیا۔
معزز قارئین !۔ چاچا بختاوریؒ ، چکوال ، امرتسر، سرگودھا اور لاہور کے دوست احباب کی خوب آئو بھگت کرتے تھے ۔ اُن میں لاہور کے تحریک پاکستان کے ( گولڈ میڈلسٹ) کارکن مرزا شجاع اُلدّین بیگ امرتسریؒ ؔ (چیئرمین پیمرا ) پروفیسرمرزا محمد سلیم بیگ کے والد صاحب بھی شامل تھے ۔ مرزا شجاع اُلدّین بیگ ؒ کے والد صاحب ،مرزا معراج اُلدّین بیگ امرتسریؒ کی قیادت میں بھی اُن کا آدھے سے زیادہ خاندان سِکھوں سے لڑتا ہُوا شہید ہوگیا تھا ۔ چاچا بختاوریؒ کی اُن دونوں اصحاب سے بہت دوستی تھی۔ مرزا شجاع اُلدّین بیگ امرتسری ؒ سے میری بھی 1964ء سے دوستی تھی، چنانچہ اُن کی چاچا بختاوری ؒسے کئی ملاقاتوں میں مجھے بھی شریک ہونے کا موقع ملا۔
چاچا بختاوریؒ ، تحریک پاکستان کے ( گولڈ میڈلسٹ) کارکن ڈاکٹر سیّد علی محمد شاہ امرتسریؔ کو اپنا بزرگ سمجھتے تھے ، وہ شاہ صاحب کے پوتے ’’ نظریہ پاکستان ٹرسٹ‘‘ کے سیکرٹری سیّد شاہد رشید ( اب مرحوم ) سے بہت شفقت کرتے تھے ۔ چاچا بختاوریؒ کا’’مفسرنظریۂ پاکستان ‘‘ جنابِ مجید نظامیؒ سے باہمی احترام کا رشتہ تھا۔ جنابِ مجید نظامی ؒچاچا بختاوری ؒسے ملاقات کے لئے اُن کے گھر جاتے ۔ جنابِ مجید نظامی ؒ نے کئی بار’’پاکستان کلچرل فورم‘‘ اور ’’نظریۂ پاکستان فورم ‘‘ اسلام آباد کی تقریبات میں صدریا مہمان خصوصی کے فرائض انجام دئیے ۔چاچا بختاوری ؒنے میرا بار بار اپنے دونوں چھوٹے بیٹوں زاہد بختاوری ، عابد بختاوری اور برادرم ظفر بختاوری کے بیٹوں احسن بختاوری اور وقار بختاوری سے ’’میل ملاپ ‘‘ کرا یا۔مجھے بڑی خُوشی ہُوئی۔ ماشاء اللہ وہ سب کامیاب بزنس مین ہیں ۔ بختاوری صاحب کی اہلیہ، بیگم پروین بختاوری فی الحقیقت اُن کی "نصف بہتر" ہیں لیکن، اپنے بچوں کی بہت اچھی ماں!۔
1982ء سے بیرونی ملکوں میں ’’پاکستان کی ثقافت / تہذیب و تمدن کے فروغ کے لئے ’’ پاکستان کلچرل فورم‘‘ کے چیئرمین کی حیثیت سے ظفر بختاوری کو 50 سے زیادہ بیرون ملک "اسٹیٹ گیسٹ" کی حیثیت سے مدّعو کر چکے ہیں ۔مَیں نے ستمبر 1981ء سے اپنے دوست گلاسگو کے ’’ بابائے امن‘‘ ملک غلام ربانی کو 2002ء میں چاچا بختاوریؒ سے ملوایا تو، وہ دونوں ایک دوسرے کے "فین" ہوگئے۔اکتوبر 2006ء میں ’’بابائے امن‘‘ نے مجھے اور برادرم ظفر بختاوری کو مدّعو کِیاتو، مَیںنے دیکھا کہ ’’ برادرم ظفر بختاوری دِن میں کئی بار اپنے والد صاحب سے ٹیلی فون پر بات کرتے تھے تو، مجھے اور ’’ بابائے امن ‘‘ کو بہت خوشی ہوتی تھی۔
’’ڈانٹ ڈپٹ اور جپھیاں!‘‘
معزز قارئین!۔ 12 جون 2017ء کو ، مَیں نے اپنے کالم میں لکھا تھا کہ’’ میرے والد صاحب رانا فضل محمد چوہانؒ کو، مجھے اور چاچا غلام نبی بختاوریؒ کو، اپنے فرزند ِ اوّل برادرِ عزیز ظفر بختاوری کو، ( قریبی عزیزوں کے سامنے ) ڈانٹ ڈپٹ کرنے اور پھر جپھیاں ڈالنے کا مشترکہ شوق تھا / ہے !‘‘ ۔ چاچا بختاوریؒ سے جب بھی میری ملاقات ہوتی تو، و ہ مجھ سے بھرپور جپھّی ڈؔالتے۔ آخری بار جپھّی 11 مئی 2019ء کوجب، برادرم ظفر بختاوری مجھے اپنے چھوٹے بھائی عابد بختاوری کے گھر لے گئے ، جہاں چاچا غلام نبی بختاوری ؒمیرا انتظار کر رہے تھے ۔ چاچا غلام نبی بختاوری ؒصرف میرے لئے ہی نہیں بلکہ ہر کسی کے لئے ’’سراپا شفقت ‘‘ تھے۔ علاّمہ اقبالؒ فرماتے ہیں کہ …
’’ فطرت ِ مُسلم ، سراپا شفقت است!
در جہانِ دست و زبانش ،رحمت است!‘‘
…O…
یعنی۔ ’’ مسلمان کی فطرت ، سراپا شفقت (مہربانی ، غمخواری ، ترس ) ہے ۔ اُس کے ہاتھ اور زبان دُنیا کے لئے باعث ِ رحمت ہیں ‘‘۔