کوٹلیہ چانکیہ کی عیاری اور مکاری کا ٹریلر

گزشتہ روز ایک مشہور روزنامہ میں ، پاکستان کے دو ’’ سکالرز ‘‘ کے ایک مبینہ تحقیقاتی مقالے بعنوان ’’ تصور برداشت، عظیم دانشور، کوٹلیہ چانکیہ، اسلامی تعلیمات کی روشنی میں‘‘ کے بارے میں ایک تحریر پڑھنے کو ملی۔ میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ سب کے اپنے اپنے ہیرو اور راہبر ہوتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ایک شخص کی تعلیمات اگر پاکستان ، اسلام اور انسانیت کے خلاف بھی ہوں تو وہ کسی اور ملک کے لوگوں کی آنکھوں کا تارا ہو۔ صاحب مضمون اور مبینہ اسلامی سکالرز کا کہنا ہے پاکستان میں ’’ کوٹلیہ چانکیہ‘‘ کو غلط طور پر منفی شخصیت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ اور  ’’کسی بھی عظیم قوم کی نشانی ہے کہ وہ اپنے اسلا ف میں ان عظیم فلسفیوں ، مفکروں اور دانشوروں کی زندگی محفوظ کرتی ہے ‘‘ ۔ اس بات سے تو میں متفق ہوں لیکن اگر انکا اشارہ  کوٹلیہ چانکیہ کی جانب ہے ہو وہ شخص جو تھوڑا سا بھی شعور رکھتا ہے اس بات کی مخالفت کرے گا۔ اول تو مذکورہ کتاب یعنی ’’ ارتھا شاسترا‘‘  واقعی کوٹلیہ چانکیہ کی تحریر ہے، خود یہ بات قابل بحث ہے۔ ’’انڈین کائونسل فار ہسٹاریکل ریسرچ‘‘ کے مطابق، میسور کے رہنے والے ڈاکٹر آر۔ شماسستری نے 1904 ء میں یہ دعویٰ کیا کہ انکو  چانکیہ کی کتاب ارتھ شاسترا کہیں سے مل گئی ہے، اور پھر انہوں نے یہ کتاب شائع کر دی ۔ نہ تو اس سے قبل اس کتاب کا کوئی وجود تھا اور نہ ہی ان ڈاکٹر صاحب نے یہ بتایا کہ مذکورہ کتابی نسخہ انکو اچانک کہاں سے مل گیا؟
اگر کسی کو چانکیہ اور اسکی تعلیمات اچھی لگتی ہیں ، تو ہم اعتراض کرنے والے کوئی نہیں۔ لیکن مجھے حیرت اس وقت ہوتی ہے جب ایک منظم سازش کے تحت ( اور یہ سازش چانکیہ کی کتاب میں سکھائے گئے پینتروں کے عین مطابق ہے) ، اس قسم کی کتب یا تعلیمات کو اسلام سے جوڑا جاتا ہے۔ کہاں اسلامی طرز معاشرت اور کہاں چانکیہ پنڈت کی مکاری اور عیاری؟ جن لوگوں نے اس کتاب کا مطالعہ کیا ہے وہ جانتے ہیں کہ اس کتاب میں ایک تصوراتی ریاست کا نقشہ کھینچا گیا ہے جسکا  محور ایک بادشاہ ہے۔ اور کتاب میں بیان کیا گیا ہے کہ کس طرح یہ بادشاہ اپنی بادشاہت مضبوط کر سکتا ہے،  اپنی ریاست کو پھیلا سکتا ہے وغیرہ وغیرہ۔  اگر سیاق و سباق کو ہٹا دیا جائے تو کچھ اچھی باتیں بھی مل سکتی ہیں( جو ہر مذہب میں ہوتی ہی ہیں)۔  رعایا کو انصاف اور خوشحالی  فراہم کرنے کی بات بھی ضرور کی گئی ہے، لیکن اس خوشحالی کا تعلق اور مقصد صرف اس بادشاہ کی بادشاہت قائم رکھنا ہے،  انسانیت یا ریاست کی تمام آبادی سے اسکاکوئی تعلق نہیں۔  اسلام کی بنیاد تو سلامتی ، انصاف اور برابری پر ہے۔ کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر فوقیت نہیں۔  اسی طرح اگر کوئی جرم یا چوری کرے تو سب کے لیے ایک جیسی سزا ہے، چاہے کوئی کسی بھی حسب نسب کا ہو۔ 
مذکورہ کتاب کا سب سے مستند انگریزی ترجمہ ’’ پینگئوین بکس‘‘ کا شائع کردہ ہے اس لیے میں نے اپنی تحریر میں آگے
 جہاں جہاں مذکورہ کتاب کے حوالے دیے ہیں وہ لندن کے اس پبلشر کے شائع شدہ مستند ترجمے میں سے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ کوٹلیہ چانکیہ نے بادشاہ ’’دھانا نندا‘‘ سے اپنی ذاتی بے عزتی کا بدلہ لینے کے لیے ، چندرگپت کو اکسا کر ، اسکی مدد اور اپنی عیاری مکاری سے دھانا نندا کی حکومت تباہ کروائی تھی۔ اس میں انسانیت کہاں ہے؟ نندا حکومت کا کیا قصور تھا جسے تباہ کر کے لاکھوں لوگوں کو بلا وجہ قتل کر دیا گیا۔؟ ارتھا ساشترا کا مطلب ہے ’’ دنیاوی فائدے اور دولت حاصل کرنے کے طریقے‘‘۔ ارتھا شاسترا میں کوٹلیہ چانکیہ نے عوام کو پہلے دو بڑے دھڑوں میں تقسیم کیا ہے۔ ’’ آریہ‘‘  اور ’’ غیر آریہ‘‘۔ آریہ کو چار ذاتوں میں تقسیم کیا گیا ہے، جن سے ہم سب ہی واقف ہیں یعنی بر ہمن،کھشتری،ویش اور شودر۔  سب سے بڑی اور بہتر ذات برہمن کی ہے اسی لیے چانکیہ کی تعلیم ہے کہ اگر کوئی غیر برہمن اپنے آپ کو برہمن بتائے تو اسکی دونوں آنکھیں نکال دی جائیں (4.10.13)، اگر کوئی کسی برہمن کے باورچی خانے کو ناپاک کر دے تو اسکی زبان گدی سے کھینچ لی جائے (4.12.21)۔  غیر آریہ کی مختلف ذاتیں ہیں جیسے کہ چنڈالا، سواپکا اور ملیچھ وغیرہ۔ انکے حقوق اور حالات شودر سے بھی بد تر ہیں۔ 
مذکورہ مقالہ تحریر کرنے والوں کو یہ سب تعلیمات اسلامی روشنی  میں نظر آ رہی ہیں؟ صاحب مضمون کیونکہ غیر مسلم ہیںاور ہندو برادری سے تعلق رکھتے ہیں اس لیے فی الحال اسلام کو درمیان سے نکال کر ، کوٹلیہ چانکیہ کی تعلیمات کو انسانیت پر پرکھتے ہیں ۔ کوئی بھی مہذب معاشرہ یا ملک تو بہت دور کی بات ہے،  بھارت تک میں وہاں کا نارمل معاشرہ،  عدلیہ اور عوام (میں نے نارمل کہا، بھارتیہ جنتا پارٹی اور آر۔ ایس ۔ ایس کا مجھے معلوم نہیں)  اسکی تعلیمات کو قبول نہیں کریں گے۔ مثال کے طور پر اس کتاب سے کچھ اقتباسات ۔ اگر کسی بادشاہ کی اولاد نرینہ نہیں ہو رہی تو وہ اسکے لیے کسی درباری یا سردار کی مدد حاصل کر سکتا ہے(1.17.50)۔ عورت کا واحد مقصد اولاد نرینہ پیدا کرنا ہے (3.2.42)،  عورت کو خاوند کی جائیداد میں حصہ نہیں ملنا چاہئیے (3.5.28)۔ اگر لگے کہ ایک بیوہ اپنے خاوند کی موت پر ضرورت سے زیادہ غم زدہ لگ رہی ہے تو قوی امکان ہے کہ اس نے سازش سے اپنے خاوند کو قتل کیا ہو(4.17.14)۔  اگر کسی کے دو دشمن ہیں تو وقتی طور پر ایک کے ساتھ امن قائم کر کے پہلے دوسرے کو تباہ کرے اور موقع ملنے پر پہلے کو بھی تباہ کر دیا جائے(7.1.37)۔ کتاب کے دسویں اور گیارہویں ابواب میں  بادشاہ کو خارجہ اور داخلہ پالیسی اور ہتھکنڈے سکھائے گئے ہیں جن کے مطابق کسی دوسری ریاست کے خلاف جنگ کرنا ہو تو بہادری کے ساتھ کھلی جنگ کی بجائے بہتر ہے کہ تحائف اور دولت کے بل پر، اگر ایسا ممکن نہ وہ تو اختلافات کے بیج بو کر، دشمن ریاست کے عوام کو اسکی حکومت کے خلاف اکسایا جائے۔ اس سلسلے میں مذکورہ  ریاست میں نا راض، لالچی، ڈرے ہوئے، جذباتی لوگوں کو نشانہ بنایا جائے۔ یہ بھی کوشش کی جائے کہ اس ریاست کے بادشاہ کی اولادوں کو ایک دوسرے کے خلاف بھڑکا کر آپس میں لڑایا جائے۔ دشمن کے خلاف خفیہ جنگ میں دھونس دھمکی کے علاوہ دہشت گردی کو استعمال کیا۔ اگر دشمن پر کوئی قدرتی آفت آ جائے تو فوری طور پر اس پر حملہ کر کے فائدہ اٹھایا جائے۔اس سے مناسب وقت تک غیر اعلانیہ خفیہ جنگ کی جائے۔ وغیرہ وغیرہ ۔ یہ سب صرف ٹریلر ہے، اصل اس سے بہت زیادہ ہے۔ کیا یہ سب آج کے دور میں کسی غیر اسلامی، شدت پسند معاشرے میں بھی قابل قبول ہو گا ہے؟ کیا کوٹلیہ چانکیہ کو ’’ غلط طور‘‘ پر ایک منفی شخص کے طور پر پیش کیا جاتا ہے؟لگتا ہے بھگت سنگھ کو پاکستان کا ہیرو بنانے کی کوشش کے بعد کوٹلیہ چانکیہ کو اسلام اور پاکستان کا دانشور بنانے کی مہم کا آغاز ہو گیا ہے۔ یہ سب پاکستان اور اسلام کے خلاف ’’فیفتھ جنریشن وار‘‘ نہیں تو کیا ہے؟

ای پیپر دی نیشن