الطاف حسین حالی کا شمار اُردو ادب کے عناصرِ خمسہ میں ہوتا ہے۔ ان کی پوری حیات ہندوستان کے دورِ غلامی میں بسر ہوئی۔اسی لیے ان کی شاعری مسلمانوںکی زبوں حالی پر نہ صرف حالی کو بذاتِ خود رلاتی ہے بلکہ قاری کو بھی گریہ پر مجبور کر دیتی ہے۔ان کی شہرہ آفاق مثنوی ”مسدّسِ حالی“ اسی سلسلہ کی ایک جاندار کڑی ہے۔ اپنی مشہورِزمانہ نظم”میڈیکل ٹیسٹ“میںوہ دو سرکاری ملازمین کا قصّہ بیان کرتے ہیں، جن میں ایک گورا اور ایک کالا تھا۔دونوں ناسازیءطبیعت کے باعث دفتر سے چھٹی کے حصول کے لیے ڈاکٹر کی طرف جا رہے تھے ۔نقاہت ولاغری کے باعث کالاسواری پر تھا اور گورا پیادہ۔ راستے میںکسی وجہ سے دونوں کا باہم ٹکراﺅ ہو گیا۔گورے نے کالے کی کوکھ میں مُکّا رسیدکر دیا ، جس سے کالے کی حالت مزید بگڑ گئی۔پس و پیش دونوں ڈاکٹر کے پاس پہنچ گئے۔ معائنہ کرنے کے بعد ڈاکٹر نے ”انصاف کے تقاضے نبا ہتے ہوئے “ گورے کی صحت کے بارے میں شدید تشویش رقم کر دی ،جبکہ کالے کو یہ کہتے ہوئے تندرست ہونے کی سند ہاتھ میں تھما دی کہ ایک کالا جوگورے کے مکے سے نہ مرے اس کی بیماری کا اعتبار کیونکر کیا جا سکتا ہے۔دوسری طرف ہندوستان پرحکومت کے اہل ہونے کے لیے گورے کے مکے میں اتنی جان تو ہونی چاہیے کہ مکا کھا کر کالا وہیں پر ڈھیر ہو جائے۔
وطن عزیز میں ”گورے صاحب“ ”کالی رعیت “ کے بارے میںبالعموم ایسی ہی ” نیک آراء“ رکھتے ہیں۔
محکمہ خزانہ میں تعیناتی کے دوران شروع میں میرا دفتر سیکرٹریٹ کے قریب کوآپریٹو ڈیپارٹمنٹ کی عمارت میں تھا۔ سرکار نے کچھ انتظامی وجوہ کی بنیاد پر متعلقہ عمارت میں آباد تمام محکموں کو وہاں سے ہجرت کرجانے کا حکم دیا۔تاہم متبادل دفتری ٹھکانے کی بابت خاموشی اختیار رکھی۔ میرے رفقائے کار نے چاروناچار تمام ریکارڈ بوریوں میں سی کر ایک ٹرک پر لادا، اور ایک محفوظ جگہ پر منتقل کر دیا۔ تمام تر کاوشوں کے باوجود دفتری آبادکاری کے لیے بر وقت جگہ تفویض نہ ہونے کے باعث عوامی کام بری طرح متاثر ہوا۔ اسی دوران ایک پارلیمانی سیکرٹری صاحب کاٹیلیفون آیا اور انہوں نے کسی کام کے زیرِ التوا ہونے پر سخت سرزنش فرمائی۔ میں نے انہیں ساری صورت ِ حال سے آگاہ کیا ، اور ساتھ ہی یہ وعدہ کیا کہ جیسے ہی سرکار کی طرف سے دفتر کے لئے جگہ مختص ہوتی ہے اور فائلیں بوریوں سے باہر نکلتی ہیں تو پہلی توجہ آپ کے کام کی تکمیل پر ہو گی۔ مگر میری گزارش جیسے ان کے لیے قطعاََ بے معنی تھی۔لہٰذا وہ جلال میں آ گئے اور شائستگی کے تمام رموز پرے پھینکتے ہوئے گویا ہوئے”او، او، تو مینوں کہانیاں ناں سُنا بئی ریکارڈ بوریاں وچ پیا اے، میں ایہو جئیاں کہانیاں سنن کان فون نئیں کیتا۔ میرے بندے دا کم کر کے مینوں واپسی ٹیلیفون کر کے دس“۔ میں نے اُنہیںقائل کرنے کی بسیار کوشش کی ،مگر اُن کی زبان مزید غیر شائستہ ہو گئی۔جس پرَمجھے ان کے کچھ الفاظ مجبوراََ انہیں واپس کرنا پڑے۔
افسوس، ارکانِ اسمبلی جن راستوں پر سے چل کر اس ”اوجِ ثریا“ پر پہنچتے ہیں، اُن کو بہت جلد بھول جاتے ہیں۔ بطور امیدوار،ووٹ کے حصول کےلئے کہیںاپنے ”کمیوں“ کے ترلے ، کہیںبھکاری کو بھی جھک کر سلام ، کہیںغریب کوبابا جی ،تایا جی،کسی کو ماں جی، ماسی جی، بیٹی جی اوربہن جی جیسے مشری میں دھلے الفاظ لبوں کی زینت ٹھہرتے ہیں۔ مگر جونہی پولنگ اسٹیشن سے اسمبلی تک کا سفر کامیابی سے طے پاتاہے تو پھر کمّی، بھکاری اور غریب ووٹرز الیکشن کے دوران اپنا ”کھویا ہوا مقام“ جلد حاصل کر لیتے ہیں۔پھر اقتدار کی مسند پربٹھانے والے ان ”طاقتور لوگوں“ کا کل استحقاق ارکانِ اسمبلی کو منتقل ہو جاتاہے۔
کتنے ارکانِ اسمبلی ایسے ہوں گے جنہوں نے بعد از انتخابات ” استحقاق شکستہ“ ووٹرز کی طرف پلٹ کر دیکھا ہو، اُن کی گزران کے بارے جاننے کی زحمت کی ہو یا ان کے حقوق کے لیے آواز اٹھائی ہو۔ نومئی کے کریہہ سانحہ نے جہاں اہلِ شعور کو ذہنی اذیّت سے دو چار کیا ہے وہاں سرکارِ وقت کو ایک ایسی” پسِ دیوار“ مہیا کی ہے کہ غربت اور مہنگائی کی تمام تر اذیتیں سہنے کے باوجود ہر شہری نے زباں پر بے بسی کا تالا لگا لیا ہے۔ آج وطنِ عزیز مہنگائی، بے روزگاری اور معاشی تنزلی کی تاریخ رقم کر رہا ہے۔ مجموعی ملکی پیداوار کی شرع نمو اعشاریہ تین پر آ گئی ہے۔ گیس کے نرخ یکدم پچاس فی صد بڑھا دیئے گئے ہیں۔ بجلی، پٹرول اور اشیائِ ضروریہ تک رسائی رفتہ رفتہ خوابوں میں ڈھل رہی ہے ۔چودہ چودہ گھنٹے سر، کمر، اور کندھوں پر اپنی بساط سے بڑھ کر بوجھ اٹھانے والا محنت کش ،تھکن سے چور جسم سے اٹھنے والی ٹیسوں اور منہ سے پھوٹنے والی کراہوں کو دباتا پھرتا ہے۔ کھاد، بیج، فصلاتی زہروں، جانوروں کی ادویات اورپانی کے نرخوں نے کسان کی کمر دوہری کر کے رکھ دی ہے۔ رہی سہی کسرشوگر ملوں نے تہہ در تہہ استحصالی رویہ سے نکال دی ہے۔ اتحادی جماعتوں کی اپنی حد تک، ان کا دورِ اقتدار انتہائی کامیاب رہا ہے کہ انہوں نے اپنے اور اپنے اعزا و اقربا کے خلاف تمام مقدمات میں” سندِ بیگناہی“حاصل کر لی ہے۔ ایسی صورت میں” توہینِ پارلیمنٹ قانون“ حالی کی نظم ” میڈیکل ٹیسٹ“ کے مترادف لگتا ہے۔
مہذب معاشروں میں اگرعوام کی عزت نہیں تو ایوان کیسے عزت کا مطالبہ کر سکتا ہے؟کیا عام آدمی کا کوئی استحقاق نہیں؟ آج توہینِ پارلیمنٹ بِل سے کہیں زیادہ” توہینِ مزدوربِل“ کی ضرورت ہے۔ اگر لانا ہی ہے” توہینِ کسان بِل“ لائیے ۔” توہینِ خدمت گار“ بِل“ لائیے یا ” توہینِ عوام“ بِل لائیے۔۔ آپ کو توقیر دینے والے یہی مزدور، کسان اور عوام ہیں۔ان کو عزت دیجیے، پارلیمان کو عزت خود بخود مل جائے گی۔