ایڈ ووکیٹ عابد بھٹی ایک سچے اور کھڑے محب وطن پاکستانی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کشمیر کے بغیر پاکستان کو نامکمل تصور کرتے ہیں۔ وہ ملک کی اعلیٰ عدالتوں میں اپنی وکالت کے جوہر منوا چکے ہیں۔ پاکستان کی تکمیل کے لیے انھوں نے کشمیر وکلاءمحاذ تشکیل دے رکھا ہے۔ ان دنوں بھارتی حکومت حریت پسند رہنما یاسین ملک کے خلاف نئی سازش میں مصروف ہے۔ اس سازش کی تفصیلات بے نقاب کرنے کے لیے کشمیر وکلاءمحاذ کے ایک اجلاس سے انتہائی جذباتی خطاب کیا جس میں انھوں نے بتایا کہ بھارت کے نام نہاد تحقیقاتی ادارے این آئی اے نے جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے چیئرمین محمد یاسین ملک کی عمر قید کی سزا پھانسی میں تبدیل کروانے کے لیے نئی دہلی ہائی کورٹ سے رجوع کیا ہے جس پر عدالت نے یہ درخواست سماعت کے لیے منظور کرلی ہے۔ بھارتی عدالت نے اس درخواست پر نوٹس جاری کرتے ہوئے یاسین ملک سے جواب طلب کیا ہے اور آئندہ تاریخ سماعت 9 اگست مقرر کی ہے۔
جے کے ایل ایف لیڈراس وقت بھارت کی بدنام زمانہ تہاڑ جیل میں قیدتنہائی کاٹ رہے ہیں جہاں انھیں ان کے گھر والوں اور وکلاءسمیت کسی سے ملنے کی اجازت نہیں ہے۔ بھارت کی انتہاپسند بی جے پی حکومت نے کرناٹک انتخابات میں شکست کے بعد آئندہ برس ہونے والے الیکشن کے لیے ابھی سے ماحول تیار کرنا شروع کر دیا ہے۔ اس کے لیے بھارت کی مختلف ریاستوں میں مسلمانوں پر حملے بڑھ گئے ہیں تو دوسری جانب کشمیر میں بھی اپنی عدالتوں کو جنھیں کشمیری کینگرو عدالتیں قرار دیتے ہیں، استعمال کرتے ہوئے حریت لیڈروں کے عدالتی قتل کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ افضل گورو، مقبول بٹ اور بعض دوسرے کشمیریوں کو جس طرح جھوٹے اور بے بنیاد مقدمات میں پھانسیاں دی گئیں اور کہا گیا کہ ہمارے پاس اس حوالے سے ٹھوس ثبوت تو نہیں لیکن معاشرے کے اجتماعی ضمیر کو مطمئن کرنے کے لیے ایسا کرنا ضروری تھا۔
اس سے صاف پتا چلتا ہے کہ ہندوستانی عدالتیں ہندوتوا عناصر کے زیر اثر کام کر رہی ہیں اورکشمیری لیڈروں کو ان کے پیدائشی حق خودارادیت کا مطالبہ کرنے پر سزائیں سنائی جارہی ہیں۔ ہندوستانی عدالتوںنے ہمیشہ کشمیریوں کو مایوس کیا ہے۔ یاسین ملک کو اسی نام نہاد ادارے این آئی اے کی ایک عدالت نے گزشتہ برس 25 مئی کو ایک جھوٹے مقدمہ میں عمر قید کی سزا سنائی تھی اور اب یہی ادار ہ اس سزا کو پھانسی کی سزا میں تبدیل کروانے کے لیے دہلی ہائی کورٹ پہنچ گیا ہے۔ این آئی اے کا عدالت سے رجوع کرنا کشمیری رہنما کے عدالتی قتل کی گہری سازش ہے۔ جن کشمیری لیڈروں کے کیس عدالتوں میں جاتے ہیں، ان کا نہ تو منصفانہ ٹرائل کیا جاتا ہے اور نہ ہی انھیں صحیح معنوں میں کسی قسم کی قانونی امداد ہی فراہم کی جاتی ہے۔ اس حوالے سے خود یاسین ملک کا کیس دنیا کے سامنے زندہ مثال ہے۔
ایڈووکیٹ عابد بھٹی نے بتایا کہ حریت کانفرنس کے شہید قائد اور بزرگ کشمیری لیڈر سید علی گیلانی اپنی زندگی میں بار بار کہتے رہے ہیں کہ بھارتی حکومت یاسین ملک اور سیدہ آسیہ اندرابی کے عدالتی قتل کی تیاریاں کر رہی ہے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ بھارتی ادارے این آئی اے کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے سازش کے تحت حریت لیڈروں کے خلاف مقدمات میں تیزی لائی گئی ہے اور بی جے پی حکومت ایک ایک کر کے سبھی کشمیری قائدین کو راستے سے ہٹانے کی کوشش کر رہی ہے۔ حقیقت ہے کہ اس وقت ہم کشمیر کی صورت حال کا جائزہ لیں تو سید علی گیلانی کی طرف سے کی جانے والی سبھی باتیں درست ثابت ہو رہی ہیں۔ بھارت سرکار جس طرح مساجد کی جگہ مندروں کی تعمیر اورہندوستانی مسلمانوں کے خلاف فیصلوں کے لیے عدالتوں کو استعمال کر رہی ہے۔ اسی طرح کشمیری لیڈروں کے خلاف بھی ہندوستانی عدالتوں سے اپنی مرضی کے فیصلے کروائے جارہے ہیں۔
یہ ہندوستانی عدلیہ کی اسی ناانصافی کا نتیجہ تھا کہ گزشتہ برس نئی دہلی کی پٹیالہ کورٹ نے جب یاسین ملک کو دو مرتبہ عمر قید کی سزا سنائی تو عدالت میں کشمیری لیڈر اور جج پراوین سنگھ میں مکالمہ بھی ہوا جس میں یاسین ملک نے جرا¿ت و بہادری کی نئی تاریخ رقم کرتے ہوئے کہا کہ میں یہاں کسی سے اپنی زندگی کی بھیک نہیںمانگوں گا۔ آپ نے جو سزا دینی ہے دے دیںلیکن میرے کچھ سوالات کا جواب بھی دیں۔ یاسین ملک نے جج کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر میں دہشت گرد تھا تو انڈیا کے سات وزیراعظم مجھ سے ملنے کشمیر کیوں آتے رہے؟ اگر میں دہشت گرد تھا تو اس پورے کیس کے دوران میرے خلاف چارج شیٹ کیوں نہ فائل کی گئی؟ اگر میں دہشت گرد تھا توسابق ہندوستانی وزیراعظم واجپائی کے دور میں مجھے پاسپورٹ کیوں جاری ہوا؟ اگر میں دہشت گرد تھا تو مجھے انڈیا سمیت دیگر ملکوں میں اہم جگہوں پر لیکچر دینے کا موقع کیوں دیا گیا؟ یاسین ملک نے جج سے مزید بھی چند ایک سوال کیے لیکن عدالت نے ان کے سوالات کومکمل طور پر نظر انداز کیا اور کہا کہ ان باتوں کا وقت گزر گیا، اب یہ بتائیں کہ آپ کو جو سزا تجویز کی گئی ہے اس پر کچھ کہنا چاہتے ہیں تو بولیے مگرجے کے ایل ایف لیڈر نے صاف طور پر عدالت سے زندگی کی بھیک مانگنے سے انکار کر دیا۔