عابد رشید کی ”دھنک“ 

Jun 06, 2023

نائیلہ خاور

عابد رشید صاحب نوّے کی دہائی میں ادبی منظر نامے پر ظاہر ہوئے۔ "دھنک " انکا پہلا مجموعہ کلام ہے۔ جس کا انتساب انہوں نے اپنے والدِ محترم کے نام کرتے ہوئے کہا کہ ان کے والد گرامی نے ہی ان کے دل میں ادب کی شمع روشن کی۔
 کتاب کا مقدمہ ڈاکٹر توفیق انصاری صاحب نے لکھا ہے۔
یہ 176 صفحات کی دیدہ زیب ٹائیٹل کے ساتھ شاعری کی ایک خوبصورت کتاب ہے جس میں حمد، نعت ،نظم اور غزل کا احاطہ کیا گیا ہے 
عابد رشید صاحب ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے شہر شکاگو میں رہائش پذیر ہیں۔ پیشے کے اعتبار سے انجینئر ہونے کے باوجود ان کا ادب سے گہرا تعلق ہے اور وہ امریکہ میں بیٹھ کر ادب کی بھر پور ترویج کا کام کر رہے ہیں ، سخن ور شکاگو اور حریمِ نعت ان کی فعال ادبی تنظیمیں ہیں۔ 
نعت کہنا غزل کہنے سے زیادہ مشکل کام ہے اور عابد رشید صاحب یہ مشکل کام نہایت جانفشانی اور روانی سے کر رہے ہیں۔ ان کی نعت میں جو حضوری اور وارفتگی پائی جاتی ہے وہ بہت کم شعرا کے حصے میں آتی ہے۔ عابد رشید صاحب اس معاملے میں نہایت خوش قسمت ہیں کہ انہیں ح±بّ رسولﷺ کی دولت میّسر آئی۔ 
آپ نے زیرِ نظر مجموعہ کلام میں غزل اور نظم ہر دو اصناف میں طبع آزمائی کی ہے اور کیا خوب کی ہے کہ ان کے کلام میں دانش و فکر کی گہرائی و گیرائی کما حقہ پائی جاتی ہے اور زندگی کے داخلی تجربات کا نچوڑ جابجا نظر آتا ہے.
غزل کی صنف میں وہ چھوٹی بحر (سہلِ ممتنع ) میں بھر پور طریقے سے اپنے خیال کی ترسیل کا کام کر رہے ہیں۔ اپنے اشعار میں وہ سادگی سے پر± کاری کرتے نظر آتے ہیں۔ ا±ن کی شاعری میں لاشعوری سطح پرخود کلامی کا عنصر پایا جاتا ہے۔
 اکثر اشعار میں جہاں وہ خود کو مشوروں سے نوازتے نظر آتے ہیں وہاں اپنے لیے ناصح کا رول بھی خود ادا کر رہے ہیں گویا زمانے کے سرد و گرم میں وہ آپ ہی اپنے استاد رہے ہیں۔ 
انہوں نے جس طرح روز مرّہ کے معاملات کو جد ید انداز میں اپنے اشعار میں ڈھالا ہے ا±س سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ سخن وری کی اعلی منازل تک جلد پہنچ جائیں گے۔
اللہ ا±ن کے رزقِ سخن میں برکت عطا کرے۔
اور اب ان کے چنیدہ اشعار ملاحظہ فرمائیے۔
ہم اس لیے بھی نہ نزدیک آ سکے عابد 
کہ ہم کو دور سے بہتر دکھائی دیتا ہے 
اجنبی سا جو خاندان میں ہے 
کوئی مجھ سا مرے مکان میں ہے 
آج پھر بات ہو نہیں پائی 
آج پھر ا±ن سے گفتگو ہی رہی 
عمر کٹ گئی اپنی ایک گھر بنانے میں 
کٹ رہی ہے باقی کی اب اسے بچانے میں 
ہوں میں اک ایسی کہانی کا مرکزی کردار 
جگہ کہانی میں جس کو بنانی پڑتی ہے 
زباں درازی کی منزل یونہی نہیں آتی 
کچھ اس سے پہلے کہیں بے زبانی پڑتی ہے 
عشق اور وہ بھی اک مکمل عشق 
اس سے بڑھ کر کوئی سزا ہی نہیں 
تم کہو تو ہم کہہ دیں بات ترکِ الفت کی 
ایسی عاشقی بھی کیا جو نہ ان کہی سمجھے 
حساب سودوزیاں کا تو ہو چکا کب کا 
تمہی بتاو¿ کہ اب اپنے درمیاں کیا ہے۔
٭....٭....٭

مزیدخبریں