بحرِاوقیانوس شمالی کے مغربی حِصّے میں پچاس ہزار مربع میل سے زائد پر محیط سمندری قطعے کو ”برمودا تکون“ یا ”مثلثِ ابلیس“ کہاجاتا ہے۔ اس طلسماتی تکون کے ساتھ بے شمار پراسرار داستانیں جڑی ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ آبی تکون اب تک پچاس بحری جہازوں اور بیس طیاروں کو ہڑپ کرچکی ہے۔ ہر حادثے کے ساتھ پر اسراریت میں لپٹی کوئی نہ کوئی مافوق الفطرت کہانی وابستہ ہے۔کیا ٹھہرے پانیوں میں تلاطم اٹھانے اور بھنور تخلیق کرنے والا مہم خو کپتان، تحریکِ انصاف کو ”برمودا تکون“ تک لے آیا ہے؟ لوحِ تقدیر کے نوشتے کوئی نہیں پڑھ سکتا۔ لیکن کرشمات اور معجزات کے تمام تر امکانات کے باوجود نہیں لگتا کہ کپتان، تحریکِ انصاف کے جہاز کو ”برمودا تکون“ کے خونیں جبڑوں سے نکال پائے گا یا خود سلامتی کے ساحل کو چھو سکے گا۔
سبب کیا ہے؟ صرف یہ کہ عمران خان اپنی سرشت، افتاد طبع اور ذہنی ساخت کے اعتبار سے کسی طور ایک سیاستدان نہیں۔ اپنی انا کے خول سے نکل کر کسی کو اہمیت دینے کا ظرف، نہ اپنی ضد سے بال برابراِدھرادھر ہونے کی گنجائش، نہ افہام وتفہیم کا حوصلہ، نہ اختلاف برداشت کرنے کو وسعتِ قلبی، نہ روایتی دسترخوان، نہ رسمی رکھ رکھا?، نہ میل ملاقات میں گرم جوشی، نہ دلداری، نہ خ±وئے دل نوازی۔ کم ازکم ہمارے ہاں کی سیاست کے اجزائے ترکیبی تویہی ہیں۔خان صاحب کو اپنے سوا سارے سیاستدان محض حشرات الارض دکھائی دیتے تھے۔ ا±ن پر آوازے کسے، تمسخر اڑایا، نقلیں اتاریں، نام بگاڑے، گالیاں دیں، چور، ڈاکو، اچکّے قرار دیا، اداروں کو دھمکیاں دیں، سول نافرمانی پر اکسایا اوراس سب کچھ کے ساتھ ساتھ ہر آن آمادہ فساد، مرنے مارنے پر ت±لے، آگ بگولہ نوجوانانِ بے سمت کا ایک گروہ تیار کرتے رہے جو کسی پہلو سے روایتی سیاسی کارکنوں سے کوئی مماثلت نہیں رکھتا تھا۔ اپریل 1996 میں تحریکِ انصاف کی بنیاد رکھنے سے اپریل 2022 تک کسی مرحلے پر بھی انہوں نے تحمل، ٹھہراﺅ، باہمی احترام اور تدبّر کو اپنی سیاسی فکر کے قریب نہ بھٹکنے دیا۔ ا±ن کی زبان نیزے کی اَنی بنی رہی اور وہ ستائیس برس، پیہم جنگجوئی اور جارحیت کی راہ پر چلتے رہے۔ یہ راہ ا±نہیں سازگار آئی۔ بہت کچھ کہنے، بہت کچھ کرنے کے باوجود بھٹو، نوازشریف، بے نظیر، آصف زرداری اور بے شمار دوسرے معتوب سیاستدانوں جیسی مشکلات ا±نہیں چھ±و کر بھی نہ گذریں۔ سو جنگجویانہ اور جارحانہ اندازِ سیاست کو وہ فاتحانہ پیش قدمی کا فارمولاسمجھنے لگے اور پارلیمانی جمہوری نظام یا مروجہ سیاسی سسٹم سے دور ہوتے چلے گئے۔
اپریل 2022 میں تحریکِ عدم اعتماد کا سامنا انہوں نے اسی شوریدہ سری اور بے حکمتی سے کیا۔ اسے امریکی اور عسکری سازش کا شاخسانہ قرار دے ڈالا۔ قاسم سوری کو ایک غیرآئینی رولنگ پر مجبور کیا۔ بات نہ بنی تو قومی اسمبلی توڑ ڈالی۔ اپنے سینئر راہنما?ں کے ساتھ کوئی مشاورت نہ کی کہ کیا سسٹم کے اندر رہنا بہتر ہوگا یا سڑکوں کا ر±خ کرنا ؟ جس دن وزیراعظم شہبازشریف نے حلف اٹھایا ا±س دن پوری تحریکِ انصاف قومی اسمبلی سے مستعفی ہوگئی۔ 342 کے ایوان میں وزارت عظمیٰ کےلئے 172 ووٹ درکار تھے۔ شہبازشریف 174 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے۔ ایک لمحے کو آنکھیں بند کرکے تصور کیجئے کہ اگر عمران خان شوریدسری کے بجائے تحمّل سے کام لیتے تو منظرنامہ کتنا مختلف ہوتا؟ اپوزیشن نہایت توانا ہوتی اور معمولی اکثریت کی حامل حکومت ٹکٹکی پر چڑھی رہتی۔ راجہ ریاض کے بجائے خود عمران خان قائد حزب اختلاف ہوتے۔ مہنگائی، بے روزگاری جیسے عوامی مسائل کا ماتم کرتے۔ لاقانونیت اور دہشت گردی کی ہر واردات پر حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے۔ خارجہ پالیسی کی لغزشوں کو اجاگر کرتے۔ نیب چیئرمین‘ الیکشن کمشن کے ارکان اور ججوں کی تقرریوں میں ا±نکی منظوری شامل ہوتی۔ طاقتور پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی، نور عالم خان کے بجائے ا±ن کے کسی معتمد کے ہاتھ میں ہوتی اور ہر روز ایک ناٹک لگا ہوتا۔ حکومت کےلئے معمول کی قانون سازی بھی جوئے شیر لانے کی مترادف ہوتی۔ بجٹ منظور کرانے کےلئے جان کے لالے پڑ جاتے۔ قومی اسمبلی کی متعدد قائمہ کمیٹیاں ا±نکے ہاتھ میں ہوتیں۔ سینٹ میں ا±نکے ارکان کی تعداد کم وبیش سرکاری ارکان کے برابر ہونے کے باعث سنجیدہ مسائل کھڑے کررہی ہوتی۔ پنجاب، خیبرپختون خوا، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں پی۔ٹی۔آئی کی حکمرانی کا ڈنکا بج رہا ہوتا۔ 2023 کے انتخابات کا مرحلہ آتا تو وفاق، پنجاب اور خیبرپختون خوا کی نگران حکومتیں عمران خان کی مشاورت سے بنتیں۔ وہ سسٹم کی جولاں گاہ کے سب سے بڑے کھلاڑی کے طور پر للکار رہے ہوتے اور پی۔ڈی۔ایم خود خان صاحب کے گناہوں کا پشتارہ اٹھائے پناہ گاہیں ڈھونڈ رہی ہوتی۔ انہیں کسی سے مذاکرات کی بھیک مانگنا پڑتی نہ اس بحث کا دروازہ کھلتا کہ پی۔ٹی۔آئی سیاسی جماعت ہے یا دہشت گرد تنظیم۔
اب آنکھ کھول کر ا±س منظر پہ ایک نگاہ ڈالیئے جو خان صاحب کی شورش پسندی اور بے ہنگم معرکہ آرائی نے تخلیق کیا ہے۔ آئین اور نظام کے دائرہ کار کو س±ست رفتار اور بے کیف سمجھ کر انہوں نے تمام اسمبلیوں کو لات ماری اور تصادم وپیکار کی راہ پر چل نکلے جو ہمیشہ انہیں بہت مرغوب رہا۔ متحمل مزاج، باشعور اور جمہوری جدوجہد کا سلیقہ رکھنے والے کارکن تیار کرنے کے بجائے انہوں نے بارودی سرنگیں تیار کیں۔ اقتدار سے محرومی کے بعد پورا ایک سال، انقلاب، تبدیلی، نیاپاکستان اور حقیقی آزادی کے نعرے لگاتے اور نوجوانوں کی رگوں میں تیزاب بھرتے رہے۔ 9 اور 10 مئی کو جو کچھ ہوا، وہ خان صاحب کے خوابوں کی تعبیر تھا۔ اپنی سپاہ کو سینت سنبھال کر رکھنے اور وقت آنے پر اس کا ر±خ پولنگ سٹیشنوں کی طرف موڑ دینے کے بجائے اسے قومی دفاع کی مقدس علامتوں اور شہداءکی یادگاروں کو نذرِآتش کرنے پر لگادیا۔ ہوا یہ کہ ا±ن کی سیاست اور وہ خود بھی اس آگ میں بھسم ہوگئے۔
علامہ اقبال نے کوئی ایک سو سال پہلے کہا تھا
دہر میں عیشِ دوام آئیں کی پابندی سے ہے
موج کو آزادیاں سامانِ شیون ہوگئیں
(دنیا میں ہمیشہ کی خوشی اور آسودگی صرف آئین اور دستور کے ساتھ جڑے رہنے میں ہے۔ پانی کی جو موج، دریا یا سمندر سے بغاوت کرتے ہوئے آزاد ہوجاتی ہے، ا±س کی قسمت میں رونے دھونے اور ماتم کے سوا کچھ نہیں ہوتا)علّامہ ہی نے یہ بھی کہا تھا کہ
موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں
عمران خان کی پوری سیاسی زندگی اس طرح کے نظم سے عاری رہی۔ آئین ودستور کے تقاضوں، پارلیمانی نظام کی حدودوقیود اور مسلّمہ جمہوری روایات کو انہوں نے اپنے پاﺅں کی زنجیریں جانا۔ سو وہ سسٹم کے دریائے س±ست خرام سے نکل کر تصادم وپیکار، محاذ آرائی، جنگ وجدل اور فتنہ وفساد کے بپھرے سمندر کی طرف جانکلے اور آج ا±ن کا جہاز ”برمودا تکون“ میں شکست وریخت سے دوچار ہے۔ اسکی ساری چ±ولیں ہل گئی ہیں۔ بادباں عاشق کے دامانِ دریدہ کی طرح تارتار ہورہے ہیں، فولادی مستول ٹوٹ ٹوٹ کر گِر رہے ہیں۔ چرچراتے ہوئے تختے ایک دوسرے سے جدا ہورہے ہیں۔ عرشے پر کہرام مچا ہے۔ مسافر ایک دوسرے کو دھکے دیتے ہوئے چھلانگیں مار رہے ہیں۔ کسی کو کچھ خبر نہیں اس کا انجام کیا ہوگا؟ بس ایک ہی ترجیح ہے کہ غرقاب ہوتے جہاز کو فی الفور چھوڑ دیا جائے اور آخری تختے سے لپٹا شکست خوردہ کپتان بھرّائی ہوئی آواز میں بے مہر موجوں سے کہہ رہا ہے ”میں تنہا ہوگیا ہوں۔ مجھے اکیلا کردیا گیا ہے۔“ کون کہے کہ ”اے کپتان! یہ سب تمہارا اپنا کیا دھرا ہے۔“ کون بتائے کہ سرکشی اور تلاطم خیزی کو اپنا تفاخر سمجھنے والا مہم جو± زعمِ تسخیر میں ایسی ہی ’برمودا تکون‘ کا رزق ہوجاتا ہے۔ کون سمجھائے کہ آئین ودستور اور سسٹم خود سے بغاوت کرنےوالوں کو اسی طرح دشتِ بے چارگی میں پھینک دیتا ہے۔ کون باور کرائے کہ جب خودپسندی، خود پرستی کو چھونے لگتی ہے، تو خدافراموش شخص خود اپنی انا کا یرغمالی بن کے رہ جاتا اور دانشمندانہ فیصلوں کی صلاحیت کھو بیٹھتا ہے۔
یاس یگانہ چنگیزی یاد آرہا ہے
خودی کا نشہ چڑھا آپ میں رہا نہ گیا
خدا بنے تھے یگانہ مگر بنا نہ گیا
٭....٭....٭