شدید غذائی قلت کا خدشہ اور سیاسی عدم استحکام

پاکستان اور افغانستان جس خطے میں واقع ہیں وہاں موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات اس تیزی سے بڑھ رہے ہیں کہ آنے والے برسوں میں یہاں غذائی اجناس کی پیداوار مذکورہ اثرات کے باعث بری طرح متاثر ہونے کے امکانات دکھائی دے رہے ہیں۔ اس سلسلے میں اقوامِ متحدہ اور اس کے ذیلی ادارے بھی بار بار خبردار کررہے ہیں۔ ایک تازہ رپورٹ میں اقوام متحدہ کے دو اداروں فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (ایف اے او) اور ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی) نے افغانستان اور پاکستان میں شدید غذائی عدم تحفظ کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ مذکورہ اداروں کی جون سے نومبر تک شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں افغانستان اور پاکستان میں غذائی قلت سے خبردار کرتے ہوئے سیاسی بحران کو اس کی وجہ قرار دیا گیا ہے۔ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ پاکستان میں 8.5 ملین سے زائد افراد کو ستمبر اور دسمبر 2023ءکے درمیان شدید غذائی عدم تحفظ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
اس رپورٹ میں پاکستان کو ان ممالک کے ساتھ کھڑا دکھایا گیا ہے جو مستحکم ممالک شمار نہیں کیے جاتے۔ ڈبلیو ایف پی کا رپورٹ میں کہنا ہے کہ پاکستان، وسطی افریقی جمہوریہ، ایتھوپیا، کینیا، کانگو اور شامی عرب ممالک تشویش ناک حد تک خوراک کی کمی کا شکار ہونے کے دائرے میں ہیں جبکہ افغانستان میں 70 فیصد لوگوں کو دن میں دو وقت کا کھانا نہیں ملتا۔ رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں اس کی وجہ سیاسی انتشار کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے بیل آوٹ پیکیج میں مسلسل تاخیر ہے۔ پاکستان کو آئندہ 3 برسوں میں 77.5 بلین امریکی ڈالر ادا کرنے ہیں۔ لوگوں کی خوراک اور دیگر ضروری اشیاءخریدنے کی سکت ختم ہوتی جا رہی ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر پاکستان میں معاشی اور سیاسی بحران اور سرحدی علاقوں میں سکیورٹی کی صورتحال بدستور خراب ہوتی رہی تو کوئلے اور خوراک کی برآمدات میں بھی کمی واقع ہوسکتی ہے۔
ظاہر ہے اس صورتحال میں صرف موجودہ ہی نہیں بلکہ آنے والی حکومتوں کو بھی کئی ایسے اقدامات کرنا ہوں گے جن کے ذریعے ملک کو سنگین مسائل سے نکلنے میں مدد مل سکے۔ جہاں تک موجودہ حکومت کا تعلق ہے تو اس کی آئندہ مالی سال کے بجٹ سے متعلق جو تیاری چل رہی ہے اس سے تو ایسا ہرگز ظاہر نہیں ہورہا کہ وہ ان مسائل سے واقف ہے جن کی طرف اقوامِ متحدہ کے مذکورہ اداروں نے اپنی رپورٹ میں اشارہ کیا ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار نئے مالی سال کے وفاقی بجٹ کو تاجر اور کاروبار دوست تو قرار دے رہے ہیں لیکن خوراک کی قلت اور موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے اقدامات کرنے کے لیے اس بجٹ میں کوئی مد رکھی گئی ہے یا نہیں، اس کا ابھی تک کہیں ذکر بھی سننے میں نہیں آیا۔ اسحاق ڈار بجٹ کے ذریعے عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف فراہم کرنے کا عندیہ دیتے بھی نظر نہیں آئے۔
بجٹ کے ذریعے کیے جانے والے انتظامات تو ایک طرف، مذکورہ رپورٹ میں جس سیاسی بحران کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اس پر قابو پانے کے لیے بھی کوئی حکمت عملی دکھائی نہیں دیتی بلکہ مختلف جماعتوں کی سیاسی قیادت کی طرف سے جس قسم کے بیانات سامنے آرہے ہیں اس سے ایسا لگتا ہے کہ کوئی بھی اپنی انا اور مفاد ترک کرنے کو تیار نہیں ہے۔ سیاسی جوڑ توڑ کا سلسلہ اپنے عروج پر ہے اور ساتھ ہی پاکستان تحریک انصاف سے وابستہ افراد کے خلاف ہونے والی کارروائیاں بھی انتہا کو پہنچی ہوئی نظر آرہی ہیں۔ اسی سلسلے میں قومی احتساب بیورو (نیب) نے 19کروڑ پاونڈز کی غیر قانونی منتقلی کے کیس میں سابق وفاقی کابینہ کے 22 ارکان کے خلاف تحقیقات کا آغاز کردیا ہے۔ ان افراد پر الزام یہ ہے کہ انھوں نے بحیثیت سرکاری عہدیدار ذاتی مفاد کے لیے 19 کروڑ پاونڈز کی غیر قانونی منتقلی میں معاونت کے لیے اختیارات کا غلط استعمال کیا۔ ادھر، پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ اور پی ٹی آئی کے مرکزی صدر چودھری پرویز الٰہی کو لاہور کی عدالت نے پنجاب اسمبلی میں جعلی بھرتیوں کے کیس میں محکمہ انسدادِ بدعنوانی کی جسمانی ریمانڈ کے لیے استدعا مسترد کرتے ہوئے انہیں 14 روز کے لیے جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا ہے۔
سیاسی جوڑ توڑ کے سلسلے میں پی ٹی آئی کو چھوڑنے والے ہم خیال ارکان نے کسی بھی دوسری پارٹی میں شمولیت کی بجائے ’ڈیموکریٹس‘ کے نام سے ایک نیا گروپ بنانے کا اعلان کر دیا ہے۔ اس حوالے سے سابق صوبائی وزراءڈاکٹر مراد راس اور ہاشم ڈوگر کی زیر صدارت پی ٹی آئی سے راہیں جدا کرنے والے ہم خیال ارکان کا اجلاس ہوا جس میں گروپ کا نام فائنل کیا گیا۔اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ ہم خیال اراکین جہانگیر ترین گروپ کے ساتھ فی الحال نہیں جائیں گے اور ڈیموکریٹس کے نام سے اپنی الگ شناخت رکھیں گے۔ دوسری جانب، پنجاب میں مقامی سطح کے کئی سیاستدانوں کے پاکستان پیپلز پارٹی میں شریک ہونے کا سلسلہ بھی جاری ہے اور اتوار کو اس سلسلے میں گوجرانوالہ اور حافظ آباد کی 3 سیاسی شخصیات نے پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری سے ملاقات کر کے پارٹی میں شمولیت کا اعلان کیا۔ 
سیاسی جماعتیں جس طرح جوڑ توڑ میں مصروف ہیں اس سے ایک حد تک تو سیاسی استحکام آ جائے گا لیکن ملک کو سنگین معاشی مسائل سے نکالنے اور موسمیاتی تبدیلیوں کے بدترین اثرات سے بچنے کے لیے جس طرح کی حکمت عملی کی ضرورت ہے اسے تشکیل دینا تمام سٹیک ہولڈرز کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے کیے بغیر ممکن نہیں۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ سیاسی قیادت کو محض انتخابات جیتنے اور حکومت بنانے کے لیے ہی نہیں بلکہ ملک اور عوام کے وسیع تر مفاد میں طویل مدتی بڑے اور اہم فیصلے کرنے کے لیے اکٹھا ہونا پڑے گا۔ اقوامِ متحدہ کے ذیلی اداروں کی رپورٹ میں سیاسی بحران کو ملک کے معاشی مسائل کی وجہ قرار دے کر ہماری سیاسی قیادت کو یہ بتایا گیا ہے کہ سیاسی استحکام کے بغیر معاشی استحکام ممکن نہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آئندہ دنوں میں سیاسی قیادت متحد ہو کر سنجیدگی سے ان مسائل کو حل کرنے کے لیے کوئی لائحہ عمل ترتیب دیتی ہے یا سیاسی کشمکش کا سلسلہ یونہی جاری رہتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...