سردار نامہ … وزیر احمد جو گیزئی
wazeerjogazi@gmail.com
جمہور کی آواز کو دبانے سے مسائل کا حل نہیں ہوا کرتا ہے ،یہ معاملہ کا حل نہیں ہے ،یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارے ملک میں جمہوریت کمزور رہی ہے اور پہلے وزیر اعظم شہید لیاقت علی خان کے شہید ہونے کے بعد اس ملک میں جمہوریت اصل شکل میں آہی نہیں سکی ہے۔ملک میں جمہوری اقدار اور اہداف کو پانے کے لیے آپ کو اپنے آپ کو جمہوری کردار سے لیبریز کرنا ہو گا۔کبھی بھی کسی بھی سیاسی جماعت کو بین کرنے یا پھر اس پر پابندی لگانے سے اس جماعت کی سیاسی سوچ ختم نہیں ہو جاتی ہے۔بلکہ یہ سوچ کسی اور شکل میں نمودار ہوتی ہے اور کسی نہ کسی طرح سے آگے بڑھتی ہی رہتی ہے۔جبر سے سوچ کو ختم نہیں کیا جاسکتا ہے۔سوچ کسی اور شکل میں نمودار ہو جاتی ہے جیسے کہ کہا جاتا ہے کہ old) wine in a new bottle)یہ ایسا ہی کام ہو تا ہے۔ہم نے پاکستان میں 1953ئ کے بعد جو بھی سیاسی جماعتیں دیکھی ہیں ،سوائے ایک محدود وقت کے وہ آگے نہ بڑھ سکی ہیں اور ایک حد سے زیادہ کوئی بھی کردار ادا نہیں کر سکیں ہیں۔پاکستان کی بد قسمتی رہی ہے کہ یہاں پر جمہوری کلچر کو پروان نہیں چڑھایا گیا ہے۔سوائے پاکستان پیپلز پا رٹی کے کوئی بھی جماعت بطور جماعت کوئی خا طر خواہ کامیابی حاصل نہیں کر سکی ہے۔پاکستان پیپلز پا رٹی ذو الفقار علی بھٹو کی قیادت میں ایک ایسی جماعت تھی جو کہ پاکستان کے عمومی سیاسی نظیر سے فرق تھی ،لیکن یہ جماعت بھی اپنی اصل شکل میں برقرار نہیں رہ سکی اور اس کا بھی وہی حال ہوا جو کہ مسلم لیگ کا ہوا۔لہذا آج ہمیں ماضی سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔سیاسی جماعتوں کو بنانے اور مٹانے والا کام نہیں کرنا چاہیے۔نہ ہی قیادت کو غیر فطری طریقے سے سیاست سے دور کرنا چاہیے۔سیاسی جماعتوں پر قدغن لگانے کا عمل ماضی میں بھی ناکام رہا ہے اور اب بھی ناکام رہے گا۔لیکن یہ بات بھی حقیقت ہے اور اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ یقینا پاکستان تحریک انصاف سے بطور جماعت غلطی ہو ئی ہے اور اس با ت کا اعتراف کرنا چاہیے اور اس غلطی کی کو ئی بھی معافی نہیں ہے اور یہ بات ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے۔پارٹی کو اس حوالے سے اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے اور غور کرنے کی ضرورت ہے کہ آخر کیا وجہ بنی ہے کہ معاملات کو اس حد تک خراب کر دیا گیا ہے اور بات یہاں تک پہنچ گئی ہے۔یہ نہایت ہی افسوس ناک بات ہے کہ ملک ان حالات سے دوچار ہے۔اور آخر ملک کو ان حالات سے نکالنا کس طرح ہے یہ کسی کو معلوم نہیں ہے۔سیاسی طلاطم خیزی کے ماحول میں ایک ٹھہر ائو کی ضرورت ہو تی ہے ،ایک ہو ش مندی کی ضرورت ہوتی ہے جو کہ ہمارے سیاست دانوں میں پائی نہیں جاتی ہے ہمارے سیاست دان کئی محاذوں پر ناکام ہو ئے ہیں۔اس بات کو بھی ماننے کی ضرورت ہے۔سیاسی جماعتوں کو یہ بھی سوچنے کی ضرورت ہے کہ آخر ملکی تاریخ سے کھلو اڑ کیوں کرنا چاہتے ہیں ؟ شہیدا کی یا د گاروں اور مزارات پر اس انداز میں حملے کرنا کسی طور پر بھی ایک مناسب عمل نہیں ہے۔یہ کو ئی قومی خدمت نہیں ہے۔یقینا اس حوالے سے لیڈرشپ کے مزاج میں کوئی فتور ہو گا اور کوئی کوئی غرور ہو گا ،جس کے نتیجے میں اللہ نے اس لیڈرشپ سے یہ کام کروا دیا ہے اور اب اس کام کی پاداش میں تحریک انصاف کو اس کا نتیجہ بھگتنا پڑے گا۔پاکستان اس وقت ایک نہایت ہی نازک دور سے گزر رہا ہے اور ملک کو ان حالات سے نکالنے کے لیے ہمیں اور ہماری قومی قیادت کو ایک اجتماعی عقل اور دانش کی ضرورت ہے لیکن ہماری قیادت اس حوالے سے اپنے آپ کو منو نہیں سکی ہے۔یہ یقینا الیکشن کا سال ہے اور اور اگر اس الیکشن میں پاکستان تحریک انصاف پر پا بندی لگتی ہے تو پھر اس پا بندی کے نتیجے میں اگر الیکشن پاکستان تحریک انصاف کے بغیر ہوتے ہیں تو پھر ان الیکشن کی اہمیت نہیں رہے گی اور یہ الیکشن ایک ڈھونگ ہی بن کر رہ جا ئیں گے۔ہمیں ماضی کی روایات سے ہٹنے کی ضرورت ہے۔پاکستان کا جمہوری لا ئنز پر آنا بہت ضروری ہے جمہوریت ہی ہے جو کہ پاکستان کو آگے بڑھا سکتی ہے اور پاکستان کو ترقی کی راہ پر ڈال سکتی ہے۔الیکشن کے لیے ایک لیول پلئنگ فیلڈ ہونا بھی بہت ضروری ہے کیو نکہ ایک لیول پلیئنگ فیلڈ نہ ملے تو پھر ایکشن کے بعد میں نہ مانوں کی رٹ شروع ہو جاتی ہے۔اور ایسے کسی بھی الیکشن میں جس کہ spectrum میں تمام سیاسی جماعتیں برابر حصہ دار نہ ہوں وہ الیکشن مطلوبہ نتائج نہیں دے سکتا ہے۔پاکستان اس وقت کثیر الجہتی بحرانوں کا شکار ہے اور ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت اس بجٹ میں اپنے خرچے کم کرے۔حکومت کے سائز کو چھوٹا کیا جانا چاہیے۔حکومت کی شاہ خرچیوں کو کم کرنا ضروری ہے۔اسے حالات میں بہتری لا ئی جاسکتی ہے۔18ویں ترمیم کے بعد بہت سارے محکمے ایسے ہیں ،جو کہ صوبوں کو منتقل کر دیے گئے ہیں لیکن اس کے با وجود وہ وفاق کے پاس موجود ہیں اور ان کے اخراجات بھی وفاق ہی اٹھا رہا ہے۔یہ سلسلہ کو بند کرنے کی ضرورت ہے۔وزارت ہاوسنگ کے معاملات پر اسر نو جائزہ لینے کی ضرورت ہے ،سرکاری ملا زمین کو رہائش گاہیں جاری کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے ،سرکاری رہائش گاہوں کو بیچ دیا جائے تو آدھا بجٹ اس سے پورا کیا جاسکتا ہے ،اس کے ساتھ ہی ہاوسنگ سیکٹر میں کرپشن کا بھی خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔لیکن شاہد کرپشن چونکہ ہماری شہ رگ بن چکی ہے اس لیے ،اس شہ رگ کو کا ٹنے والا کوئی خوش قسمت ہی ہو گا۔لیکن ایسا کوئی بھی شخص سامنے آتا ہوا دیکھائی نہیں دیتا ہے جو کہ صرف زاتی مفادات اور نعرہ بازی تک نہیں بلکہ حقیقی معنوں میں کرپشن کے خاتمے کے لیے کچھ کر سکے۔
جمہوری کلچر کو پروان کیجئے
Jun 06, 2023