چپ کا سفر شاز کی آواز شاز نامہ

شاز ملک فرانس
‘‘زندگی شور کا سفر ہے جس میں  چپ کے بھید چھپے ہو? ہیں اور موت خاموشی کا سفر ہے جس میں شور کا اسرار بھرا پڑا ہے 
عجیب بات یہ ہے کہ ہم نہ شور کو زیادہ جھیل سکتے ہیں اور نہ چپ کو زیادہ برداشت کر سکتے ہیں ہم میں اتنا صبر نہیں ضبط نہیں شعور نہیں۔برداشت نہیں۔اسلئیے کہ رب تعالی نے ہماری مٹی کوگوندھتے وقت اس میں اعتدال کے پانی کی بھی آمیزش کی ہے۔ ہم ایک حد تک ہر چیز کو برداشت کر سکتے ہیں۔۔اگر وہ حد گزر جا? تو ہماری قوت برداشت ختم ہو جاتی ہے۔۔  اور اس دور خلفشار میں ہمارے پاس رہ ہی کیا گیا کم ہمتی لا علمی ہم اس جدید سہولیات سے آراستہ دنیا کے باسی ہیں جہاں ہر شخص بے سکون ہے۔’’ہم سب اندر ہی اندر شور سے اکتا? اور چپ کے ستا? ہو? ہیں ‘‘
۔آج ہم دیکھیں تو ھم قرب قیامت کے اس دجالی دور میں جی رہے ہیں جہاں وہ سب نشانیاں ظہور پذیر  ھو چکی ھیں جن کے بارے میں آقا صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔۔۔
‘‘اس دجالی دور میں انسانوں کی کثرت ھے مگر انسانیت سے دور کا رابطہ نہیں۔۔رشتوں کی تقدیس و تعظیم ادب آداب خاک میں مل چکے ھیں جیسے حیوان کا انسان سے واسطہ نہیں۔۔۔اپنے لئیے جینا مقدم ٹہرا۔۔‘‘ زبانیں منافقت کی مٹھاس سے لتھڑی ہوئیں ہیں مگر دل بغض کی کھٹاس سے لبریز’’
  ہماری آنکھیں قرب قیامت کی نشانیاں پوری ہوتے دیکھ رہی ہیں ہم اس بات سے مکمل آگاہ ہیں کہ ہم قربِ قیامت کے دجالی دور کی راہوں پر زندگی کا سفر طے کر رہے ہیں۔جہاں ہر قدم شر کے کانٹے بکھرے پڑے ہیں۔تو بس ہمیں اپنے رب کی محبت اور آقا صل اللہ وسلم کے عشق کو دل میں بسا کر ایمان کے رستے پر ہی ثاپت قدمی سے چلتے رہنا چاہئیے۔۔ جبکہ سچ تو یہ ہے کہ  
کبھی کبھی دل خاکسار میں ایسی خواہش جاگتی ہے اسے لگتا ہے  کے اسے اس ہنگام دنیا کو چھوڑ دینا چاہیے اپنی خواہشوں کے کاسے کو اپنے ہی ہاتھوں سے طلب کی قحط زدہ زمین پر پھینک کر توڑ دینا چاہییمحفلوں سے کنارہ کش ہو کر تنہائی  کی چادر تن رسیدہ و بوسیدہ پر اوڑھا کر خاموشی کے جنگل میں بنی چپ کی جھونپڑی میں جا کر سکھ کا سانس لیتے ہوئے گوشہ نشین ہو جانا چاہیے جہاں شور کی وحشتوں سے پرے خاموشی کے ساحل پر بچھیسکون کے سفید پردوں میں روح کو خود کو کھوجتے ڈھونڈھتے کہیں دور بہت دور گم ہو جانا چاہیے ،اسے سب کی نظروں میں نہیں آنا چاہییاسے بچنا ہیاس نظربد سے جو پارسائی کے بدن کو اپنی خواہش کے نوکیلے خار چبھو کر دریدہ کر دیتی ہے۔۔۔احساس کے فلک پر اڑان بھرتے تمنا کے پرندے کو پر بریدہ کر دیتی ھے  جو دل کے پھول کی مہکی مہکی پاکیزہ سی نشیلی خوشبو کو کسیلا کر دیتی ھے فانی سے اس ظاہری خاکی جسم کے ساتھ ساتھ لافانی روح کو بھی میلا کر دیتی ھے۔جہاں گمان کے جلتے چراغ دھواں دیتے ہیں تو یقین کے بدن آگہی کے کرب کی آگ میں جل کر راکھ ہوتے ہیں اور فنا کے چاک پر رکھے سارے ہی ابہام خاک ہوتے ہیں سب دھوکہ ہے سب موہ مایا کا جال ہے جی کا جنجال ہیکیوں کے خود انسان ہی واسطے انسان کے وجہِ وبال ہے۔۔
سو اس دجالی دور میں اولین و آخری سہارا  دعا کا ہے۔۔ بس دعائیں کرتے ہو? خالق کون و مکاں سے رحم اور عافیت کی دعا کرنی چاہئیے دعا ہے کہ رب تعالی دین سے بے لوث محبت اور عبادات کے نور میں لپٹی  سکون کی زندگی عطا فرما? اور موت کا سفر جو چپ کا سفر ہے اسے ابدی آسان بنا? آمین ثمہ آمین 

ای پیپر دی نیشن