تحریر:محمد اصغر
حالیہ ہفتوں کے واقعات نے ملک کا سیاسی منظرنامہ بدل کر رکھ دیا ہے۔ پی ٹی آئی اور سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان تناؤ انتہاکو پہنچ گیا ہے اورپی ٹی آئی کو بڑے پیمانے پر ٹوٹ پھوٹ کا سامنا ہے۔اسد عمر،پرویز خٹک عمران اسماعیل ، علی زیدی ،عثمان بزدار، خسرو بختیار،فواد چوہدری ،ڈاکٹر شیریں مزاری اور عامر کیانی سمیت کئی اہم رہنما اور سابق ممبران قومی و صوبائی اسمبلی پارٹی چھوڑ چکے ہیں اور بہت سے نکلنے کے لیے کمر بستہ ہیں۔9 مئی 2023ء کو سابق وزیر اعظم عمران خان نیباغی بن کراپنے ہی سلیکٹرز کو للکار دیا جس نے اسٹیبلشمنٹ کو شدت کے ساتھ جوابی وار کا جواز فراہم کردیا۔تحریک انصاف کے کئی ہزار حامیوں کو حراست میں لے لیا گیا ہیاور شنید ہے کہ ان میں سے کچھ پر فوجی اور کچھ پر انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں مقدمہ چلایا جائے گا۔سول عدالتوں کی بدولت پی ٹی آئی کے بڑے رہنماؤں کو ریلیف تو مل رہا ہے اور وہ پریس کانفرنس کرکے پوتر ہو رہے ہیں لیکن کارکنوں کے گرد گھیرا تنگ ہوتا جا رہا ہے۔اب عمران خان کی سیاسی قسمت کا انحصار اس بات پر ہے کہ پی ٹی آئی کب تک اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ کو برداشت کرسکتی ہے۔
عمران خان نیکچھ سال قبل بڑیتکبر سے کہا تھا کہ ’’ہم اسٹیبلشمنٹ کے لیے واحد انتخاب ہیں‘‘لیکن آج کھیل بدل گیا ہے۔ عمران خان کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ نیمفاہمت کے تمام دروازے بند کردئیے ہیں اوراتحادی حکومت بھی مذاکرات سے انکاری ہے۔عمران خان کو یقین تھا کہ قوت کا مظاہرہ کرکے وہ طیب اردگان کی طرح اسٹیبلشمنٹ کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کردیں گے۔اْنہوں نے براہ راست پہلے ڈی جی (سی) اور پھر سپہ سالار کو ہدف بنایا اور الزام لگایا کہ اقتدار کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے اْن کے راستے میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔اْنہوں نے اپنی تقریروں اورسوشل میڈیا کے ذریعیاپنے کارکنوں کو یہ یقین دلایا کہ مقتدر حلقوں میں اْن کی بہت بڑی سپورٹ موجود ہے۔جس سے کارکنوں کی توقعات اورجذبات بھڑک اْٹھے۔ 9 مئی 2023ء کے پْرتشدد مظاہروں ، فوجی تنصیبات پر حملوں،وسیع پیمانے پر پْرتشدد کاروائیوں اور خاص طور پر شہید فوجیوں کی یادگاروں کی توڑ پھوڑ نے اعلیٰ مقتدر حلقوں میں شدید ردعمل پیدا کردیا اور سیکیورٹی ایجنسیوں کو پی ٹی آئی کے حامیوں کے خلاف زبردست کارروائی کا موقع مل گیا۔ سینکڑوں رہنماؤں اور ممبران اسمبلی اور ٹکٹ ہولڈرزنے پارٹی چھوڑ دی۔حالات کی نزاکت کودیکھتیہوئے مجبوراً عمران خان نے کئی دن بعد چھانیوں پر حملوں کی مذمت کردی لیکن اسٹیبلشمنٹ ، جو کچھ ہوا، اْسے فراموش کرنے کو تیار نہیں ہوئی۔ آئی ایس پی آرنے9 مئی 2023ء کے واقعات کو ملکی تاریخ کا ’’سیاہ باب‘‘ قرار دیا۔
عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان شدید محاذ آرائی نے پی ڈی ایم /پی پی پی کے حکمران اتحاد کو سہارا دیاہے۔ پی ڈی ایم/پی پی پی کی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی وسیع میڈیا مہم نے پی ٹی آئی کو نہ صرف بیک فٹ پر کھڑا کر دیا بلکہ اب پی ڈی ایم کی پوری کوشش ہے کہ پی ٹی آئی کو دہشت گرد گروپ قرار دیکر پابندی لگا دی جائے یا کم از کم عمران خان کو انتخابی میدان سے نکال باہر کیاجائے۔ ماضی میں مائنس ون فارمولہ کی باتیں ہوتی رہی ہیں ۔ جوکامیاب نہ ہوسکیں لیکن عمران خان نے بھی اپنی سیاست کا خودخاتمہ کر نے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اْن کے بدلتے بیانیے اْن کی ساکھ پر سوالات اْٹھاتے رہیہیں۔ وہ اپنی حکومت کی برطرفی کے لیے امریکی سازش کے دعویٰ سے توبہ تائب ہو چکیہیں۔ اب وہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ پر دباؤ ڈالنے کے لیے امریکی قانون سازوں کا سہارا لیرہیہیں۔ پارٹی تو شاید ختم نہیں ہوسکتی البتہ پی ٹی آئی کی صفوں میں حوصلے پست ضرورہوئے ہیں۔متوسط طبقے میں حمایت کے باوجود پی ٹی آئی سختی برداشت نہیں کر پارہی۔ عمران خان کی سیاست نے جمہوری عمل کو اتنا کمزور کردیا ہیکہ اسٹیبلشمنٹ مزیدمضبوط ہوگئی ہے اور سول بالادستی ختم ہو کر رہ گئی ہے۔
جس چیز نے پی ٹی آئی اور عمران خان کی حالت زار کو مزید خراب کیا ہے وہ ماضی میں اْن کااہم سیاسی جماعتوں سے اپنے آپ کو الگ تھلگ رکھنا اور اْن سے ہاتھ ملانے سے انکار کرنا ہے۔ آج اْن کیلئے کوئی جمہوری اور سیاسی قوت آنسو بہانے کے لئے تیار نہیں۔ اپنے تکبر میں وہ یہ سمجھنے میں ناکام رہے کہ جمہوری عمل کے ذریعے ہی وہ اقتدار میں واپس آسکتے ہیں۔وہ پی ڈی ایم حکومت کی ناقص پالیسیوں سے عوام کی ناراضگی کی وجہ سے بڑے پیمانے پر عوامی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب رہے لیکن اپنی حکومت میں وہ سیاسی ومعاشی اصلاحات کرنے میں مکمل ناکام رہے۔ پاپولزم کی اپنی حدود ہیں، جنہیں عمران خان کبھی سمجھ نہیں پائے۔عمران خان نے بیک وقت حریف سیاسی حریفوں اور اسٹیبلشمنٹ کو آڑے ہاتھوں لیا جس کی قیمت آج انہیں ادا کرنی پڑ گئی ہے۔ پارٹی جس طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوچْکی ہے، اْس میں دیکھنا یہ ہے کہ کیا عمران خان حقیقت کی دنیا میں واپس آئیں گیاور اپنی جماعت کو دوبارہ منظم کر پائیں گییا نہیں؟ قرائن اور ماضی کے تجربات بتاتے ہیں کہ شاید وہ ایسا نہ کرسکیں۔عمران خان کا 9 مئی کے واقعات کے ذمہ دار کارکنان سیلاتعلقی کا اعلان اور ٹوٹ پھوٹ کے بعد پی ٹی آئی کیمخلص کارکن اپنے آپ کوبے یارو و مدگار محسوس کرتیہیں۔ وہ ’’تبدیلی‘‘ اور ’’مدینہ کی ریاست‘‘ کا خواب دیکھتے تھے لیکن آج اْن کے خواب بکھر گئے ہیں۔ اْن کی اْمیدیں نا اْمیدی میں تبدیل ہو گئی ہیں لیکن موجودہ سنگین حالات میں پی ٹی آئی کے کارکن پارٹی کے تیتر بتر ہونے کے باوجود پی ڈی ایم اور پی پی پی میں شامل نہیں ہوں گیتاہم قیادت اور رہنماؤں کی لاتعلقی کے بعد پی ٹی آئی کے مایوس کارکنوں کے پاس یہ آپشن رہ گیاہے کہ وہ امیرجماعت اسلامی پاکستان سراج الحق کی دعوت سے فائدہ اْٹھائیں اور مثبت سیاست کیذریعے مدینہ کی اسلامی ریاست کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کریں۔جماعت اسلامی جمہوریت، آئین، قانون اور سول بالادستی، انسانی آزادیوں اور آزادی اظہار رائے اور صاف شفاف وغیر جانبدارانہ انتخابات کی بات کرتی ہے اور اْن کا ماضی بھی بے داغ ہیاس لئے جماعت اسلامی میں شامل ہو کر وہ پاکستان کو مدینہ کی اسلامی ریاست بنا سکتے ہیں۔