گلوبل ویلج مطلوب احمد وڑائچ
matloobwarraich@yahoo.com
ہمارے بہت سارے ایسے مسائل ہیں جو ہمارے لیے درد سر بنے ہوتے ہیں، ان کا حل قوم بننے میں ہے۔ ہم یہ تو بڑے دعوے کرتے ہیں کہ ہم زندہ قوم ہیں، پائندہ قوم ہیں لیکن ذرا نظر دوڑائیں آج کے سیاسی منظرنامے پر کس طرح سے لوگ ایک پارٹی چھوڑ رہے ہیں۔ تاہم یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ ایک پارٹی چھوڑنے والے دوسری میں جانے کا اعلان نہیں کر رہے۔ ماضی میں تو یہ ہوتا تھا کہ پارٹی چھوڑنے سے پہلے ہی تعین کر لیا جاتا تھا کہ کس پارٹی میں جانا ہے یہ تھوڑا سا فرق ہے۔ باقی ہم جس طرح کی قوم ہیں وہ پوری دنیا جانتی ہے۔ سیاست پر ہم عموماً بات کرتے رہتے ہیں آج ذرا مہنگائی اور قو م کے موضوع پر گفتگو کرتے ہیں۔
مہنگائی اور ناجائز منافع خوری کا خاتمہ یکجا ہو کر، یکجہت ہو کر، متحدہ ہو کر یقینی طور پر کیا جا سکتا ہے۔ اس کی میرے سامنے کئی نظیریں ہیں۔ یہ مشرف کا ابتدائی دور تھا، محترمہ بے نظیر بھٹو کی دعوت پر ایک وفد نے پاکستان کا دورہ کیا ،اس میں صحافی تھے، سفارت کارتھے اور معیشت دان تھے۔ یہ سات افراد پر مشتمل وفد تھا اور بے نظیر بھٹوکی طرف سے مجھے اس وفد کا سفیر مہمانداری ، ہوسٹ ایمبسیڈر مقرر کیاگیا۔ یہ سات لوگ اسلام آباد میں ٹھہرے۔ پہلے روز ناشتے پر ان سے جو گفتگو ہوئی وہ تو الگ ہے لیکن ان کا جو میں نے اس روزرویہ دیکھا وہ میں کبھی بھول نہیں سکتا۔ ان لوگوں کے ناشتے کی سلیکشن میں پسندیدہ ترین انڈوں سے بنی ہوئی ڈشز ہیں جس میں وہ اُبلے ہوئے انڈے، فرائی انڈے،اور مختلف چیزوں سے مکس انڈوں کی مختلف طرز کی آملیٹس شامل ہیں۔یہ وفد فائیوسٹار ہوٹل میں ٹھہرا ہوا تھا اور ڈائننگ ہال میں ایک کاٹ لگا ہوا تھا جس پر شیف آپ کی مرضی کی آملیٹ اسی وقت آپ کے سامنے بنا کر دیتا تھا۔ لیکن میں نے محسوس کیا کہ ہمارے مہمانوں میں سے کوئی بھی انڈوں سے بنی ہوئی ڈشز استعمال نہیں کر رہے تھے۔ میں نے وفد کے ممبرز کو رغبت دلانے کے انداز میں کہا کہ اس ہوٹل کے ناشتے میں شیف آپ کے لیے پچیس قسم کی آملیٹس آپ کے سامنے تیار کرتے ہیں تو ایک ممبر نے یہ بتا کر مجھے حیران کر دیا کہ ہمارے ملک میں فریش انڈے چونکہ ان دنوں کچھ زیادہ ہی مہنگے ہو گئے ہیں اس لیے عوامی حقوق اور کنزیومرز کے مفادات کا خیال رکھنے والی آرگنائزیشنوں نے انڈوں اور انڈوں سے بنی ہوئی مصنوعات کا بائیکاٹ کر رکھا ہے۔ ہم اس وزٹ کے دوران چونکہ ملک سے باہر ہیں مگر ہم اپنی قوم کے ساتھ کھڑے ہیں اور جب تک انڈوں کے ریٹس پہلے والی سطح پر نہیں آ جاتے تقریباً کوئی بھی برٹش انڈے نہیں کھائیں گے۔ یہ سن کر میں چکرا کر رہ گیا اور سوچنے پر مجبور ہوا کہ خدارا یہ کیسی قوم ہے۔ اسی لیے تو اس قوم کا اقتدار کا سورج آدھی دنیا میں غروب نہیں ہوتا تھا۔اور آج بھی دنیا کے ساٹھ سے زائد ممالک انگلینڈ کی کامن ویلتھ کے ممبرز ہیں۔
بہرحال قومیں کمٹمنٹس سے ہی بنتی ہیں۔جب کہ ہمارے ہاں حال یہ ہے کہ پٹرول کی دس روپے قیمت بڑھنے سے انڈا بھی دس روپے مہنگا ہو جاتا ہے۔اور چکن پچاس روپے کلو تک مہنگا ہو جاتا ہے۔ میں یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہوں کہ یہ کونسی مرغی ہے جو پٹرول پر چلتی ہے۔حالانکہ یہ سب کو پتا ہے کہ وزیراعظم کا بیٹا اور ان کا خاندان اس وقت پاکستان کی پولٹری انڈسٹری کے اسی فیصد سے زائد کاروبار پر ایک مکمل کنٹرول رکھتے ہیں۔
قارئین !جب میں نیا نیا سوئٹزرلینڈ گیا اور وہاں پر ہوٹل مینجمنٹ میں داخلہ لیا تو ایک سوئس گورا کلاس فیلو میرا دوست بن گیا۔ایک دن سنڈے کی چھٹی پر وہ مجھے اپنے باپ کے ریسٹورنٹ پر کافی کے لیے اپنے ساتھ لے گیا۔ اس کے باپ مسٹر گرہارڈ سے میری ملاقات اور گفتگو ہوئی۔ ان دنوں مجھے بہت شوق تھا کہ پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے واقعات پڑھوںاور اس پر بنی ہوئی موویز دیکھوں۔ میں نے مسٹر گرہارڈ سے پوچھا کہ عالمی جنگوں کے درمیان یہاں کے معاشی حالات اور ریسٹورنٹ کا بزنس تو کافی متاثر ہواہوگا،جس پر مسٹر گرہارڈ نے مجھے بتایا کہ پہلی اور دوسری عالمی جنگ کے دوران ایک طویل وقفہ اور کولڈ وار تھی اور دوسری جنگ عظیم کے ختم ہونے تک ہماری ماں ہمیں صبح ناشتے میں آلو کا سوپ ، دوپہر لنچ میں پھر آلو کا سوپ جب کہ شام کے ڈنر میں آلو کا سوپ اور ایک ڈبل روٹی کا بَن دیتی تھی ۔مسٹر گرہارڈ نے بتایا کہ اسی دوران میری بہن کی شادی طے پا گئی تو ہم نے چرچ میں شادی کی رسم کے دوران مہمانوں کی آلو کے سوپ اور اُبلے ہوئے انڈوں سے تواضع کی تھی۔
قارئین!پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کے بعد سوئٹزرلینڈ نے اتنی تیزی سے معاشی،اخلاقی اور علمی ترقی حاصل کی کہ آج وہ دنیا کا امیر ترین ملک ہے۔ اس کا تقریباً ہر دوسرا شہری ملینیئر ہے ۔قوم بننے کے لیے کوئی قربانی دینی پڑتی ۔ قربانی دینے کے حوالے سے ہم کتنے زیادہ پرجوش رہے ہیں یہ بھی ہم خود جانتے ہیں۔ پیاز کبھی مہنگا ہوجاتا ہے، کبھی ادرک، کبھی لہسن اور لیموں اور یہ وہ چیزیں ہیں ان کے بغیر زندگی بڑی آسانی کے ساتھ گزاری جا سکتی ہے۔لیکن ہم لوگ لکیر کے فقیر ہو چکے ہیں، متحد نہیں ہیں۔ رمضان المبارک میں ہمارے اخراجات کا آپ دیکھ لیں، مہنگائی کہاں پر پہنچ جاتی ہے سب سے زیادہ اس دوران ہم منتشر لوگ بنے ہوئے ہوتے ہیں ،کوئی اتحاد نہیں ہوتا۔ اس مہنگائی کو صرف چند دن کی کمٹمنٹس سے اوقات یاد دلائی جا سکتی ہے ۔روزہ رضائے الٰہی کے لیے رکھا جاتا ہے اور اس کو افطار کرنے کے لیے اتنے پاپڑ بیلے کی کیا ضرورت ہے۔
بات ہماری شروع ہوئی تھی کہ مہنگائی کا خاتمہ کیسے ممکن ہے۔ قوم بن کر ہم مہنگائی کو، ناجائزمنافع خوری کو بالکل ختم کر سکتے ہیں۔جس طرح برطانیہ میں یا دیگر ممالک میں ہوتا ہے۔افغانستان ہم سے کہیں زیادہ غریب ملک ہے لیکن وہ ہم سے مضبوط قوم بن چکے ہیں۔ اس کی ایک مثال گذشتہ روز میرے نالج میں باوثوق ذرائع سے یہ خبر آئی کہ پاکستان میں ٹرکوں اور ٹرالوں پر جانے والا کارگو سامان جیسے ہی پاک افغان بارڈر پر پہنچتا ہے تو اسے افغان نمبر پلیٹ والے ٹرکوں پر شفٹ کر دیا جاتا ہے۔ ایک پاکستانی ٹرک سے جتنا مال اتارا جاتا ہے وہ تقریباً تین افغان ٹرکوں پر تقسیم کرکے لوڈ کیا جاتا ہے۔وجہ اس کی میں نے پوچھی تو مجھے بتایا گیا کہ چونکہ افغانستان نے تقریباً پینتالیس سالہ خانہ جنگی کے بعد بھی اپنی شاہراہوں کو بڑی حد تک خراب اس لیے نہیں ہونے دیا تھا کہ ان ٹرالوں اور ٹرکوں کو وزن کی ایک لمٹ دی گئی ہے اور سبھی ٹرانسپوٹرز اس کا خیال کرتے ہیں۔ کبھی پولیس ناکے یا کنڈے پر ان کا وزن چیک کر لیا جائے تو جو مقررہ وزن سے زیادہ لوڈ کیا ہوا سامان ہوجو کہ زیادہ تر اناج،گندم، چینی، سیمنٹ اور کھاد کی بوریوں پر مشتمل ہوتا ہے ۔اس پر پانی ڈال کر گیلا کرکے اس کو خراب کر دیا جاتا ہے۔ یہ ٹرانسپوٹرز کے لیے سبق ہوتا ہے اور پھر وہ زندگی بھر کبھی بھی حد سے زیادہ سامان ٹرکوں پر لوڈ کرکے سڑکیں اکھیڑنے اور تباہ کرنے کا موجب نہیں بنے گا۔
قارئین! میں افغان قوم اور عوام کی دیگر معاشرتی خرافات کو زیر بحث نہیں لاتا مگر ان کی اجتماعی سوچ یقینا قابل ستائش ہے۔ جبکہ ہماری قوم نجانے کن سپنوں کی تعبیر کے انتظار میں ہے۔اور نہ انڈا چھوڑتی ہے اور نہ اپنے حقوق کے لیے ڈنڈا پکڑتی ہے۔ یاد رکھیئے قومیں تبھی بنتی ہیں جب ان کی سوچ اجتماعی صورت اختیار کر لیتی ہے۔