خواتین صحافیوں کیساتھ ہراسمنٹ کا بڑھتا ہوا سلسلہ

پاکستان میں صحافی خواتین کو ہراسمنٹ کا سامنا
حل کیا ہے ؟
پاکستان میں صحافت خواتین کے لیے مشکل کیوں ؟
چوہدری شاہد اجمل
chohdary2005@gmail.com
صحافی خواتین کی آن لائن ٹرولنگ دنیا بھر میں کی جا تی ہے لیکن پاکستان میں صحافی خواتین کو آن لائن ٹرولنگ میں بے ہودہ القابات، گھٹیا جملوں کے علاوہ جنسی ہراسانی کا شکار ہونے اور جنسی زیادتی سے لے کر قتل تک کی دھمکیاں موصول ہوتی ہیں جس سے نہ صرف ان کے لیے اپنی صحافتی ذمہ داریاں اد اکر نا مشکل ہو گیا ہے وہیں سماجی سطح پر بھی ان کو کئی قسم کے مسائل کا سامنا کر نا پڑتا ہے۔ویمن جرنلسٹس ایسوسی ایشن کے اعداو شمار کے مطابق گزشتہ18ماہ کے دوران ایک درجن سے زائد خواتین صحافیوں نے ایف آئی اے میں آن لائن ٹرولنگ کے حوالے سے شکایات درج کرائی ہیں(لیکن ان شکایات پر صرف اکائونٹ بلاک کر نے کے علاوہ کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی,وفاقی تحقیقاتی ادارے)ایف آئی اے(کا کہنا ہے کہ درخواست موصول ہو تے ہی ہم کارروائی کا آغاز کر دیتے ہیں آن لائن ٹرولنگ میں ملوث زیادہ تر سوشل میڈیا اکائونٹس جعلی ہو تے ہیں اس لیے اکانٹس بلاک کر دیے جا تے ہیں تاہم کسی کے خلاف کارروائی ممکن نہیں ہو پاتی۔صحافی خواتین کی طرف سے آن لائن یا سوشل میڈیا پر لکھی گئی کسی بھی قسم کی تحریر پر ایسے کمنٹس اور پیغامات موصول ہوتے ہیں کہ وہ کسی حد تک جنسی ہراسمنٹ کے زمرے میں آتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں بہت کم صحافی ایسی ہیں جو اپنی داد رسی کے لیے ایف آئی اے یا متعلقہ اداروں میں شکایات درج کراتی ہیں۔ ذاتی حملوں کے خوف سے کچھ خواتین صحافی سوشل میڈیا پر بات کرنا ترک کر دیتی ہیں اور کچھ اپنے موضوعات بدل لیتی ہیں۔ دونوں صورتوں میں خواتین صحافی شدید ذہنی دباؤکا شکار رہتی ہیں۔اس طرح کے حملے کر نے والوں کا مقصد خواتین صحافیوں کو ان کی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کی ادائیگی سے روکنا یا ان پر اثر انداز ہونا ہے، جو آزادی صحافت اور آزادی اظہار پر پابندی لگانے کے مترادف ہے۔ابھی تک حکومت کے پاس کو ئی ایسا جامع فریم ورک موجود ہی نہیں جس سے صحافی خواتین اس طرح کے حملوں سے محفوظ رہ سکیں۔پاکستان میں خواتین صحافیوں کی آن لائن ٹرولنگ کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ سیاسی جماعتوں اور خاص طور پر ان کی اعلی قیادت کی جانب سے ایسا کر نے پر نا صرف اپنے کارکنوں کی حوصلہ افزائی کی جا تی ہے بلکہ سیاسی رہنما اس میں خود بھی ملوث ہو تے ہیں جس کی ایک بڑی مثال سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان ہیں ۔ جب صحافیوں کے وفد نے ان سے ملاقات میں یہ سوال اٹھایا کہ آپ کے کارکنان کی جانب سے سوشل میڈیا اور جلسوں میں صحافی خواتین کو ہراساں کیا جا تا ہے تو انہوں نے نا صرف اس کے جواب میں انتہائی نازیبا الفاظ استعمال کیے بلکہ ایک خاتون صحافی کا نام لے کر کہا کہ وہ ہجوم میں گھس جاتی ہے، پھر کہتی ہے تنگ کرتے ہیں، وہ مردوں میں گھسے گی تو ایسا ہی ہوگا ''آبیل مجھے مار'' جبکہ سوشل میڈیا پر ٹرولنگ روکنے کے بارے میں انہوں نے کہا کہ میں اسے نہیں روک سکتا۔
اگرچہ دنیا بھر میں خواتین صحافیوں کی سوشل میڈیا پر ٹرولنگ اور انہیں ہراساں کیے جا نے کے واقعات ہو رہے ہیں لیکن پاکستان میں یہ رحجان نہ صرف زیادہ ہے بلکہ اس کا سلسلہ دراز ہوتا  جا رہا ہے ،پی ایف یو جے کے صدر افضل بٹ کا کہنا ہے کہ اگرچہ دنیا بھر میں صحافی خواتین کو ایک جیسے خطرات کا سامنا ہے لیکن پاکستان میں اس کی شدت دنیا کے دوسرے ممالک کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ خواتین کو آن لائن حملوں اور ٹرولنگ کے بعد یہ خوف لاحق رہتا ہے کہ وہ جنسی زیادتی کا شکار ہو سکتی ہیں۔ جس کی وجہ سے ان کا کام، ذہنی سکون اور ذاتی زندگی کے معمولات بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کے واقعات کے سبب کئی خواتین صحافی صحافت کا شعبہ ہی چھوڑ گئیں۔ حکومت کو اس حوالے سے فوری اقدامات اٹھانے چاہئیں۔
پاکستان کی خواتین صحافیوں کا کہنا ہے کہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کے ایما پر منظم مہم کے ذریعے انہیں سوشل میڈیا پر ٹرولنگ اور ہراساں کیے جانے کا سامنا ہے ،نیشنل پریس کلب اسلام آبادکی نائب صدر مائرہ عمران کا کہنا ہے کہ یہ سب کچھ ایک منصوبہ بندی کے تحت ہوتا ہے سوشل میڈیا پر حملے کیے جاتے ہیں اور ٹرولنگ کے باعث ان کے لیے پیشہ ورانہ فرائض انجام دینا ناقابل یقین حد تک مشکل ہو گیا ہے۔سیاسی جماعتوں کے حامیوں کے سوشل میڈیا اکانٹس کے ذریعے خواتین صحافیوں کی سوشل میڈیا پر ٹرولنگ کی جاتی ہے۔
ویمن جرنلسٹس ایسوسی ایشن کی رہنما فوزیہ کلثوم رانا کا کہنا ہے کہ حکومت مخالف رائے رکھنے پر خواتین صحافیوں اور تجزیہ کاروں کی ذاتی زندگی کو موضوع بحث لایا جاتا ہے جب کہ دھمکیوں کے علاوہ ان پر ملک دشمنی اور بدعنوانی کے الزامات بھی لگائے جاتے ہیں،انہوں نے کہا کہ ہمارے اعداو شمار کے مطابق گزشتہ 18ماہ کے اندر ایک درجن سے زائد آن لائن ٹرولنگ کے خلاف شکایات ایف آئی اے کو درج کرائی گئی ہیں لیکن اکائونٹس بلا ک کر نے کے علاوہ کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے۔ انہوں نے بتا یا کہ یہ صرف ان خواتین صحافیوں کے کیسز ہیں جو کسی سیاسی جماعت کے لیے ہمدردی نہیں رکھتیں اگر ہم سیاسی ہمدردی رکھنے خواتین صحافیوں کے حوالے سے جائز ہ لیں تو آن لائن ٹرولنگ کے واقعات روزانہ کی بنیاد پر رپورٹ ہو رہے ہیں۔ خواتین صحافیوں کو نہ صرف ان کے کام بلکہ بطور خاتون بھی ٹارگٹ کیا جاتا ہے اور انہیں جنسی اور جسمانی حملوں کی دھمکیاں دی جاتی ہیں جس سے ان کی زندگی کو بھی خطرات لاحق ہو رہے ہیں۔
سینئر صحافی و اینکر غریدہ فاروقی کا کہنا ہے کہ "مجھے بھی ذاتی طور پر ٹرولنگ کا نشانہ بنایا گیا گئی سیاسی شخصیات کے ساتھ میرے من گھڑت اسکینڈل بنائے گئے اور جب میں نے ایف آئی اے میں شکایت درج کرائی تو مجھے ایف آئی اے کے حکام کی جانب سے کہا گیا کہ آپ شکایت واپس لے لیں کیو نکہ اس کا کچھ نہیں بننا اور آپ کی شہرت کو نقصان پہنچے گا بعد میں کچھ سماعتیں بھی ہوئیں تاہم اس معاملے کی تحقیقات رکوا دی گئیں۔ "
راولپنڈی اسلام آباد یونین آف جرنلسٹس کے صدر عابد علی عباسی کا کہنا ہے کہ ہماری سوسائٹی میں خواتین کو آسان ٹارگٹ سمجھا جاتا ہے، اس لیے حکومت کوئی بھی ہو سوشل میڈیا پر اس کے حامی حق اور سچ بات کرنے والی خواتین صحافیوں کو ٹارگٹ کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر صحافیوں کو ہراساں کرنے کو بھی جرم قرار دے کر اس کے خلاف کارروائی ہو نی چاہئے۔ خواتین صحافی سوشل میڈیا پر اپنے خلاف ہونے والے حملوں پر خاموش ہوجاتی ہیں۔ جبکہ ہمارا قانون آن لائن ہراسمنٹ کو لے کر زیادہ سنجیدہ نظر نہیں آتا۔ زیادہ تر معاملات میں ہم دیکھتے ہیں کہ خواتین کو ہی مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔
سینئر صحافی و اینکرتنزیلہ مظہر کا کہنا ہے کہ ان کے خلاف سوشل میڈیا پر ایک مہم چلائی گئی جس دوران ان کی کچھ ذاتی زندگی کی معلومات کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا۔ اس پر انہوں نے ایف آئی اے کو لکھا مگر جواب نہیں آیا۔ ان کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعتوں کو اور اداروں کو مل کر آن لائن اسپیس کو خواتین صحافیوں کیلیے محفوظ بنانا چاہیے۔

ای پیپر دی نیشن