ہماری روزمرہ زندگی کے بیشتر امور میں بعض اوقات ایسا بھی ہو جاتا ہے کہ اپنے چاہنے والوں‘ عزیزوں‘ رشتہ داروں اور قریبی تعلق رکھنے والے دوستوں کے قریب تر ہونے کے باوجود مخصوص تقاریب میں انہیں مدعو کرنا ہم بھول جاتے ہیں۔ یہ بھول دانستہ نہیں بلکہ تقریب کی مصروفیات‘ مہمانوں کی سلسلہ وار آمد اور تقریب کے خصوصی انتظام و انصرام کا قریبی جائزہ لینے پر مامور ذمہ داران سے سرزد ہو جاتی ہے جسے قطعی محسوس نہیں کرنا چاہیے۔ آخر ہم انسان جو ٹھہرے۔
اگلے روز لندن میں ہم پاکستانیوں کی ’’پہچان اور آن‘‘ پاکستان ہائوس میں ہمارے ہردلعزیز ہائی کمشنر ڈاکٹر محمد فیصل نے پاکستان کرکٹ ٹیم کے اعزاز میں ایک پروقار عشائیہ تقریب کا اہتمام کیا۔ تقریب میں اعلیٰ اہم شخصیات‘ قومی کھلاڑیوں سمیت وزیر داخلہ اور چیئرمین پی سی بی محسن نقوی‘ سابق نگران وزیراعظم سینیٹر انوارالحق کاکڑ‘ وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی‘ حال ہی میں تیسری مرتبہ منتخب ہونیوالے میئر لندن صادق خان‘ سابق کرکٹرز‘ سرفراز نواز‘ آصف اقبال‘ ظہیرعباس اور پاکستان میں برطانیہ کی ہائی کمشنر جین میریٹ نے خصوصی شرکت کی۔ خواہش تھی کہ جین میریٹ سے ان کے حالیہ خطاب کے حوالے سے مزید کچھ بات چیت کر پائوں مگر اس خواہش کی تکمیل اس وقت دم توڑ گئی جب عشائیہ تقریب میں مدعو چند صحافی دوستوں نے بذریعہ وٹس ایپ پیغام یہ جاننا چاہا کہ پاکستان کے نظریاتی اخبار ’’روزنامہ نوائے وقت‘‘ لاہور کے لندن Based کالم نگار یہاں نظر کیوں نہیں آرہے؟
دوستوں کے سوال میں گو حس مزاج تھی‘ مگر سوال جینوئن تھا اور پھر ’’اپنے ہی گھر‘‘ میں جب اپنے گھر والوں کے بعض افراد نظر نہ آئیں تو سوال تو بنتا تھا؟ چنانچہ ’’ہم چپ رہے‘ ہم ہنس دیئے‘ منظور تھا پردہ تیرا‘‘ کے مفہوم میں گم ہو کر میں یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ ’’پرنٹنگ‘‘ اور ’’الیکٹرانک میڈیا‘‘ کے مابین خدانخواستہ کہیں حدود تو حائل نہیں کر دی گئیں؟ یا پھر صرف ’’ایک نقطے کی بدولت کہیں مجرم تو نہیں بنا دیا گیا‘‘ اپنے ان خیالات اور بکھری سوچوں کا اظہار جب اپنے ہائی کمشنر ڈاکٹر محمد فیصل صاحب سے کیا تو ان کے محبت بھرے واٹس ایپ پیغام کے ان مندرجات نے کہ تقریب میں وہ بھی مجھے دیکھ نہیں پائے‘ مجھے مسکرانے پر مجبور کر دیا اور یوں اپنی ملکی اور قومی محبت میں مزید تلاطم پیدا کرنے کیلئے میں نے ’’رات گئی بات گئی‘‘ پر اپنی فکرو نظر کا محور تبدیل کرلیا۔
تقریب بلاشبہ تاریخی حیثیت کی حامل تھی جس میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات کی بھاری تعداد نے شرکت کی۔ مہمانوں نے قومی کرکٹ ٹیم کے کپتان‘ کھلاڑیوں اور پاکستان کرکٹ کنٹرول بورڈ کے چیئرمین سید محسن نقوی کے ہمراہ سیلفیاں اور تصاویر لیں۔ ٹیم کو بھرپورUp Boost کرتے ہوئے شائقین کرکٹ اور سابق کرکٹ کھلاڑیوں کی جانب سے بھرپور حوصلہ افزائی کی گئی مگر افسوس! لندن کےGround Oval میں انگلینڈ ٹیم سے کیسے آخری میچ میں بھی ہمارے شاہین کامیابی حاصل نہ کر پائے‘ ایسا کیوں ہوا؟ کرکٹ کا میں چونکہ ماہر اور نہ ہی اس کھیل کی ’’نوہو‘‘ پر زیادہ دسترس رکھتا ہوں‘ اس لئے میرے لئے یہ اندازہ لگانا ممکن نہیں کہ قومی ٹیم کے ناکام ہونے کے بنیادی اسباب کیا تھے‘ تاہم اس بارے میں ہمارے بعض نجی ٹی وی چینلوں کے نمائندے اور یوٹیوبرز دوست زیادہ بہتر طور پر بتا سکتے ہیں۔ جس وقت یہ سطور لکھ رہا ہوں‘ قومی کرکٹ ٹیم امریکہ اور ویسٹ انڈیز میں کھیلے جانے والے عالمی ٹی۔20 کرکٹ ٹورنامنٹ میں حصہ لینے کیلئے نیویارک پہنچ چکی ہے۔ یاد رہے کہ قومی کرکٹ ٹیم پہلی بار امریکہ میں عالمی میچ کھیلنے گئی ہے جبکہ ٹیم کی کامیابی کیلئے بلاشبہ پوری قوم کی دعائیں کھلاڑیوں کے ساتھ ہیں۔ مگر! ٹیم کو بھی یہ بات ہرگز بھولنا نہیں ہوگی کہ دعائیں بھی اس وقت قبول ہوتی ہیں‘ جب مضبوط ایمان‘ کرگزرنے کا عملی مظاہرہ اور حصول فتح کیلئے تمام تر توانائیاں صرف کی جائیں۔ پاکستان ہائوس کی عشائیہ تقریب میں لندن کے تیسری مرتبہ منتخب ہونیوالے پاکستانی نژاد میئر صادق خان بھی موجود تھے جنہوں نے قومی ٹیم کی اعلیٰ کارکردگی کی تعریف کی اور عالمی کپ جیتنے کی توقع کا اظہار کیا۔ پاکستان کرکٹ کنٹرول بورڈ کے چیئرمین اور وزیر داخلہ سید محسن نقوی برطانوی پاکستانی شائقین اور کرکٹ سے محبت کرنے والے دیگر افراد سے ٹیم کو پوری طرح سپورٹ کرنے کی درخواست کرتے رہے۔ نقوی صاحب نے الیکٹرانک میڈیا نمائندوں سے قومی ٹیم کے عالمی کپ جیتنے کے حوالے سے سوالوں کے جواب میں کہا کہ ٹیم کا مورال بلند کرنے کیلئے ضروری ہے کہ قوم ٹیم کی ورلڈ کپ میں اعلیٰ کارکردگی اور ’’جیتو یا ہارو‘ ہم تمہارے ساتھ ہیں‘‘ کے ’’بوسٹنگ اپ‘‘ نعرے سے حوصلہ افزائی کرے۔
تقریب میں دیگر اہم شخصیات سمیت پاکستان میں برطانوی ہائی کمشنر جین میریٹ بھی مہمانوں کی توجہ کا مرکز بنی رہیں۔ تقریب چونکہ خالصتاً پاکستانی ٹیم کے اعزاز میں دیئے عشائیہ کی تھی اس لئے سیاسی امور پر بات کرنے سے اجتناب کیا گیا۔ تاہم برطانوی ہائی کمشنر برائے پاکستان جین میریٹ سے ان کے 27 اپریل 2024ء کو عاصمہ جہانگیر کانفرنس پر پاکستان میں انسانی حقوق‘ کمزور جمہوری اقدار‘ حالیہ انتخابات کے موقع پر مبینہ طور پر رکاوٹوں کا شکار سوشل میڈیا‘ الیکٹرول پراسس پر تحفظات اور برطانوی وزیر خارجہ لارڈ ڈیوڈ کیمرون کے مبینہ خط کے تحفظات کے حوالے سے میرے سوال پوچھنے کی تشنگی بھی برقرار رہی۔تاہم اس موقع پر اپنے شعیب بن عزیز صاحب کے اس سدا بہار مصرعے:
’’اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں‘‘
کی صدا باربار کانوں میں گونجتی رہی جس سے میں خوب محظوظ ہوتا رہا۔