انسانی حقوق کے ضمن میں اس وقت ہمارے پاس جدید ترین خاصی حد تک حتمی و غیر متنازعہ اور قابل حوالہ دستاویز انسانی حقوق کا عالمی اعلامیہ Universal Declaration Human Rights کی شکل میں موجود ہے اس اعلامیہ کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 10 دسمنبر 1948ء کو اپنایا اور جاری کیا۔اس عالمی اعلامیہ کا جاری ہونا کوئی اچانک واقعہ یا امر نہیں تھا اس کا بھی باقاعدہ ایک ارتقاء اور پس منظر ہے۔اسی پس منظر کے ضمن میں ہم نے گزشتہ کالم میں چند اولین یا قدیم اور الوہی انسانی حقوق کے تصورات کا ایک مختصر جائزہ پیش کیا تھا۔قدیم تصورات کی خصوصیات کچھ اس طرح سے تھیں کہ یہ بادشاہ یا مذہبی کتابوں کی طرف سے تقویض شدہ تھے ایک خاص نسل ، فرقہ اور گروہ پر انکا اطلاق ہوتا تھا۔اپنی نوعیت میں مقامی یا ایک مخصوص علاقہ کیلئے تھے اور ان میں آفاقیت اور ابدیت نہیں تھی اوریہ کسی بھی وقت منسوخ یا واپس لیے جا سکتے تھے۔
آج کے کالم میں ہم انسانی حقوق کے جدید تصورات جو کہ تصورات کی اگلی شکل ہے، یعنی دستاویزات کا مختصر تعارف پیش کریں گے جن کی اساس پر میگنا کارٹا 1215ء کے چارٹر یا معاہدے کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ انسانی حقوق کے ان جدید تصورات و دستاویزات میں نسل ,رنگ,مذہب,علاقہ,قومیت,عمر صنف کی تفریق کے بغیر انسانی حقوق کو بخشیش یا خیرات کے طور پر نہیں بلکہ پیدائشی حق کے طور پر مانا جاتا ہے۔ یہ اپنی نوعیت میں آفاقی اور ابدی پہلو بھی رکھتے ہیں یعنی انہیں منسوخ و معطل نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی انہیں واپس لیا جا سکتا ہے۔میگنا کارٹا کے بعد وقتاً فوقتاً اسی طرز یا اساسی نوعیت کے اور بھی معاہدات چارٹر اور قوانین بھی وضع کیے جاتے رہے ہیں جن سے حق یا حقوق کی اصطلاحات کو سمجھنے میں مذید وضاحت ہوتی گئی اور ان کے پھیلاؤ ,قبولیت اور مقبولیت میں بتدریج عالمگیریت آتی گئی۔ میگنا کارٹا کو چارٹر اور حقوق کا شاہی فرمان بھی کہا جاتا ہے۔ ہوا کچھ ایسے کہ برطانیہ کے بادشاہ جان اور برطانوی امرا یا جاگیرداروں کے مابین سرکاری زمینوں پر لگان کے مسئلہ پر اختلافات یہاں تک شدت اختیار کر گئی کہ خانہ جنگی کی سی صورتحال پیدا ہو گئی۔ بادشاہ جان اپنے آپکو تمام قوانین اور اخلاقیات سے ماورا خیال کرتا ،عام عوام پر بلا جواز ٹیکسوں کا نفاذ کرتا اور وصولی میں سختی و جبر برتتا، حتی کہ چرچ کے چندے یاخیرات پر بھی اپنا دعویٰ جماتا۔ ممکنہ خانہ جنگی کو روکنے کیلئے آرچ بشپ آف کنٹر بری نے میگنا کارٹا کا مسودہ لاطینی زبان میں، جو کہ اس زمانے میں چرچ اور قانون کی زبان تھی۔ لکھا اور بعد میں اس کے تراجم فرانسیسی ، انگلش اور دوسری زبانوں میں کئغ گئے۔15 جون 1215ء کو اس دستاویز پر بادشاہ اور باغی امرا کے 25 نمائندئوں نے فریقین کی حیثیت سے تصدیق کی۔انہی 25 نمائندگان کو معاہدہ کی نگہبانی اور عمل درآمد پر نگرانی کی ذمہ داری بھی سونپی گئی۔ بادشاہ جان کی زندگی میں ہی اس معاہدہ پر عمل درامد نہ ہو سکا نتیجہ کے طور پر جنگیں ہوئیں اور ہر جنگ کے بعد پھر میگنا کارٹا (کچھ ترامیم کیساتھ) کو سامنے رکھ کر صلح کر لی جاتی۔مختلف بادشاہوں کے ہاتھوں استعمال ہوتا ہوا بالآخر یہ معاہدہ 1288ء میں بادشاہ ہنری سوئم کے بیٹے بادشاہ ایڈورڈ کے عہد حکومت میں بر طانیہ کے قانون کا مستقل حصہ بن گیا۔ معاہدہ کی شقوں کے تراجم ، مطالب اور تشریحات میں خاصے ابہام پائے جاتے ہیں۔ معاہدہ کا خلاصہ یا اسکے غیر متنازعہ چیدہ چیدہ اور موثر نکات کچھ اس طرح سے ہیں۔ (1)بادشاہ کی مطلق العنان حیثیت ختم کر کے اسے عوام کی طرح قانون کے تابع بنایا گیا۔عوام جس بھی سماجی رتبہ کے مالک ہوں انہیں عدالت اور انصاف تک مکمل رسائی حاصل ہوگی۔ (2) کسی بھی آزاد انسان کو پابند سلاسل نہیں کیا جائے گا، قید نہیں کیا جائو گا بیدخل نہیں کیا جائو گا، ملک بدر نہیں کیا جائے گا اور اس کیخلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی جائے گی تاوقتیکہ وہ کسی جج یا عدالت سے سزا یافتہ ہو (نہ کہ بادشاہ کی طرف سے)۔
(3)چرچ پوری طرح سے آزاد ہوگا اور اس پر کسی بھی قسم کا حکومتی دباؤ نہیں ڈالا جائے گا۔ (4) لندن شہر میں رائج ماضی کی تمام روایات کو برقرار رکھا جائو گا(ٹیکس اور لگان وغیرہ)۔ جرم اور سزا کے درمیان تناسب رکھا جائے گا۔ (5)انگلینڈ سے تعلق نہ رکھنے والے تاجروں کو انگلینڈ کے اندر تجارت کرنے کی آزادی ہوگی اور ان پر کوئی اضافی ٹیکس نہیں لگایا جائے گا۔ پورے انگلینڈ میں اوزان اور پیمائش کا ایک ہی نظام اور ایک ہی قانون چلے گا۔ آئین ، قوانین اور انسانی حقوق کے مسئلہ پر میگنا کارٹا کے بعد ہونے والی اہم اور اساسی نوعیت کی پیش رفتوں میں (1583ء سے 1645ء) کے عرصہ میں ہالینڈ میں عالمی قانون کا تصور وجود میں آیا جسکی بنیاد تمام انسانوں کے مابین بھائی چارے اور تمام انسانوں سے منصفانہ سلوک پر رکھی گئی۔ 1689ء میں انگلینڈ کی پارلیمنٹ میں انسانی حقوق کا ایک بل منظور کیا گیا جس میں بادشاہ کے اختیارات میں کمی،تشدد اور بغیر ٹرائل کے سزا کی ممانعت کر دی گئی۔اس بل کی روح سے حکومت کو پابند کیا گیا کہ وہ عوام کی نمائندگی اور ان کے حقوق کی نگہبانی کرے۔
1776ء میں امریکہ میں آزادی کے اعلامیہ میں درج کیا گیا کہ تمام انسانوں کو ناقابل تنسیخ حقوق کے ساتھ برابر پیدا کیا گیا ہے۔
1789ء میں فرانس کی قومی اسمبلی نے انسان اور شہریوں کے حقوق کے اعلامیہ کو اپنایا جو آزادی، مساوات، جائیداد ، تحفظ اور جبر کے خلاف مزاحمت کو گارنٹی کرنا تھا۔
1791ء میں امریکہ میں کانگرس نے حقوق کا بل منظور کیا جسکی رو سے آئین میں ترمیم کر کے اس میں جیوری کے ذریعے مقدمہ کا ٹرائل ,آزادی اظہار ،تقریر اور عقیدے کی آزادی کی شقوں کو شامل کیا گیا۔
یکم اگست 1834ء میں برطانیہ میں غلامی کے خاتمے کا قانون نافذ العمل ہوا جسکی وجہ سے برطانیہ اور اسکی کالونیوں سے 8 لاکھ لوگوں کو آزادی نصیب ہوئی۔
پہلی جنگ عظیم (1914ء سے1918ء) اور دوسری جنگ عظیم (1939ء سے1945ء) کے دوران بہت سے نئے انسانی المیوں نے جنم لیا یا وہ مہذب دنیا کے سامنے پہلی دفعہ آئے۔ اس سلسلے کی اگلی کڑی یعنی انسانی حقوق کا عالمی اعلامیہ (Universal Declaration Human Rights) کی تیاری کے دوران ان المیوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ان کااحاطہ کیا گیا۔
٭…٭…٭