ابو جی ! آٹھ برس ہوتے ہیں 

ابو جی !آٹھ برس ہوتے ہیں جب 6 جون کی صبح آپ خاموشی سے ہم سے جدا ہو کراپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ان آخری لمحات کے دوران میں آپ کے سامنے کھڑا تھا۔ جونہی آپ خاموش ہوئے مجھے یوں لگا جیسے وقت رک گیا ہے اور ماہ وسال کی گردش لمحوں میں سمٹ آئی ہے۔میری آنکھوں کے سامنے دہا ئیوں کی رفاقت کی فلم چل پڑی۔ عمر بھر کی جدوجہد کا ایک دور میری آنکھوں کے سامنے گزر گیا۔ برس ہا برس خوشی اور غم کی مختلف کیفیات سے گزرنے کے بعد احساس ہوا کہ خوشیوں کے ماہ و سال کا اپنا مزاج ہوتا ہے اور غم کے دور کا اپنا خاصہ ہوتا ہے۔خوشی اپنی رفتار سے چلتی ہے اور دکھ اپنے انداز سے انسانی زندگی میں مخل رہتے ہیں۔ ایک حقیقت بہرحال جو ہم پر آشکار ہوئی وہ یہ تھی کہ آٹھ برس بیت جانے کے باوجود ہم ہیں کہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ آپ ہمیں چھوڑ کر اپنے رب کے پاس حاضر ہو چکے ہیں اور آپ واپس نہ آنے کے لئے چلے گئے ہیں۔کبھی کبھی یوں لگتا ہے کہ آپ یہیں کہیں ہیں اور کسی لمحے گھر لوٹ آئیں گے۔آپ کے جانے کے بعد ہمارے شب و روز بدل چکے ہیں۔ہمارے کان آپ کا وہ دھیما سا حکم کہ دفتر جانا ہے، سننے کو ترس گئے۔ ہماری شامیں اب پھیکی ہیں کہ اب کوئی دفتر سے واپسی پر منتظر نہیں ہوتا اور ہماری راتوں میں وہ غیر محسوس سا تحفظ باقی نہیں رہا۔ آپ جب تک رہے ہم لمبی تان کر سوتے کہ ذہن و جسم پر ذمہ داریوں کا بوجھ نہ ہو اور بے فکری کا راج ہو تو نیند کا دورانیہ طویل ہو جاتا ہے۔ گھر میں آپ بستر پر جانے والے آخری اور صبح جاگ جانے والے پہلے شخص ہوتے۔آپ بہت مضبوط اور قابل ِ اعتماد سہارا تھے۔اب بھی سال میں بہت سے دِن ایسے ہوتے ہیں جب میں شدید ذہنی تنائو کا شکار ہو جاتا ہوں اور اتنے بڑے ہجوم میں تنہا رہ جاتا ہوں تو میں آپ کو اپنے ساتھ محسوس کرتا ہوں اور آپ کا ساتھ مجھے حوصلہ دیتا ہے۔
اِن آٹھ برسوں میں شاید ہی کوئی دِن ایسا گزرا ہو کہ آپ کی یادوں کا جھونکا نہ آیا ہو۔ کبھی کبھی تو یہ جھونکا دِن میں ایک سے زائد بار بھی آتا ہے اور یوں مجھے تا دیر ماضی کی یادوں میں الجھا ئے رکھتا ہے۔ چھوٹے چھوٹے واقعات تلخیاں، دکھ، تکلیفیں ، روزمرہ کے مسائل اور خوشیاں جو کبھی بہت بے معنی اور عام سی لگتی تھیں اب بہت اہم لگتی ہیں اور میرے لاشعور کی تختی پر یادوں کے طور پر کندہ ہیں اور گاہے گاہے ماضی میں گزرے دِنوں کے ساتھ جوڑ دیتی ہیں۔ یادوں کا بھی ایک مزاج ہوتا ہے۔ ان کا تعلق آپ بیتیوں اور جگ بیتیوں سے ہوتا ہے۔ ان کا واسطہ گزرے ہوئے ایسے واقعات سے ہوتا ہے جو کسی بھی شخص کے ذہن و دِل پر دکھ اور تلخی کا اثر اور خوشی اور انبساط کا احساس چھوڑ جاتے ہیں۔ اب بھی مجھے کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گزرے دِنوں کی یادیں ہماری زندگی کے معمولات اور واقعات پر اثر انداز ہو رہی ہیں اورہم حال میں ہونے والے واقعات کے ساتھ ان کا تعلق ڈھونڈنے میں راحت محسوس کرتے ہیں۔
زندگی بہت سنگ دِل ہے۔ یہ ِاِنسانوں میں جدائیوں اور وچھوڑوں کے دکھ بانٹتی ہے اورخود ہنستی مسکراتی رواں دواں رہتی ہے۔ یہ ایک نسل کو دنیا کے گھنے جنگل اور لق و دق صحرا میں یوں گم کر دیتی ہے جیسے وہ کبھی اِس دنیا کے باسی ہی نہ تھے اور پھر اگلی نسل کو سامنے لیکر آجاتی ہے۔ یوں کسی کا دور دفعتا اپنے انجام کو پہنچ جاتا ہے اور کسی کا دور پورے طمطراق سے شروع ہو جاتا ہے اور ہر ذی روح بہرطور اپنے انجام کی طرف گامزن رہتا ہے۔ یہ ایک چکر ہے جو صدیوں سے جاری ہے اور نسل ِ انسانی کا یہ چکر دنیا کے خاتمے تک جاری رہے گا۔انگریزی زبان کے عظیم لکھاری ولیم شیکسپیئر نے دنیا کو سٹیج سے تشبیہ دی اور کہا کہ دنیا ایک سٹیج کی مانند ہے جس میں داخل ہونے اور باہر نکلنے کے لئے دروازے ہیں۔ لوگ داخلی دروازے سے داخل ہوتے ہیں، سٹیج پر اپنا کردار ادا کرتے ہیں اور دوسرے دروازے سے باہر چلے جاتے ہیں۔ یوں ایک دور کے باسی سٹیج پر نمودار ہو تیہیں، اپنا کردار ادا کرتے ہیں اور پھر پردے کے پیچھے چلے جاتے ہیں۔پھر اگلے دور کے باسی ایسے ہی کردار ادا کرنے کے لئے سٹیج پر نمودار ہو جاتے ہیں۔یہ کبھی نہ ختم ہونیوالا چکر ہے جس میں درحقیقت زندگی اور موت ایک دوسرے کے تعاقب میں رہتے ہیں۔
ابو جی !آپ جدا ہوئے تو مجھے جدائی کا مفہوم سمجھ میں آیا۔ مجھے آپ کے جانے کے بعد شدت سے احساس ہوا کہ زندگی کے بہت سے معاملات پر میں آپ پر بھر پور انحصار کرتا تھا اور آپ کی حکمت اور رہنمائی میرے لیے یقینی تحفظ کا باعث تھی۔ میں نے آپ سے زندگی گزارنے کا ڈھنگ سیکھا۔ میں نے آپ سے سیکھا کہ کیسے کام اور خاندان میں توازن رکھا جا سکتا ہے۔ میں نے آپ سے ثابت قدمی کے ساتھ زندگی کے چیلنجز کا سامنا کرناسیکھا۔ آپ کا خاندان آپ کا فوکس تھا۔ ہم سب آپ کی زندگی کے محور تھے اسی لیے آپ کے ساتھ گزری یادیں، خوشی، ہنسی اور محبت کے ان گنت لمحات ہیں جن کو ہم تسلسل سے یاد کرتے ہیں۔ آپ جب سے جدا ہوئے ہیں تو ایک خلاء پیدا ہوا جو آٹھ برس گزر جانے کے باوجود پر نہ ہوسکا۔ ہم سب ادھورے ادھورے سے ہیں۔ کچھ ہے جو نہیں ہے۔کچھ ضرور ہے جس کی کمی ہے۔
ابو جی ! آٹھ سال ہوتے ہیں اور میں آپ کی تعمیر کردہ میراث پر کھڑا ہوں۔ دوستی ، صلہ رحمی ، رحمدلی، ہمدردی جیسے اوصاف آپ کی اِس میراث کا خاصہ ہیں۔میرا مشاہدہ ہے کہ اسی میراث کی بدولت جہاں جہاں آپ مقیم رہے وہاں مجھے لوگ آپ کی نسبت سے جانتے ہیں اور آج بھی اخلاص و محبت سے پیش آتے ہیں۔لوگ مجھے اِس لئے گلے لگاتے ہیں کہ میں آپ کا بیٹا ہوں۔ آج بھی شادمان کالونی کی گلیوں میں آپ کے اخلاص اور محبت کا ذکر ہوتا ہے۔ آج بھی گائوں میں لوگ آپ کو مختلف حوالوں سے یاد کرتے ہیں۔ جب کبھی بھی مجھے کچھ اچھا کرنے کی توفیق ہو جائے تو مجھے آپ کا خیال آتا ہے اور مجھے لگتا ہے کہ آپ کی میراث درست ڈگر پر ہے۔ آپ کی زندگی ہمارے لیے تحفہ تھی اور آپ کی میراث ایک خزانہ ہے جس میں تسلسل سے اضافہ ہو رہا ہے۔میں جانتا ہوں کہ زندگی کبھی دوبارہ ایسی نہیں ہوگی جیسی ہوا کرتی تھی کہ وقت کبھی لوٹ کر نہیں آتا اور زندگی اور موت ایک دوسرے کا تعاقب کرتے ہیں۔اور یہی اٹل حقیقت ہے۔

ای پیپر دی نیشن