وزیر اعظم بڑے وفد کے ہمراہ چین پہنچ گئے
ہمیں اس بات سے انکار نہیں کہ چین ہمارا سب سے بہتر اور بڑا دوست ہے۔ اس بات سے بھی انکار نہیں کہ ہم نے ہمیشہ چین کی مدد سے اپنی مشکلات پر قابو پایا۔ مگر یہ بھی سچ ہے کہ ہم ہمیشہ مانگتے ہی رہے اور چین دیتا رہا۔ اب بھی وزیر اعظم کا یہ دورہ چین اربوں ڈالر کے قرضے موخر کرانے کے لیے ہی ہے اور ساتھ ہی مزید امداد کے علاوہ چینی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی طرف راغب کرنے کی بھرپور کوشش بھی کر یں گے۔اب ہمارا ہر حکمران جب بھی ایسے غیر ملکی دورے پر جاتا ہے تو وزرا مشیروں کا جم غفیر اس کے ساتھ ہوتا ہے۔ ماضی میں تو ان وفود کو سیر سپاٹے کرانے اور اتحادیوں کو خوش کرنے کی کوشش بھی کہا جاتا رہا ہے۔ معلوم نہیں ہمیں امداد دینے والے ممالک یہ مہنگے لباس، جوتوں، گھڑیوں میں ملبوس ان بھاری بھرکم و فود کی مہنگے ہوٹلوں میں رہائش پر حیران ہوتے ہوں گے یا ان کی طرف سے کشکول اٹھا کر مزید قرضہ مانگنے پر۔ اب بھی مخالفین کہہ رہے ہیں کہ وزیر اعظم شہباز شریف کو اتنا بڑا 100 رکنی وفد ساتھ لے کر جانے کی کیا ضرورت تھی۔ کم لوگوں سے بھی کام چلایا جا سکتا تھا۔ مگر نجانے کیا مجبوری ہوتی ہے ہمارے حکمرانوں کی کہ وہ جب بھی غیر ملکی دورے پر جاتے ہیں تو ایک فوج ظفر موج ان کے ہمرکاب ہوتی ہے۔ خیر کاروبار سلطنت حکمران ہی جانتے ہیں۔ کیا معلوم یہ سب ماہرین ہوں اپنے اپنے شعبوں کے اور چین جا کر وہاں کے سرمایہ کاروں ، صنعت کاروںاور کاروباری لوگوں کو پاکستان میں سرمایہ کاری پر راغب کر لیں۔
٭٭٭٭٭
الیکشن نے مودی کے غبارے سے ہوا نکال دی
کہتے ہیں غرور کا سر ہمیشہ نیچا ہوتا ہے۔ سو اب کی بار بھارتی لوک سبھا کے الیکشن نے یہ پھر سچ ثابت کر دکھایا۔ ہوا بھر کر اپنی چھاتی پْھلا کر ’’اب کی بار 400 پار‘‘ کا نعرے لگانے والے نریندر مودی کو عوام نے ایسا پٹخا دیا کہ وہ مدتوں یاد رکھیں گے۔ ابھی تک ملنے والے نتائج کے مطابق مودی کی جماعت اور اتحادیوں کیلئے 300 کا ہندسہ عبور کرنا بھی مشکل نظر آتا ہے۔ تمام انتخابی سروے غلط ثابت ہو رہے ہیں۔ کانگریس اور اتحادی 234 نشستوں پر آگے ہیں۔ اب مودی کی شکل دیکھنے والی ہے۔ رنگ اڑا ہوا ہے بال بکھرے ہیں کیونکہ انہیں اترپردیش میں ہی نہیں راجستھان اور رام مندر کے شہر ایودھیا میں بھی شکست ہوئی جہاں سے بی جے پی نے ہندوتوا کے ڈرامے کا آغاز کیا تھا۔ آج وہاں بھی ان کا ڈرامہ فلاپ ثابت ہوا ہے۔ تامل ناڈومیں تو بہار کی طر ح بی جیپی کاصفایا ہو گیا۔
راہول گاندھی نے سچ کہا کہ بھارتی عوام مودی کو دیکھنا پسند نہیں کرتے۔ کہاں ایک تہائی سے زیادہ نشستیں جیتنے کے دعوے کہاں یہ صورتحال، صاف لگ رہا ہے کہ بھارتی عوام بی جے پی کی ظالمانہ متعصبانہ مسلم دشمن اقلیت کش پالیسیوں سے بیزار آ چکے ہیں اور اب وہ امن و سکون اور خوشحال زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں۔ مسلم اور سکھ برادری کے علاوہ اب عیسائی بھی سکون کا سانس لیں گے کہ بات بات پر انہیں مارنے ان کے گھر، مساجد گرجے اور گوردوارے جلانے والے کو لگام ڈالی جا سکے گی۔ اب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مودی جسے پہلے ہی لوگ موذی کہتے ہیں زخمی سانپ کی طرح مزید سازشیں نہ کرنے لگ جائے۔
٭٭٭٭٭
ٹی 20 ورلڈکپ جیتنیپرٹیم کو شاہی عمرہ کرائیں گے۔سعودی سفیر
اب سوال یہ ہے کہ اگر خاکم بددھن ہماری ٹیم یہ کارنامہ سرانجام نہ دے سکی تو پھر کیا ہو گا۔ کیونکہ اس وقت حالات و آثار کچھ اور ہی نظر آ رہے ہیں۔ خود ہمارے بڑے کرکٹ ماہرین اور کھلاڑی ابھی سے ہی اپنے تبصروں میں جن خدشات کا اظہار کرتے نظر آ رہے ہیں ہم اگر وہ بیان کر دیں تو کرکٹ شائقین کی بڑی تعدادہم سے ناراض ہو جائے گی لیکن بہرحال یہ تو کہا جا سکتا ہے کہ فی الحال ہمیں کسی خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہیے۔ ہاں البتہ دعا کرنے اور خواب دیکھنے پر کوئی پابندی نہیں۔ڈر ہے کہیں میزبان امریکہ ہی کپ نہ لے اڑے۔ سعودی عرب والے ہمارے محسن اور دوست ہیں۔ سعودی سفیر نے پاکستان سے محبت کی وجہ سے یہ شاندار آفر کی ہے تاکہ کھلاڑی جی جان سے مقابلہ کریں اور کسی کے دبائو میں نہ آئیں ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے کھلاڑی بہت جلد دبائو میں آ کر اپنی صلاحیتوں کا استعمال نہیں کر پائے پہلے صرف بھارت کے ساتھ مقابلے میں یہ نفسیاتی دبائو ہمیں پریشان کرتا تھا۔ اب بدقسمتی سے جنہیں ہم نے بلا اور گیند پکڑنا سکھایا وہ بھی انجانے بھوت کی طرح ہمارے حواس پر سوار ہونے لگے ہیں جی ہاں سب جانتے ہیں کہ افغانستان کی ٹیم سے کھیلتے ہوئے بھی ہم پریشر کا شکار ہوتے ہیں۔ اوپر سے ہمارے یہ برادران یوسف جان بوجھ کر ہمارے کھلاڑیوں کو غصہ دلاتے ہیں تاکہ وہ غلطی کریں۔ ہم سے جیت کر انڈیا والے اتنا خوش نہیں ہوتے جتنا یہ افغان ٹیم ہوتی ہے۔ خدا کرے کہ امریکہ میں ہونے والے اس ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ میں پاکستانی ٹیم ہر طرح کے خوف و خطرے سے بے نیاز ہو کر کامیاب و کامران لوٹے اور انہیں اسی خوشی میں بیت اللہ شریف اور روضہ نبو ی کی زیارت نصیب ہو۔
٭٭٭٭٭
پنجاب میں قیدیوں کو 6 دن کھانے میں چکن ملے گا
اول تو دعا ہے ایسا ہی ہو جیسے خبر میں کہا گیا ہے۔ اگر واقعی پنجاب میں قیدیوں کو چکن قورمہ جنجر پلائو اور انڈے آلو کھانے میں ملنے لگے تو یقین کریں پھر پنجاب کی آدھی سے زیادہ آبادی جیلوں میں جانے کو ترجیح دے گی۔ یہ نعمتیں تو آزاد انسانوں کو ہفتے میں 6 روز تو کیا پورا ماہ دستیاب نہیں ہوتیں۔ اوپر سے حکومت پنجاب ہے کہ جیلوں میں بند قیدیوں کو آرام سے عیاشی کرا رہی ہے۔ بے شک قیدی بھی انسان ہوتے ہیں مگر یہ جو 12 کروڑ پنجاب کے لوگ آزاد ہیں کیا وہ انسان نہیں۔ کیا ان کا حق نہیں کہ انہیں بھی یہ نعمتیں ارزاں نرخوں پر دستیاب ہوں۔ اگر ایسا ہو جائیتو جیلوں میں خودبخود قیدیوں کی تعداد کم ہو جائے گی کیوں کہ زیادہ تر جرائم اسی پاپی پیٹ کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ اگر یہ بھرا ہو تو پھر انسان جرائم کی طرف کم ہی مائل ہوتا ہے۔
گرچہ کہتے ہیں خالی پیٹ شیطان کا گھر اور بھرا ہوا شیطان کا کارخانہ ہوتا ہے تو جو کارخانے والا یعنی ’’رجا‘‘ ہوا انسان جرم کرے تو اسے واقعی چکی پیسنے والی قید کی سزا دے کر جیلوں کی زینت بنایا جائے فی الحال تو ہم پنجاب کے آزاد شہری جیلوں میں بند قیدیوں کو یہ پرتکلف کھانے ملنے پر مبارک دیتے ہیں۔ کئی تو دعا کرتے ہیں کہ وہ وہاں جا کر ان سے لطف اندوز ہوں کیونکہ مینیو سن کر تو اچھے بھلے انسان کے منہ میں پانی آ جاتا ہے۔ اب تو قید بھی راحت کا سامان بننے لگی ہے۔ پہلے تو سراسر اذیت تھی۔ یوں اب کوئی رہائی نہیں مانگے گا۔
٭٭٭٭٭
جمعرات،28ذیقعد 1445 ھ، 6 جون 2024ء
Jun 06, 2024