اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا دوسرا وصف جو قرآن مجید میں بیان فرمایا ہے وہ ہے ’’ بہت آہیں بھرنے والا ‘‘۔ آپ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کی محبت اور خوف میں بہت زیادہ آنسو بہایا کرتے تھے۔
اما م غزالی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت سیدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے توخوف خدا کے سبب اس قدرروتے کہ ایک میل تک آپ کے سینہ مبارک میں ہونے والی گڑ گڑاہٹ کی آواز سنی جا سکتی تھی۔ ( احیاء علوم الدین)
منہاج العابدین میں ہے کہ جب آپ اللہ تعالیٰ کے خوف کے سبب روتے تو اس قدر روتے کہ اللہ تعالیٰ حضرت جبرائیل امین کو آپ کو حوصلہ دینے کے لیے بھیجتے۔ حضرت جبرائیل عرض کرتے اے ابراہیم کیا آپ نے کبھی ایسا دوست دیکھا ہے جو اپنے دوست کو عذاب دیتا ہو ؟ آپ یہ سن کر فرماتے اے جبرائیل جب میں اپنی طرف نگاہ کر کے دیکھتا ہوں تو میں یہ بھول جاتا ہوں کہ میں خلیل اللہ ہوں۔
حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا :اللہ کی قسم جو میں جانتا ہوں اگر تم لوگ بھی جان لوتو بہت کم ہنسو اور کثرت سے روتے ہی رہو اور یقینا تم لوگ اللہ تعالیٰ سے فریادکرتے ہوئے میدانوں میں نکل جائو۔( المستدرک علی الصحیحین)
اللہ تعالیٰ نے آپ کا تیسرا اوصاف بیان کرتے ہو ئے ’’منیب ‘ ‘ کہ کر پکارا یعنی سب کچھ چھوڑکر اسی کاہو جانا۔آپ علیہ السلام اللہ تعالیٰ سے بہت زیادہ محبت تھی۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے بہت سارا مال دیا ہوا تھا ایک دن آپ اپنے جانوروں کی دیکھ بھال میں مصروف تھے کہ ایک فرشتہ انسانی شکل میں غار میں بیٹھ کر اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے لگ گیا آپ جا کر اس کے پاس بیٹھ گئے وہ کچھ دیر بعد خاموش ہو گیا تو آپ نے کہا مجھے پھر میرے محبوب کا ذکر سنائو۔ تو اس نے کہا پہلے میں اپنی مرضی سے ذکر کر رہا تھا اب تیرے کہنے پہ کروں گا مجھے کیا دو گے۔ آپ نے اپنی ساری بکریاں اس کو دے دیں۔ اس نے پھر اللہ تعالیٰ کا ذکر شروع کر دیا اور کچھ دیر بعد پھر خاموش ہو گیا۔ آپ نے کہا مجھے اور ذکر سنائو۔ فرشتے نے کہا اب مجھے کیا دو گے آپ نے اپنے سارے اونٹ اسے دے دیے۔ اس طرح باری باری آپ نے ذکر اللہ سننے کے لیے اپنا سارا مال گھر ، مویشی اس فرشتے کو دے دیے۔آپ نے پھر اسے ذکر سنانے کو کہا تو اس نے کہا اب مجھے کیا دو گے۔ تو آپ نے فرمایا مجھے رکھ لو مگر مجھے اللہ پاک کا ذکر سنائو۔ تو اس پر فرشتے نے کہا کہ آپ اللہ کے خلیل ہیں اور آپ کو ’’خلیل اللہ‘‘ کے لقب سے نوازا گیا۔