احتساب کیوں ممکن نہیں،  مردہ مرغیوں کا گوشت اور عرفان صدیقی کا بیان!!!

ملک میں ہر حکومت احتساب کا نعرہ لگاتی ہے لیکن ہمیشہ احتساب کے نام پر انتقام ہوا ہے، یہ بھی درست ہے جن کا احتساب ہونا ہوتا ہے ان کے ہاتھ پاؤں بہت لمبے ہوتے ہیں اور وہ ہر جگہ پھیلے نظر آتے ہیں۔ وہ برائے نام احتساب کو بھی روکنے کی ہر ممکن کوششیں کرتے ہیں۔ چونکہ اس میں طاقتور افراد شامل ہوتے ہیں اور وہ اس نظام کا اہم حصہ ہیں اس لیے کسی بھی قسم کی تحقیق یا تفتیش اس انداز میں آگے بڑھ نہیں پاتی۔ ہھر یہ وجہ بھی یے کہ مختلف حکومتیں احتساب کے نام پر انتقام کا راستہ اختیار کرتی ہیں، اس مہم میں ملک میں کرپشن کے خاتمے سے زیادہ سیاسی مخالفین یا کاروباری حریفوں کا خاتمہ ہوتا ہے۔ یہیں سے خرابی پیدا ہوتی ہے۔ جب مقصد ملک کی خدمت کے بجائے مخالفین کا راستہ روکنا ہو تو پھر نتائج ملنا ممکن نہیں ہوتا۔ پاکستان تحریک انصاف کرپشن ختم کرنے کا نعرہ لگا کر میدان میں آئی لیکن کرپشن ختم کرنا تو دور کی بات وہ حقیقی معنوں میں اس کام کا آغاز بھی نہ کر سکی۔ البتہ واقفان حال بتاتے ہیں پی ٹی آئی کے دور حکومت میں کرپشن ختم کرنے کے نام پر بہت کرپشن ہوئی، جائز کاموں کے ریٹ بڑھ گئے، مختلف سرکاری اداروں میں فائلوں کے ریٹ بڑھ گئے، دل کو لبھانے والے نعرے کے نام پر مال بنایا گیا۔ یہ سارا بوجھ بھی عام آدمی نے اٹھایا۔ ذرا سوچیں پی ٹی آئی کے دور حکومت میں اشیاء￿  خوردونوش، ادویات کی قیمتوں میں کس حد تک اضافہ ہوا پھر یہ ذخیرہ اندوزی اور مصنوعی مہنگائی کا بھی شور کرتے رہے۔ بیس روپے والی چیز اسی روپے یا سو روپے میں فروخت ہوتی رہی تو فائدہ اٹھانے والا کون تھا۔ حکومت کیوں مہنگائی پر قابو پانے میں ناکام رہی، وزیراعظم ذاتی حیثیت میں مہنگائی کا نوٹس لیتے رہے لیکن مہنگائی کا جن قابو آنے کے بجائے غریبوں کو کھاتا رہا، سرمایہ دار کمزوروں کا خون چوستے رہے اور حکومت خاموش تماشائی بنی رہی، کیا اس وقت یہ احتساب نہیں ہونا چاہیے تھا کہ آٹا، دال، چاول، گندم، سبزیاں، پھل اور ادویات سمیت زندگی گذارنے کی بنیادی ضروریات پر کون ناجائز منافع کماتا رہا ہے، کیا یہ کرپشن نہیں تھی، کیا یہ ملی بھگت نہیں، کیا اس مشق سے ملک میں اربوں کھروں نہیں کمائے گئے۔ غریب آدمی کی جیب پر وزن ڈالنے سے بڑی کرپشن کون سی ہو سکتی ہے۔ سو پاکستان تحریک انصاف نے ملک میں نظام کو بہتر کرنے کا بہترین موقع ضائع کیا۔ ایک ایسا وقت جب انہیں ہر طرف سے مدد اور تعاون حاصل تھا وہ کام کرنے کے بجائے بیانات اور سیاسی مخالفین کا گلا گھونٹنے میں مصروف رہے جو حکومت کے پسندیدہ تھے وہ مال بناتے رہے اور عام آدمی پستا رہا اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ جب پاکستان تحریک انصاف کی حکومت تھی انہیں یہ مشورہ دیا گیا کہ مہنگائی ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے تو کچھ لوگوں کو برا لگا کیونکہ ان کے سیاسی نعرے کو نقصان پہنچتا تھا۔ انہوں نے نہ تو مہنگائی پر قابو پانے کے لیے عملی اقدامات اٹھائے اور نہ ہی کرپشن کو حقیقی طور پر ختم کرنے کی حکمت عملی اختیار کی۔ اب پی ٹی آئی کی حکومت نہیں ہے تو انہوں نے احتساب کے نعرے سے بھی ہاتھ کھڑے کر دیے ہیں۔ اب وقت گذر چکا ہے تو انہیں گذرا ہوا وقت یاد آ رہا ہے۔ ساری زندگی پاکستان میں گذارنے والے سیاسی جدوجہد کا دعوی کرنے والے اگر نظام کی بنیادی خامیوں سے بھی ناواقف رہے تو ملک کے کروڑوں لوگوں کی اس سے بڑی بدقسمتی کیا ہو گی۔
 سابق صدر مملکت اور تحریک انصاف کے رہنما عارف علوی نے کہا ہے کہ "پاکستان میں احتساب کرنا ممکن نہیں اور  میں ہمت ہار گیا ہوں۔ سارا ایلیٹ کلاس اس کے خلاف ہے کہ کوئی احتساب یا تحقیقات ہوں، لوگوں کو یقین ہے  پاکستان میں انصاف نہیں ہو گا، میں تو ہمت ہار گیا ہوں، احتساب کرنا پاکستان میں ممکن نہیں۔" جناب سابق صدر صاحب آپ طاقت میں تھے اس بیان کا مطلب آپ ناکامی تسلیم کر رہے ہیں، آپ ملبہ ایلیٹ پر ڈال رہے ہیں قوم کو یہ بتائیں کہ کیا وہ ایلیٹ آپ کی جماعت کا حصہ نہیں تھے، کیا اس ایلیٹ کلاس نے آپ کی حکومت میں فائدے نہیں اٹھائے، یعنی آپ نے مالدار، سرمایہ کار، صنعتکاروں کے سامنے ہتھیار پھینک دیے لیکن ان لاکھوں ووٹرز کا کیا کریں گے جنہوں نے صرف کرپشن کے خاتمے کا نعرہ سن کر پی ٹی آئی کو ووٹ دیا تھا۔ حقیقت قوم کے سامنے رکھیں۔ اپنی ناکامی دوسروں پر ڈالنے کی کوشش مت کریں۔ کبھی سائفر کے پیچھے چھپتے ہیں تو کبھی بیرونی سازش کا بیانیہ قائم کرتے ہوئے مظلوم بن کر لوگوں کے سامنے آتے ہیں۔ ناکامی تسلیم کیوں نہیں کرتے۔ یہ بھی وضاحت کر دیں کہ احتساب میں ناکامی کی سوچ آپ کی ذاتی ہے، یہ بانی پی ٹی آئی کا پیغام ہے یا پھر پارٹی پالیسی ہے کیونکہ کوئی نہیں جانتا کہ کل آپ اس بیان سے مکر جائیں یا پھر یہ کہیں کہ بیان کو مناسب انداز میں پیش نہیں کیا گیا یا سمجھا نہیں گیا۔ 
خبر یہ بھی ہے کہ لاہور ہائیکورٹ نے ٹولنٹن مارکیٹ میں مردہ مرغیاں بیچنے والی دکانوں کو مستقل طور پر سیل کرنے کا حکم دے دیا۔ لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شاہد کریم نے سموگ کیس کا تحریری حکم جاری کیا ہے۔ تحریری حکم کے مطابق فوڈ اتھارٹی کی رپورٹ میں بتایا گیا ہیکہ ٹولنٹن مارکیٹ میں بہت زیادہ تعداد میں مردہ مرغیاں تلف کیں۔
لاہور ہائیکورٹ کا یہ فیصلہ قابل تعریف ہے ہمیں فوڈ انڈسٹری کے معاملے میں بہت بیرحم ہو کر فیصلے کرنا ہوں گے۔ انتظامیہ کو اس معاملے میں بہت سختی کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم لوگوں کو کیا کھلا رہے ہیں، ہم اتنے ظالم ہو چکے ہیں کہ اچھے برے، حرام حلال کی تمیز ہی ختم ہو کر رہ گئی ہے۔ مردہ جانوروں کا گوشت کھلانے والوں کے کاروبار کے ساتھ ساتھ یہ عمل کرنے والوں کے لیے بھی کوئی سزا ہونی چاہیے۔ کاش کہ لوگوں میں خود سے یہ احساس پیدا ہو کہ ہم کیا کر رہے ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ "پی ٹی آئی فوج کو سیاست میں گھسیٹنے کی سیاست کر رہی ہے۔ عرفان صدیقی نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی چار سال وزیراعظم رہے لیکن حمودالرحمان کمیشن رپورٹ کھول کرنہ دیکھی، آج وہ بدنیتی کی بنیاد پر حمودالرحمان کمیشن کا معاملہ اْٹھا رہے ہیں۔ عمران خان خود کو شیخ مجیب اورآرمی چیف کویحییٰ خان کہہ رہے ہیں، اگر ایسا ہے تو بتائیں کہ آج کی مکتی باہنی کون ہے؟"
عرفان صدیقی میرے لیے بہت محترم ہیں۔ ان کی موجودہ رائے کا بھی احترام کرتا ہوں لیکن ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہر سیاسی جماعت کے لیے فوج کو نشانہ بنانا سب سے آسان ہے۔ مسلم لیگ ن ہو یا پاکستان پیپلز پارٹی یا پھر پاکستان تحریک انصاف ہر سیاسی جماعت اپنے اپنے وقت میں سیاسی ناکامی کا ذمہ دار فوج کو ٹھہرانے کی کوشش کرتے ہوئے خود کو مظلوم ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ یہی تحریک انصاف تھی جو کہ افواج پاکستان کی سب سے بڑی ترجمان تھی، آج وہ اپنی ہر سیاسی ناکامی کا ذمہ دار فوجی قیادت کو قرار دے رہی ہے۔ کیا یہ ملک دوستی ہے، پی ٹی آئی کی موجودہ پالیسی تو صرف اور صرف انتشار اور نفرت ہے۔ ہر وقت بیانات میں تبدیلی اور غلط بیانی سے ملک میں افراتفری پھیلا رکھی ہے۔ مختلف وقتوں میں یہ کام دیگر سیاسی جماعتیں بھی کرتی رہتی ہیں لیکن پی ٹی آئی نے سب کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ عرفان صدیقی صاحب کی جماعت پر مشکل وقت اس لحاظ سے ضرور ہے کہ انہیں عوامی دباؤ کا بھی سامنا ہے اور ملک بھی سیاسی و معاشی معاملے میں شدید مشکل دور سے گذر رہا ہے۔ ن لیگ کی قیادت پی ٹی آئی کو ان کے غلط فیصلوں، حکمت عملی کی وجہ سے نشانے پر ضرور رکھے لیکن تمام سیاسی جماعتوں کو ناکامیوں کا ملبہ ریاستی اداروں پر ڈالنے کے بجائے اپنی اصلاح کرنی چاہیے۔
آخر میں جون ایلیا کا کلام
اْس کے پہلو سے لگ کے چلتے ہیں
ہم  کہیں   ٹالنے   سے   ٹلتے   ہیں
میں  اْسی  طرح   تو   بہلتا  ہوں
اور  سب  جس  طرح  بہلتے ہیں
وہ ہے جان اب  ہر ایک محفل کی
ہم بھی اب گھر سے کم نکلتے ہیں
کیا  تکلف  کریں   یہ   کہنے  میں
جو بھی خوش ہے، ہم اْس سے جلتے ہیں
ہے  اْسے  دور  کا  سفر  در  پیش
ہم  سنبھالے  نہیں  سنبھلتے  ہیں
ہے  عجب  فیصلے  کا  صحرا  بھی
چل  نہ  پڑیے  تو  پاؤں  جلتے ہیں
ہو  رہا  ہوں میں کس طرح برباد
دیکھنے   والے   ہاتھ    ملتے  ہیں
تم   بنو   رنگ،   تم   بنو   خوشبو
ہم  تو  اپنے  سخن  میں ڈھلتے ہیں

ای پیپر دی نیشن