بی جے پی کا پورا ڈائج

تین چار دن پہلے اس کالم میں احتیاط مگر قدرے اعتماد کے ساتھ لکھا تھا کہ بھارتی الیکشن بی جے پی یا تو ہار جائے گی یا معمولی سی گنتی کے ساتھ سادہ اکثریت لے پائے گی۔ چنانچہ بی جے پی کے ساتھ یہی ہوا، پچھلے الیکشن کی 303 سیٹوں کے برعکس اسے 242 سیٹس مل سکیں یعنی پچھلی بار سے 61 سیٹیں کم۔ سب سے بڑے صوبے، 22 کروڑ والے یو پی میں وہ ہار گئی اور سماج واد جیت گئے۔ ایک اور بڑے صوبے مہاراشٹر میں بھی وہ ہار گئی۔ اب بی جے پی حکومت تو بنائے گی لیکن اتحادیوں سے مل کر اور گنتی اتنی کم ہے کہ ایک آدھ ممبر گیا تو حکومت ختم۔ بڑی بات یہ ہوئی کہ اس کا آئین کو سیکولر سے بدل کر’’ ہندوتوا‘‘ لانے کا پروگرام بھی مرجھا گیا کہ اس کیلئے دوتہائی اکثریت چاہیے۔ نریندرا مودی کو یقین تھا کہ اس بار وہ ساڑھے تین سو سے بھی زیادہ سیٹیں لے لیں گے اور اسی لئے اس بار چار سو پار کا نعرہ لگایا گیا کہ چار سو سے زیادہ کا ہدف رکھیں گے تو ہی ساڑھے تین سو لے پائیں گے۔ نوکریوں  میں مسلمانوں کا کوٹہ ختم کرنے کا ارادہ بھی ڈھے گیا۔ 
بھارت میں وفاق یعنی فیڈریشن کا لفظ نہیں ہے، اس کے بجائے یونین کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ بہرحال بات کم و بیش وہی ہے اور اس وفاق کے 36 یونٹ ہیں۔ یعنی 28 صوبے اور 8 وفاقی علاقے۔ اور تفاوت دیکھئے، سب سے بڑا صوبہ یوپی 22 کروڑ کا ہے تو سب سے چھوٹا یونٹ لکھشا دیپ پالکا وپ محض 58 ہزار کا۔ 58 لاکھ نہیں، 58 ہزار۔ 36 یونٹوں میں سے 12 یونٹ یعنی میزورام، میگھالے، تری پورہ، منی پورہ، ناگالینڈ، پانڈ بچری، گوا، ہماچل پردیش، لکادیپ،انڈیمان اور سکم اتنے چھوٹے ہیں کہ ان سب کی آبادی مل ملا کر ڈیڑھ دو کروڑ بھی نہیں بنتی۔ یہ گیارہ نام تھے ، بارہواں نام ذرا لمبا ہے اور اس کا لطیفہ یہ ہے کہ یہ چار یونٹوں کو ملا کر ایک بنایا گیا ہے یعنی اس صوبے کا پورا نام یوں ہے کہ دادرا اینڈ نگر حویلی دیو اینڈ ومن۔ ان چار صوبوں کو متحد کرنے کے بعد کل آبادی پانچ چھ لاکھ سے زیادہ نہیں ہے۔ 
بھارت کی آدھی سے زیادہ آبادی ہندی بیلٹ میں رہتی ہے۔ ان کی آبادی ملاحظہ فرمائیے__ یوپی (22 کروڑ) بہار گیارہ کروڑ، مدھیہ پردیش آٹھ کروڑ، راجستھان 7 کروڑ ، جھاڑکھنڈ 4 کروڑ، ہریانہ ساڑھے تین کروڑ، چھتیس گڑھ 3 کروڑ، دہلی اڑھائی کروڑ، اترکھنڈ ڈیڑھ کروڑ، ہماچل پردیش 80 لاکھ، یعنی کل ملا کے 63 ، 64 کروڑ اور مغربی بنگال، اڑیسہ ، مہاراشٹر میں کروڑوں کی تعداد میں ہندی اردو بولنے والے ملا کر یہ تعداد اور زیادہ ہو جاتی ہے۔ مشرقی پنجاب میں بھی ہندی بولنے والوں کی ایک تعداد موجود ہے۔ 
چنانچہ بھارت میں جو بھی حکومت بنتی ہے، وہ دراصل ہندی بیلٹ ہی کی حکومت ہوتی ہے۔ 
مودی صاحب کا امیدوار فیض آباد سے (اجودھیا، بابری مسجد کا علاقہ) بھی ہار گیا۔ یوں مسلم دشمنی کا جو کارڈ مودی نے اس الیکشن میں ہمیشہ سے زیادہ کھیلا تھا کام نہ آ سکا۔ دوسری طرف راہول گاندھی کا ’’سافٹ امیج‘‘ بہت سے لوگوں کو بہت بھایا اور ان کی پیدل یاترا نے خوب کام دکھایا اور وہ پچھلے الیکشن کی 53 سیٹوں کے مقابلے میں اس بار 94 سیٹیں جیت گئے، یوں کانگرس کی دھوم دھام سے واپسی بھی ہو گئی۔ 
_____
پاکستان کی ایک انقلابی جماعت کی طرح بی جے پی بھی ’’پڑھے لخے‘‘ لوگوں پر مشتمل ہے۔ خود نریندر مودی بھی نہایت جیّد قسم کے ’’پڑھے لخے‘‘ ہیں۔ فیض آباد (اجودھیا رام مندر) والی سیٹ سے ہارنے والے بی جے پی کے امیدوار للّو سنگھ بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ انتخابی مہم میں جابجا انہوں نے منچ اور مورچے لگائے اور پھر گائوں گائوں بھی پھرے۔ 
ایک گائوں پہنچے، پنچایت لگائی اور بولے بھائیو اور بجرگو ، بچو اور مہیلائو۔ تم لوگ ہمیں ووٹ کی پرچی دو، میں گائوں کو ’’پورا ڈائج‘‘ بنا دوں گا۔ 
پورا ڈائج۔ لوگ چونکے، ایک نے سرگوشی کی، یہ ڈائج کیا ھووے ہے جسے پورا بنانے کی بات کرت ہے۔ ایک نوجوان کھڑا ہو گیا اور حیرت دکھاتے ہوئے سوال کیا، آدھا بن گیو کا یہ ڈائج۔ کب بنو۔؟ 
للّو سنگھ بھنّا گئے۔ بولے، ارے، چار جماعت پڑھ لئے ہوتے تو ایسا شٹوپٹ کو سچان (سٹوپڈ کو سچن) کائے کرتے۔ ارے مورکھ ، ہم انگلس (میں سے ش سے ش سے نہیں) کا ورڈ بولا ہوں، اس کا مطبل ہے سورگ (جنّت) 
نوجوان بھی پورا گنوار تھا ، ترکی بہ ترکی جواب دینے پھر کھڑا ہو گیا اور کہا بھایا۔ اگر آپ پانچویں پاس کر لئے ہوتے تو پورا ڈائج کا ہے بولتے۔ پیراڈائز کہنا چہیئے تھا ناں۔ 
للّو سنگھ تو بھڑک اٹھے۔ تقریر ختم کی اور گاڑی والوں سے کہا، سنبھالو اس پشو (مویشی) کو، اسے تمیج سکھائو۔ یہ کہااور چلتے بنے۔ قصّہ مختصر بی جے پی اب بھارت کو پورا ڈائج بنانے سے رہ گئی، آدھے ادھورے ڈائج پر ہی گزارا کرنا ہو گا۔ 
_____
جس طرح ایک دم سے گریٹ خان ہر کیس سے بری ہو جاتا ہے، ویسے ہی اچانک سے بھاری بھرکم لوڈشیڈنگ شروع ہو گئی ہے۔ ایک گھنٹہ بجلی آتی ہے، ایک گھنٹہ چلی جاتی ہے۔ 
وزیر اعظم لوڈشیڈنگ کا مسئلہ اس صدی میں تو حل نہیں کر سکتے۔ اس لئے ایسا کوئی مطالبہ نہیں کر رہے، صرف اس طرف توجہ مبذول کرانی ہے کہ گھنٹے برابر نہیں ہیں، بجلی جانے والا گھنٹہ سوا گھنٹے کا ہے، آنے والا پون گھنٹے کا۔ وزیر اعظم یہ عدم مساوات دور فرما دیں۔ یا تو دونوں گھنٹے سوا سوا گھنٹے کے ہوں یا دونوں پون پون گھنٹے کے__ مہربانی ہو گی۔

ای پیپر دی نیشن