اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ نے توہین عدالت کیس میں رہنما ایم کیو ایم مصطفیٰ کمال کی فوری معافی کی استدعا مسترد کردی ہے جبکہ سینیٹر فیصل واوڈا کو اپنے جواب پر نظر ثانی کیلئے ایک ہفتے کی مہلت دے دی ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے توہین عدالت از خود نوٹس پر سماعت کی۔ سماعت کے آغاز پر مصطفی کمال کے وکیل بیرسٹر فروغ نسیم نے عدالت کو بتایا کہ مصطفی کمال نے غیر مشروط معافی مانگ لی ہے۔ مصطفیٰ کمال نے بالخصوص 16 مئی کی پریس کانفرنس پر معافی مانگی۔ مصطفی کمال خود کو عدالت کے رحم وکرم پر چھوڑ رہے ہیں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ کیا مصطفیٰ کمال نے فیصل واوڈا سے متاثر ہوکر اگلے روز پریس کانفرنس کی؟۔ وکیل فروغ نسیم نے جواب دیا کہ مصطفیٰ کمال کی پریس کانفرنس محض اتفاق تھی۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ بطور کورٹ افسر بتائیں آپ کے موکل نے توہین کی یا نہیں؟۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ میرے موکل کی پریس کانفرنس توہین عدالت نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگر یہ توہین نہیں تھی تو معافی کس بات کی مانگ رہے ہیں؟۔ جب ارکان پارلیمنٹ کے ہوتے عدلیہ پر ایسا حملہ ہو تو ایک ادارے کا دوسرے پر حملہ ہوتا ہے۔ اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے عدالت کو بتایا کہ پارلیمنٹ میں بھی ججز کا کنڈکٹ زیر بحث نہیں لایا جاسکتا، عدالت کو بھی اسی طرح ایوان کی کارروائی پر کارروائی کا اختیار نہیں۔ دونوں ملزمان کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ وہ ارکان پارلیمنٹ ہیں، رکن پارلیمنٹ دوہری شہریت نہیں رکھ سکتا یہ پارلیمنٹ کا ہی بنایا قانون ہے۔ چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہمارے سامنے دوہری شہریت کا نہیں توہین عدالت کا کیس ہے، چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ہم نے کبھی نہیں کہا کہ ہمارے فیصلوں پر تنقید نہ کریں، کیا ہمیں لوگوں نے ایک دوسرے سے لڑنے کیلئے بٹھایا ہے؟ ہمیں کسی کو توہین عدالت کا نوٹس دینے کا شوق نہیں۔ عدالت نے توہین عدالت سے متعلق مواد نشر کرنے پر پابندی کے پیمرا نوٹیفکیشن پر جواب طلب کرلیا۔ سپریم کورٹ نے پیمرا سے عدالتی رپورٹنگ پر بھی پابندی پر جواب طلب کرلیا۔ چیف جسٹس نے فیصل واوڈا کے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ معافی نہیں مانگنا چاہتے؟۔ جس پر وکیل نے کہا کہ جواب جمع کرا دیا ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ اس پریس کانفرنس سے کس کی خدمت کرنا چاہتے تھے؟۔ عدالت نے پریس کانفرنس نشر کرنے پر 34 ٹی وی چینلز کو توہین عدالت کے شوکاز نوٹس جاری کردیے۔ ٹی وی چینلز 2 ہفتوں میں بتائیں ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کیوں نہ کی جائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ توہین آمیز مواد نشر کرنا بھی توہین میں آتا ہے، ٹی وی چینلز کو نوٹس پیمرا کے ذریعے ارسال کیے جائیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال نے اپنے کیے پر ندامت دکھانے کیلئے کوئی اور پریس کانفرنس کی؟۔ فروغ نسیم نے جواب دیا کہ ایسی کوئی پریس کانفرنس نہیں کی گئی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم آپ کو وقت دیتے ہیں اس بارے میں سوچ لیں۔ فیصل واوڈا کو اپنے جمع کرائے گئے جواب پر نظر ثانی کیلئے ایک ہفتے کی مہلت دے دی گئی۔ بعد ازاں کیس کی سماعت 28 جون تک ملتوی کردی گئی۔