افضل گورو کی شہادت --- محرکات، واقعات اثرات

افضل گورو کی شہادت کے دور رس اثرات ہیں۔ اس کی اسیری پھانسی کشمیر لبریشن فرنٹ سے وابستگی کو سمجھے بغیر اثرات کا جائزہ لینا مشکل ہے ارون دھتی رائے نے پھانسی کو بھارتی سلامتی کیلئے خود کشی قرار دیا ہے۔ جبکہ عدالتی فیصلہ میں لکھا ہے کہ افضل گورو کے خلاف ٹھوس ثبوت موجود نہیں ہیں۔ تاہم معاشرتی مزاج اور عوامی تسلی کیلئے پھانسی دینا ضروری ہے۔ بھارتی پارلیمان پر 5 افراد نے (13 دسمبر2001ئ) حملہ کیا جو کارروائی سے قبل ہی مارے گئے۔ عدالت نے فیصلے میں یہ بھی لکھا ہے کہ پانچوں حملہ آور افراد کی تاحال شناخت نامکمل ہے۔ بھارتی سرکار اور انتہا پسند ہندو قائدین کا وطیرہ ہے کہ وہ اس قسم کی کارروائی کا سارا الزام پاکستان پر لگا دیتے ہیں۔ بھارتی وزیر اور سیکرٹری داخلہ کا بیان ہے کہ دہشت گردی کے اکثر واقعات میں ہندو انتہا پسند ملوث ہیں مگر الزام مسلمانوں پر لگا دیا جاتا ہے۔ اسی طرح بھارتی پارلیمان پر حملے کا الزام جیش محمدJEM اور لشکر طیبہ LT پر لگایا گیا۔
افضل گورو کا تعلق کشمیر لبریشن فرنٹ سے تھا۔ دراصل مذکورہ پارٹی شیخ عبداللہ کی پارٹی محاذ رائے شماری 1955 کا عسکری دستہ ہے۔ نہرو نے 1955ءمیں شیخ عبداللہ کو معزول اور اسیر کیا۔ شیخ عبداللہ نے برطانوی اور امریکی سرپرستی میں کشمیر محاذ رائے شماری پارٹی بنائی۔ یاد رہے کہ برطانوی انٹیلی جنس ایجنسی ایم آئی نے آزادی ہند کے بعد اپنے تمام افرادی کا اور اہدافی اثاثے امریکی سی آئی اے کے سپرد کر دیئے تھے۔
افضل گورو (2013-1969) مقبوضہ کشمیر کے ضلع بارہ مولا کے قصبہ سوپور میں پیدا ہوئے۔ میڈیکل کے طالبعلم تھے۔ بھارتی فوج کے ظلم و ستم اور مظلوم کشمیری عوام کی بے بسی نے افضل گورو کو خاصا متاثر کیا۔ انہوں نے طب کی تعلیم ترک کی اور تجارت شروع کر دی۔بقول افضل گورو انہوں نے مظفر آباد (پاکستان ) میں 15 دن عسکری تربیت کی۔ حالات کا جائزہ لیا اور اس نتیجہ پرر پہنچے کہ یہ آزادی سے زیادہ مال سازی اور خاک و خون کی جنگ ہے۔ انہوں نے 1993ء میں بھارتی باڈر سکیورٹی فورسز BSF کو گرفتاری پیش کی بعد ازاں دہلی یونیورسٹی سے گریجویشن کی اور ایک دوا سا کمپنی کے ایریا منیجر بن گئے یہ کمپنی دہلی سے سرینگر طبی آلات سپلائی کرتی تھی۔ اس دوران افضل گورو کی اننت ناگ کے ڈاکٹر طارق سے ملاقات ہوئی جس نے غازی بابا سے متعارف کرایا۔ جنہوں نے افضل گورو کو مولانا مسعود اظہر کی شخصیت اور تقاریر سے آشنا کرایا۔ مولانا مسعود اظہر تہاڑ جیل میں محبوس تھے جن کو بھارتی جہاز کے اغوا کے عوض رہا کر کے پاکستان لایا گیا۔ مولانا مسعود اظہر کی رہائی کے ڈرامے نے بھٹو دور کے گنگا جہاز کا ڈرامہ یاد دلا دیا۔ فی الحقیقت مولانا مسعود اظہر کی رہائی اور پاکستان آمد میں امریکی اور بھارت میں امریکی حلقوں کی کارروائی تھی۔ افضل گورو نے ڈاکٹر طارق کی ترغیب سے کشمیر لبریشن فرنٹ میں شمولیت اختیار کی۔ جبکہ بھارتی بارڈر سکیورٹی فورسز BSF نے جیش محمد کے نمائندے غازی بابا کو 10 گھنٹے کی جھڑپ کے دوران (اکتوبر2003ء) میں مار دیا۔ بھارتی پارلیمان پر حملے میں غازی بابا سب سے بڑے نامزد ملزم تھے۔ افضل گورو کے علاوہ دیگر ملزمان مثلاً عبدالرحمن گیلانی شوکت گورو اور ان کی اہلیہ افشاں کی گرفتاری بلکہ سزا کے بعد بھی رہا کر دیا گیا۔ بھارتی عدالت عظمیٰ نے افضل گورو کی سزائے موت کو (20 اکتوبر 2006ئ) بحال رکھا مگر افضل گورو کو خاموشی کے ساتھ 9فروری 2013 کی صبح 8 بجے پھانسی دیکر مقبول بٹ کی طرح تہاڑ جیل میں دفنا دیا گیا۔ افضل گورو ،مقبول بٹ اور دیگر مجاہدین کشمیر کی نیت اور ہمت کو سلام یہ مخلصین میں شامل ہیں مگر ان کی شہادت کا فائدہ امریکہ ، برطانیہ اسرائیل کو پہنچتا ہے جو بھارت اور پاکستان میں اپنے ایجنٹ حلقوں کی مدد سے بندوبست کرتے ہیں۔
بھارتی پارلیمان پر حملہ13-12-2001 امریکی ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملے9/11 کے تناظر میں ہوا ہے جس کا اہتمام امریکہ نواز بھارتی حلقوں نے کیا تھا۔ امریکہ نے9/11 کی آڑ میں افغانستان کی مجاہد طالبان حکومت ختم کر کے اپنے فوجی و تجارتی اڈے بنانا تھے جو پاکستان کی فوج اور آئی ایس آئی کو دباﺅ میں لائے بغیر بنانا ناممکن تھے۔ پاکستان کے اندر امیر المومنین ملا عمر کی حمایت اور جنرل پرویز مشرف کی ”غلامی بہ نیم شب“ پالیسی کی مخالفت میں لاکھوں کے جلوس، جلسے اور عوامی مظاہرے جاری تھے جبکہ پرویز مشرف کو افغان دشمن پالیسی کے خلاف فوج سے بھی خطرہ تھا۔ لہذا امریکہ نے پاکستانی فوج کی توجہ بھارت کی جانب مبذول کرانے کیلئے بھارتی پارلیمان پر حملے کا اہتمام کیا۔ جس کے نتیجے میں پاکستان بھارت سرحدی کشیدگی تقریباً11 ماہ جاری رہی۔ بھارتی پارلیمان پر حملے کے بعد مجاہد افغانستان پر حملہ ا ور عالمی اتحادی ممالک بشمول بھارت کا سارا دباﺅ پاک فوج اور آئی ایس آئی پر تھا۔ جس نے فیصلہ کیا کہ افغانستان مسلمان ہمسایہ ملک ہے۔ پاکستان کو کافر بھارت سے بچانا پہلی ترجیح ہے۔ یہی بنیاد پرویزی نعرہ ”سب سے پہلے پاکستان“ کی خشت اول بنا۔ حقیقت یہ ہے کہ جنرل پرویز مشرف اپنی یوٹرن پالیسی کے باعث فوج آئی ایس آئی اور اسلام پسند مسلمان عوام سے اس قدر خوفزدہ تھے کہ امریکی وزیر دفاع غالباً کولن پاﺅل نے ایمرجنسی پاک بھارت دورہ کیا۔ کولن پاﺅل نے اپنی زیر نگرانی فیصل صالح حیات کو غیر مشروط جیل سے رہا کرایا اور صبح11 بجے پاکستان کا وزیر داخلہ بنوایا جس نے باطنی جذبے سے پرجوش مسلمان عوام کی پکڑ دھکڑ اور مار دھاڑ شروع کر دی۔ اسی طرح کولن پاﺅل نے شام 4 بجے بھارتی جیل سے فرنینڈس کو بلا مشروط رہا کرایا اور بھارتی وزیر دفاع بنوا کر رات کو واپس امریکہ چلے گئے۔ افضل گورو کی گرفتاری کا پس منظر مندرجہ بالا تھا جبکہ پھانسی کاپیش منظر بھی امریکہ نواز ھدف ہے۔ امریکہ تھرڈ آپشن کی بنیاد پر خود مختار کشمیر کا فیصلہ کرنا چاہتا تھا۔ جو بظاہر اقوام متحدہ اور اس کی نام نہاد قراردادوں پر مبنی ہو گا۔ شیخ عبداللہ نے خود مختار کشمیر کا بیج بویا تھا جبکہ پرویز مشرف نے خفیہ سفارتکاری کی پالیسی اپنائی اور پاکستان میں تھرڈ آپشن کو قابل قبول حل بنانے کیلئے زمین ہموار کی۔ شہید صدر جنرل ضیاءالحق کی کشمیر پالیسی بہترین پالیسی تھی جو اسلام کی بنیاد پر کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق کا ھدف حاصل کرتی تھی۔

ای پیپر دی نیشن