لاہور (معین اظہر سے) اینٹی کرپشن نے کہا ہے حکومت پنجاب کو تقریباً 40 کروڑ سے زیادہ کا نقصان پہنچانے والی کنسٹرکشن کمپنی کے خلاف کریمنل کیس کسی معاہدے کے تحت ختم نہیں ہو سکتے اس لئے وزیر اعلیٰ سیکرٹریٹ ان کیسوں کو جوڈیشل فورم پر فیصلہ ہونے دے، وزیر اعلیٰ سیکرٹریٹ کو عزیز اللہ خان اینڈ کمپنی اور ہدایت اللہ خان اینڈ کمپنی کی طرف سے درخواست دی گئی تھی ان کا معاہدہ سی اینڈ ڈبلیو ڈیپارٹمنٹ سے ہو گیا ہے، ان کے خلاف انٹی کرپشن کے کیس ختم کر دئیے جائیں جس پر وزیر اعلیٰ سیکرٹریٹ نے ڈی جی اینٹی کرپشن کو لیٹر جاری کر دیا تھا کہ معاہدے کے تحت کیس ختم کر دئیے جائیں۔ جس پر ڈی جی اینٹی کرپشن نے وزیر اعلیٰ سیکرٹریٹ کو بھجوائی، رپورٹ میں کہا ہے سی اینڈ ڈبلیو ڈیپارٹمنٹ نے 13 فروری 2012ءکو رپورٹ بھجوائی تھی جس میں لاہور جڑانوالہ فیصل آباد جھنگ بھکر دریا خان روڈ جو 107 کلومیٹر بنتی ہے کو کشادہ اور نئی بنانے کے لئے ایک ارب 19 کروڑ روپے کا منصوبہ 2006ءمیں بنا تھا اس کام کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا جس میں گروپ ٹو اور تھری کا کام عزیز اللہ خان کمپنی کو دیا گیا تھا۔ کنٹریکٹر نے کام روک دیا اور اس کا معاہدہ محکمہ سی اینڈ ڈبلیو نے نومبر 2010ءکو منسوخ کر دیا جس کے تحت مذکورہ کمپنی نے خزانہ کو 40 کروڑ کا نقصان نامکمل کام کی وجہ سے پہنچایا جس وقت سی اینڈ ڈبلیو نے یہ کام کسی اور کمپنی سے کرانے کی کوشش کی تو مذکورہ کمپنی نے اپنی جمع کرائی ہوئی ایڈوانس رقم دھوکہ سے سرکاری خزانہ سے نکلوا لی۔ جس پر سی اینڈ ڈبلیو نے وزیر اعلیٰ پنجاب کو دوبارہ اپنی رپورٹ بھجوائی جس میں کہا گیا تھا محکمہ نے کنٹریکٹر سے دوبارہ معاہدہ کر لیا ہے جس کے تحت اس کا کنٹریکٹ بحال کر دیا گیا ہے اور وہ 31 مئی 2013ءتک اپنا کام مکمل کرے گی۔ اس کے بدلے تمام کیس واپس لئے جائیں گے اور تمام کنٹریکٹ 24 ستمبر 2009ءسے دوبارہ بحال کر دئیے جائیں گے۔ گروپ ٹو کام میں جو جرمانہ ہو گا اس کو معاف کر دیا جائے گا اور کمپنی کو بلیک لسٹ کرنے کے حوالے سے سی اینڈ ڈبلیو اپنی کارروائی روک دے گا۔ ان تمام شرائط کو وزیر اعلی پنجاب نے منظور کر لیا جس پر عزیز اللہ اینڈ کمپنی نے ایک درخواست 28 نومبر 2012ءکو وزیر اعلیٰ پنجاب کو دی کہ معاہدے کے تحت اینٹی کرپشن کے کیس ختم کر دئیے جائیں جس پر وزیر اعلیٰ پنجاب نے اس پر ہدایات جاری کیں چونکہ سی اینڈ ڈبلیو کے ساتھ معاہدہ ہو گیا ہے اس لئے اس کمپنی کے خلاف اس پراجیکٹ کے کیس ختم کر دئیے جائیں جس پر ڈی جی اینٹی کرپشن نے کہا ہے چونکہ یہ کیس پینڈنگ ہیں ان میں کیس ایف آئی آر نمبر 7 جو اینٹی کرپشن سٹیشن میانوالی میں درج ہے جس میں ٹینڈر میں پولنگ کا کیس ہے جو مہر خان نیازی کنٹریکٹر کی درخواست پر ہے جس میں الزام لگایا گیا ہے ان ٹینڈر میں پول کیا گیا تھا اور اس کے ریٹ بھی تبدیل کر دئیے گئے تھے۔ افتخار احمد ایکسین اور دو کمپنیوں کے خلاف کیس ہے انکوائری کے بعد کریمنل کیس رجسٹرڈ کیا گیا ہے جس میں شوکت شاہین سابق چیف انجینئر سا¶تھ پنجاب، چودھری منظور احمد سپرنٹنڈنٹ ہائی وے سرکل، چودھری افتخار احمد ایکسین اور دو کمپنیوں کے خلاف رجسٹرڈ ہوا ہے۔ اس وقت کیس ٹیکنکل برانچ میں پینڈنگ ہے۔ اس کے علاوہ کیس ایف آئی آر نمبر 23 جو 2012ءمیں پولیس سٹیشن اینٹی کرپشن میانوالی میں درج ہوا تھا جس میں جمشید خان نے درخواست دی تھی کہ کنٹریکٹرز نے جعلی طور پر ایکسین اصغر خان کے دستخط کر کے اپنی سکیورٹی جو 4 کروڑ 20 لاکھ تھی نکلوا لی تھی۔ اس کیس میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج میانوالی کی اجازت سے تمام بنک ریکارڈ قبضہ میں لے لیا گیا اور انکوائری ہو رہی ہے۔ اسی طرح انکوائری نمبر 12 جو بھکر میں چل رہی ہے میں الزام ہے ایکسین افتخار احمد، گل اصغر ایس ڈی او، خادم حسین سب انجینئر، بشیر حسین سب انجنیر ، مقصود حیات ایس ڈی سی، سعید احمد اکا¶نٹ کلرک نے ملی بھگت سے کمپنی کو 5 کروڑ سے زیادہ کی رقم جاری کی تاہم یہ انکوائری رٹ پٹیشن کی وجہ سے پینڈنگ ہے۔ اس لئے مذکورہ کمپنیوں کے خلاف کریمنل پروسیڈنگ چل رہی ہے جو قانون کے تحت ہی ختم ہو سکتی ہے یہ تمام اقدامات کسی کنٹریکٹ کے تحت ختم نہیں ہو سکتے۔ اس لئے سی اینڈ ڈبلیو اور کنٹریکٹر کے درمیان معاہدہ کریمنل کیسوں پر اثرانداز نہیں ہو سکتا ہے۔